قائمقام سپیکر کاہدایات کے باوجود وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ محکمے کے سیکرٹری کی عدم موجودگی پر سخت برہمی کا اظہار ،تمام سوالات منگل تک موخر کر دئیے گئے،معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے نوٹس میں لانے کی ہدایت

جمعہ 3 اپریل 2015 16:20

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03 اپریل۔2015ء) قائمقام اسپیکر سردار شیر علی گورچانی نے سخت ہدایات کے باوجود وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ محکمے کے سیکرٹری کی عدم موجودگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ داخلہ سے متعلق تمام سوالات منگل کے روز تک موخر کر دئیے جبکہ قائمقام اسپیکر نے معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے نوٹس میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے رولنگ دی کہ کوئی بھی کام اس مقدس ایوان سے زیادہ اہم اورقیمتی نہیں ،آئندہ وقفہ سوالات کے دوران جس محکمے کاسیکرٹری موجود نہیں ہوگا اسکے تمام سوالات موخر کر دئیے جائیں گے، بیورو کریسی کا رویہ انتہائی نا مناسب ہے اور پنجاب کے ایوان کو مذاق بنانے کی کوشش کوبرداشت نہیں کیا جا سکتا ،اگر سیکرٹری داخلہ ایک گھنٹہ نکال لیتے تو قیامت نہیں آ جانی تھی ،آزاد رکن اسمبلی احسن ریاض فتیانہ کی طرف سے کورم کی نشاندہی پر صوبائی وزیر خزانہ پری بجٹ بحث سمیٹ نہ سکے ، اجلاس میں ساہیوال یونیورسٹی اور جھنگ یونیورسٹی کے مسودات قوانین ایوان میں پیش کر دئیے گئے جنہیں متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیا گیا ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی مقررہ وقت نو بجے کی بجائے ایک گھنٹہ 15منٹ کی تاخیر سے قائمقام اسپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول کے بعد حکومتی رکن اسمبلی عائشہ جاوید نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ واضح ہدایات کے باوجود آج بھی متعلقہ محکمے کے سیکرٹری گیلری میں موجود نہیں ۔

انہیں عوام اور اس ایوان کے قیمتی وقت کا احساس ہونا چاہیے ۔ جس پر قائمقام اسپیکر نے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی مصروفیات کے باعث ایوان میں انکی جگہ جواب دینے کے لئے موجود صوبائی وزیر ملک ندیم کامران سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ اس حوالے سے واضح حکم دے چکے ہیں اور افسوس کہ سیکرٹری داخلہ تشریف نہیں لائے ،میں بھی تین روز سے سوالات کی سٹڈی کر رہا ہوں اس میں جوابات غیر مطمئن ہیں ۔

قائمقام اسپیکر سردار شیر علی گورچانی نے سیکرٹری داخلہ کی عدم موجودگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیورو کریسی کا رویہ نا مناسب ہے ، ایوان کو مذ اق بنانے کی کوشش برداشت نہیں کر سکتا ۔ اگر سیکرٹری داخلہ ایک گھنٹہ نکال لیتے تو قیامت نہیں آجانی تھی ۔ قائمقام اسپیکر نے رولنگ دی کہ آئندہ وقفہ سوالات کے دوران جس محکمے کا سیکرٹری موجود نہیں ہوگا اسکے تمام سوالات موخر کر دئیے جائیں گے۔

سردار شیر علی گورچانی نے ملک ندیم کامران کو معاملہ وزیر اعلیٰ کے نوٹس میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بیورو کریسی ایوان کو مذاق نہ بنائے ۔ انہوں نے صوبائی وزیر کو متنبہ کیا کہ اگر منگل کے روز تسلی بخش جوابات نہ آئے تو آپ اور سیکرٹری جوابدہ ہوں گے۔ اس موقع پر قائمقام اسپیکر نے پارلیمانی سیکرٹری نذر گوندل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بیشک بہت محنت کرتے ہیں لیکن اگر آپ کو بھی کوئی محکمہ صحیح جواب نہیں دیتا تو آپ ایوان کو بتائیں گے اور اس پر ایوان کارروائی کرے گا۔

سرکاری کارروائی کے دوران صوبائی وزیر ملک ندیم کامران نے مسودہ قانون ساہیوال یونیورسٹی 2015 ء اور صوبائی وزیر قانون مجتبیٰ شجاع الرحمن نے مسودہ قانون جھنگ یونیورسٹی 2015ء ایوان میں پیش کئے جنہیں متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیاگیا ۔ اجلاس کے دوران محکمہ لائیو سٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ حکومت پنجاب کی لائیو سٹاک کی تجرباتی اسٹیشنز کے حسابات کے بارے میں سپیشل آڈٹ رپورٹ برائے سال 2008-09ایوان میں پیش کی گئی جسے سپیشل کمیٹی Iکے سپردکر کے ایک سال میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ۔

اپوزیشن کے رکن وقاص حسن اختر موکل نے محکمہ لائیو سٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ سے متعلق آڈٹ رپورٹ کے حوالے سے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا ہے زمینی حقائق اسکے برعکس ہیں ۔ ایک اکاؤنٹ آفیسر کو ترقی دے کر چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے تک پہنچایا گیا تاکہ کرپشن کی جا سکے ۔ ایچ آر کمیٹی کی کوئی رپورٹ نہیں ۔ اس میں سات مشیر رکھے گئے ہیں حالانکہ اتنے مشیر تو وزیر اعلیٰ کے بھی پاس نہیں ہوں گے ۔

بورڈ کے چیئر مین ایک پرائیویٹ ملٹی نیشنل کمپنی کے بھی چیئرمین ہیں ۔ آپ اس پر کمیٹی بنا دیں میں اس میں پیش ہونے کے لئے تیار ہوں جس پر قائمقام اسپیکر نے کہا کہ آپ کے جو بھی تحفظات ہیں آپ تحریری طور پر دیدیں ۔ اس حوالے سے جو کمیٹی بنی ہوئی ہے آپ کے تحفظات اس کمیٹی کو بھجوائے جائیں گے۔ گزشتہ روز بھی اراکین نے پری بجٹ بحث میں حصہ لیا اور اپنی تجاویز پیش کیں ۔

تمکین اختر نیازی نے اپنی تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ بجٹ میں زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ محمد ثاقب خورشید نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں ترقی کے لئے ریسرچ سنٹرز قائم کئے جائیں ۔ سردار وقاص حسن اختر موکل نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سال بھی تجاویز دی تھیں صوبائی وزیر بتائیں اس میں سے کتنی تجاویز کو شامل کیا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صوبائی وزیر اس سے پہلے ایوان کو بتاتے کہ گزشتہ سال مختص بجٹ میں سے کتنے فیصد خرچ ہو سکا ۔

انہوں نے کہا کہ پری بجٹ بحث میں تجاویز پر تجاویز دی جارہی ہیں جبکہ میری اطلاع کے مطابق بجٹ بن چکا ہے اور ایک فیصد ترامیم کی بھی گنجائش نہیں ۔یہاں صرف وقت ضائع کیا جارہا ہے یہی وقت امن و امان ‘ کسانوں اور دیگر مسائل پر بحث کے لئے رکھ لیں ۔ ممبران کو بھی معلوم ہے کہ پری بجٹ سیشن کا کوئی فائدہ نہیں پھر یہ کیوں کر رہے ہیں اس لئے میں اس میں کوئی تجویز نہیں دوں گا کیونکہ مجھے حقیقت کا ادراک ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 2015ء آ گیا ہے لیکن آج بھی 1875والی سیاست کی جارہی ہے۔ میرے حلقے میں میرے نام کی تختی نہ لگوائیں کیونکہ میں اس سے صدر ‘ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نہیں بن جاؤں گا لیکن میرے حلقے کی عوام پر رحم کریں پنجاب لٹو ،پھُٹوکی پالیسی پر گامزن ہے نہ یہاں (ایوان میں)کوئی شنوائی ہے اور نہ وہاں (حکومت )میں کوئی شنوائی ہے ۔ اپوزیشن کے حلقوں میں ترقیاتی کام نہ کروا کر کونسی بچت ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف خود کو پورے صوبے کا خادم اعلیٰ کہتے ہیں کیا میرا حلقہ او راسکی عوام پنجاب یا پاکستان میں نہیں آتے ۔ ہم نے کوئی کمیشن نہیں لینی۔ وزیر اعلیٰ میرے حلقے میں کام کرائیں وہاں اپنے نام کی تختی لگوائیں میں ان کا جھنڈا اٹھاؤں گا کہ انہوں نے یہ کام کرائے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کب تک صبر کیا جائے ، میں رکن اسمبلی بنوں گا یا نہیں لیکن حکومت کو غلط فہمی ہے یہ حکومت دوبارہ واپس نہیں آئے گی جس پر حکومتی بنچوں پر بیٹھے اراکین نے احتجاج کیا ۔

انہوں نے قائمقام اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کسٹوڈین ہیں آپ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ۔ احسن ریاض فتیانہ نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں سے صرف 30فیصد استعمال ہو سکا ہے ۔ ہر رقم بلاک ایلوکیشن میں رکھ دی جاتی ہے اور وزیر اعلیٰ کی اجازت کے بغیر ایک پیسہ خرچ نہیں ہو سکتا۔ضمنی بجٹ کی مد میں اربوں خرچ کر دئیے جاتے ہیں اور بعد میں ایوان کو بتایا جاتاہے ۔

معیشت کا انحصار زراعت پر ہے لیکن بتایا جائے کسان کو ریلیف دینے کے لئے کیا اقداما ت اٹھائے گئے ۔ حکومت کی جتنی بھی پالیسیاں ہیں وہ کسان کش ہیں ۔ اگر کسان نہیں ہوگا تو انڈسٹری بھی نہیں چلے گی ۔ جتنی رقم لاہور پر خرچ کی گئی ہے اگر یہ پنجاب پر خرچ کی جاتی تو پورے صوبے کی صورتحال یکسر مختلف ہوتی ۔شہزاد منشی نے کہا کہ اقلیتوں کی آبادی بڑھی ہے لہٰذا آئندہ بجٹ میں اس تناسب سے اقلیتوں کے لئے فنڈز مختص کیا جائے ۔

سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں بھی اقلیتوں کے کوٹے میں اضافہ کیا جائے ۔ نگہت شیخ نے کہا کہ محکمہ پولیس میں سکریننگ کی جائے کیونکہ کئی افسران قبضہ مافیا کے شیلٹر کا کام کرتے ہیں ۔ جی او آر سمیت دیگر مقامات پر واقع آٹھ سے دس کنال کی سر کاری رہائشگاہوں کو دس مرلہ یا ایک کنال تک محدود کیا جائے ۔ جد ید علوم کو اپنی زبان میں ڈھالا جائے ۔

زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کہا جاتا ہے اس کے لئے اس طرح کے اقدامات بھی اٹھائے جائیں۔ چوہدری طارق سبحانی نے کہا کہ سیالکوٹ میں ٹیکنالوجی کالج دیا جائے ۔ چوہدری عامر سلطان چیمہ نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اراکین جو تجاویز دیتے ہیں حکومت ان پر عمل نہیں کرتی۔ حکومت صرف نمود و نمائش پر توجہ دے رہی ہے ۔ بڑے بڑے ہورڈنگز اور اخبارات میں اشتہارات دئیے جارہے ہیں ۔

پنجاب حکومت کا نعرہ پڑھو پنجاب اور بڑھو پنجاب نہیں بلکہ لُوٹو پنجاب پھُوٹو پنجاب ہونا چاہیے تاہم اسپیکر نے یہ الفاظ کارروائی سے حذف کرا دئیے ۔ عبد الرؤف مغل نے کہا کہ ہماری معیشت میں 23فیصد حصہ زراعت کا ہے ۔ اگر زراعت نہیں ہو گی تو ٹیکسٹائل سمیت کوئی انڈسٹری نہیں چل سکتی ۔ زرعی اجناس کی پرائس سکیورٹی کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں۔

نبیرہ عندلیب نے کہا کہ شہری علاقوں میں صورتحال بہتر ہے لیکن دور دراز علاقوں میں حالات تسلی بخش نہیں۔ 21ویں آئینی ترامیم پر مکمل عملدرآمد کرایا جائے ۔ مذہبی منافرت کے خاتمے کے لئے علماء کو تربیت دی جائے اور اسکے بعد انہیں مساجد میں تعینات کیا جائے ۔ اخلاقیات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔ محمد احمد خان نے کہا کہ اگر قانون پر عملدرآمد نہ ہو تو اسکی افادیت ختم ہو جاتی ہے ۔

رولز133اے (I،IIاورIII)کے مطابق اراکین جو تجاویز دیں گے وزیر خزانہ اس میں سے ذکر اور قابل عمل تجاویز کو ایک قرارداد کی شکل میں ایوان سے منظوری لے کر حکومت کو ترسیل کریں گے کہ وہ اس کو بجٹ کا حصہ بنائے ۔لیکن مجھے نظر نہیں آرہا ہے کہ وزیر خزانہ ایسی کوئی قرارداد پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کی افادیت ختم ہو گئی تو حکومت بھی اپنی رٹ قائم نہیں رکھ سکے گی ۔

18ویں ترمیم کے بعد 21محکمے صوبوں کے پاس آئے چاہیے تو یہ تھا کہ اسٹینڈنگ کمیٹیز کو متحرک کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا ‘ نائیجیریا اور جنوبی افریقہ میں ترقی کے اشاریے پارلیمنٹ اور اسکی کمیٹیز کی ورکنگ سے بہتر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے دیہات جہنم کا نقشہ پیش کر رہے ہیں ، حکومت کی رٹ دیہات میں نہیں ۔

میں وزیر خزانہ کو جادو کا نسخہ بتاتا ہوں کہ وہ پبلک روڈز ‘ سکولوں ‘ ہسپتالوں ‘ میونسپلٹی اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال میں بہتری لے آئیں سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اراکین اسمبلی کو ذمہ داری دی جائے اور وہ جوابدہ ہونے چاہئیں ۔ پری بجٹ بحث میں دیگر اراکین نے بھی حصہ لیا تاہم جب وزیر خزانہ نے پری بجٹ بحث کو سمیٹنے کے لئے اپنی تقریر کا آغاز کیا ہی تھاکہ آزاد رکن اسمبلی احسن ریاض فتیانہ ایوان میں آگئے اورکورم کی نشاندہی کر دی ۔ قائمقام اسپیکر کی طرف سے اس عمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے گنتی کرائی گئی اور تعداد پوری نہ ہونے پر پانچ منٹ کے لئے گھنٹیاں بجائی گئیں اور تعداد پوری نہ ہونے پر اجلاس پیر کی دوپہر دو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا ۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں