اربوں ،کھربوں کے قرضے ہڑ پ کرنے ،کرپشن کرنیوالوں کا احتساب ہونے تک پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی رفاعی مملکت نہیں بن سکتا‘ شہباز شریف

منگل 5 جنوری 2016 15:14

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔05 جنوری۔2016ء) وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ جب تک اربوں ،کھربوں کے قرضے ہڑ پ کر جانے اورکرپشن کرنے والوں کا احتساب نہیں ہوگا اس وقت تک پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی رفاعی مملکت بن سکے گا اور نہ ہی قائد کا پاکستان اور اقبال کے خواب شرمندہ تعبیر ہو سکیں گے، اربوں ، کھربوں کے قرضے معاف کرانے والے خود کو اشرافیہ کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہر طرف ان کا راج ہے لیکن اس روش کو بدلنا اوراس کلچر کو جڑ سے اکھاڑکر دفن کرنا ہوگا ،وزیر اعلیٰ خود روزگار سکیم ایک تحریک اور انقلاب کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جب تک موقع عطا کیا وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں اس تحریک کو بڑھاتے چلے جائیں گے تاوقتیکہ وہ وقت آئے گا کہ پاکستان کے اندر کوئی ہاتھ پھیلانے والا نہ ہو ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بادشاہی مسجد میں اس سکیم کے تحت بلا سود قرض فراہم کرنے کے لئے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا کہ پورے پنجاب میں مزید پچیس ہزار افراد ایک ارب کے قرضے حاصل کریں گے اوراللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہ صرف پاکستان کی پیداوار میں اضافہ کریں گے بلکہ معاشرے کا بوجھ بننے کی بنائے اپنے خاندان او معاشرے کا بوجھ بانٹیں گے۔

آج ہم دنیا کی عظیم اور تاریخی مسجد بادشاہی مسجد میں موجود ہیں اور بالکل اس قرب میں حصرت علامہ اقبال ابدی نیند سوئے ہوئے ہیں ۔یہاں سے بہت قریب مینار پاکستان ہے جہاں 1940ء میں حصرت قائد اعظم کی سربراہی میں بہت بڑی مجلس ہوئی اور قرارداد پاکستان منظور کی گئی جس کے اعلیٰ و عرفہ مقاصد جس کی بنیاد پر لاکھوں لوگوں نے شہادت کا جام نوش کیا جس کی وجہ سے پاکستان معرض وجود میں آیا کہ کہ ایسا ملک جہاں انصاف کا بول بالا ہوگا ،محنت امانت اور دیانت سکہ رائج الوقت ہوگا جہاں بغیر کسی تمیز کے امیر اور غریب کے ہر ایک کو معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لئے تمام مواقع میسر ہوں گے ۔

آج ہم سب اس عظیم مسجد میں موجود ہیں مجھ سمیت سب اپنے دل میں ہاتھ کر بتائیں 70سالہ سفر میں ہم نے اس خواب کو کس حد تک پورا کیا اور وہ کتنا ادھورا ہے یہ وہ تشنہ اور تیکھا سوال ہے جو ہماری آنکھوں میں نشتر کی طرح چپ رہا ہے اور ہم جواب دینے سے قاصر ہیں کہ وہ عظیم خواب جس کے لئے پاکستان معرض وجود میں آیا ، خداد ملک پاکستان کے مقاصد کس حد تک پورے ہوئے ؟۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب اس مالک کے حصور شرمندہ ہیں جس نے ہمیں اتنی بڑی نعمت سے نوازا لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ۔آج بھی اس عظیم تاریخی مسجد میں یہ عہد کر لیں کہ ہم صدق دل کے ساتھ پاکستان کو صحیح معنوں میں قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے صحیح معنوں میں اقبال کے افکار کے مطابق اس ملک کی تعمیر کریں گے اور اس کو اسلامی رفاعی مملکت بنائیں گے تو بخدا یہ مشکل ضرور ہوگالیکن نا ممکن نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ یا خادم اعلیٰ روزسگار سکیم میں بغیر کسی خوف وتردید کہہ سکتا ہوں یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے ،انقلابی روپ دھار رہی ہے اور یہی وہ ان مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تھاجس کے لئے پاکستان کا معرض وجود میں آنا تھا کہ غریب اور امیر کے درمیان فرق کم کیا جائے ۔ غربت کا خاتمہ کیا جائے او رایک ہی صف میں سب کھڑے ہو جائیں ۔

ہر جمعہ کو ہر نماز میں ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن عملی میدان میں ا س کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اس لئے ہم نے ایک ہی صف میں کھڑا ہونا ہے یہی وہ راستہ ہے یہی وہ انقلاب ہے جس سے ہم پاکستان کو خوشحالی کے انقلاب سے ہمکنار کر اسکتے ہیں۔ تفصیل میں جائے بغیر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صرف چند سال پہلے اس پروگرام کے لئے حکومت پنجاب نے 50کروڑ روپے فراہم کئے اور آج 5ارب روپے کے پروگرام کے ساتھ ساڑھے 8لاکھ خاندان ،پچاس لاکھ انفرادی افراد میں ساڑھے 17ارب روپے کے قرضے جاری کئے جا چکے ہیں ۔

آپ کہیں گے کہ ساڑھے 17ارب کے قرض کیسے جاری کئے گئے جبکہ پانچ ارب روپے مہیا کئے گئے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ واپس آتا ہے اور پھر کسی کو قرضہ دیا جاتا ہے اور اس سلسلے کے ذریعے ساڑھے 17ارب روپے کے قرضے جاری کئے جا چکے ہیں اور 99.9فیصد قرض واپس ہوتے ہیں اور بلا سود قرضے ہیں ۔بتائیں مجھ جیسے بڑے بڑے لوگ ، تمن دار اور بڑی کلغیاں لگانے والے ،شیرانیاں او رسوٹ پہننے والے ،لمبی تڑنگی گاڑیوں میں سفر کرنے والے اور محلات میں رہنے والے جنہوں نے اربوں ،کھربوں کے قرضے لئے اور ہڑپ کر گئے آج بھی موجو دہیں اور لمے تڑنگے بیان جاری کرتے ہیں ،وہ قرضہ خور ہیں ، انہوں نے معاف کراہے ہیں ،ان کی گاڑیاں اور محل بھی موجود ہیں ،اثاثے بھی موجود ہیں اورملک کے قرضے جوعام آدمی کی خون پسینے کی کمائی تھے وہ ہڑپ کر گئے اور وہ خود کو اشرافیہ کہلاتے ہیں ۔

ہمارا کچھ کلچر اور ماحول بن گیا ہے اور بنا دیا گیا ہے کہ ان کی باتیں بڑے غور اور احترام سے سنی جاتی ہیں کیا یہ وہ لوگ ان سے بڑھ کر عظیم پاکستانی ہیں جو فجر کے وقت اٹھتے ہیں اللہ کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں اورگڑا گڑا کر گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں کہ پاکستان کو عظیم فلاحی مملکت بنا دیتے ہیں اور دھوپ ،گرمی اورسردی دیکھے بغیر رزق کی تلاش میں نکل جاتے ہیں اور رزق حلال کماتے ہیں اور ایسے لوگ قرضے لے کر 99.9فید واپس کرتے ہیں یہ لائق احترام ہیں یا وہ لائق احترام ہیں ،وہ عظیم پاکستانی ہیں یا یہ عظیم پاکستانی ہیں ،وہ جھنڈے اور سلیوٹ کے حقدار ہیں یا یہ عظیم لوگ سلیوٹ او رعزت کے حقدار ہیں جو کہ پاکستان کو بنا رہے بھی رہے ہیں قرضے بھی ادا کر رہے ہیں اور عزت کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔

وہ لوگ جنہوں نے اربوں ،کھربوں کی کرپشن کے ذریعے ملک کو کھوکھلا کر دیا تباہ کر دیا ،قرضے معاف کرا کے پاکستان کی کشتی کو ڈبونے میں بھرپور گھناؤنا کردار ادا کیا آج وہ اشرافیہ کہلاتے ہیں ،آج وقت آ گیا ہے کہ یہ انقلاب یہ تحریک اس عروج پر ہے اور جواں ہو چکی ہے ۔ ہم اس پروگرام کو ،اس تحریک کو اورانقلاب کو خود نمائی کیلئے نہیں بلکہ اس نیک مقصد کے لئے اورعظیم پاکستانیوں کو جو کہ اس وطن کو صحیح معنوں میں عظیم مملکت بنانا چاہتے ہیں ان کو پاؤں پرکھڑا کرنے کے لئے اور پاکستان کے عظیم معمار بنانے کے لئے ان قرضہ جات میں مزید اربوں روپے کا ضافہ کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ زندگی محدود ہے جب تک اللہ تعالیٰ نے موقع عطا کیا وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں اس تحریک کو بڑھاتے چلے جائیں گے تاوقتیکہ وہ وقت آئے گا اگر میری زندگی میں نہیں کسی اور زندگی میں وہ وقت آئے گا کہ پاکستان کے اندر کوئی ہاتھ پھیلانے والا نہ ہو اور دینے والے ہوں ۔ ہم باہر کے ممالک سے قرضے نہ لیں بلکہ ہم قرض دینے کے قابل ہوں ۔

اگر دنیا کے ممالک نے یہ کام کر دکھایا ہے تو ہم میں کس چیز کی کمی ہے ۔اگر ہم میں کمی ہے تو ان لوگوں کا احتساب کرنے کی کمی ہے جو اربوں ،کھربوں کے قرضے معا ف کراکر کھا گئے ،ڈکار مار گئے اور آج بھی وہ گھومتے پھرتے ہیں اور ہر طرف سمجھتے ہیں کہ ہمارا راج ہے ۔جب تک یہ روش نہیں بدلے گی اس کلچر کو جڑ سے اکھاڑ کر دفن نہیں کر دیں گے نہ تو پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی رفاعی مملکت بن سکے گا ، نہ ہی قائد کا پاکستان بن سکے گا نہ ہی اقبال جن کی قبر چند گز کے فاصلے پر ہے ان کے خواب شرمندہ تعبیر ہو سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کی مخالفت میں بھی بیان آتے ہیں اور کون یہ بیان دیتے ہیں جنہوں نے خود اربوں کھربوں کے قرضے ہڑپ کئے ہیں تو ان کے لئے جواب یہ ہے کہ برہم ہو بجلیاں کہ ہوائیں خلاف ہوں ،کچھ بھی ہو اہتمام چراغاں کریں گے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں