ٹوکیو ، جکارتہ میں پاکستانی سفارتخانوں کی عمارات کی غیر قانونی فروخت کے معاملے کی تحقیقات جاری ہیں ‘ آڈیٹر جنرل پاکستان

پیر 18 جنوری 2016 16:36

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 جنوری۔2016ء) آڈیٹر جنرل آف پاکستان رانا اسد امین نے کہاہے کہٹوکیو اور جکارتہ میں پاکستانی سفارتخانوں کی عمارات کی غیر قانونی فروخت کے معاملہ پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نوٹس لے چکی ہے اورنیب اس پر تحقیقات کر رہا ہے ،30مارچ تک رپورٹ کو حتمی شکل دیدی جائے گی اور اس میں جو بھی ذمہ دار ٹھہرے گا اسے گرفت میں لے کر ریکوری کی جائے گی ، وفاقی وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے خصوصی آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،صوبائی حکومتیں بھی تاخیر شدہ آڈٹ رپورٹس مکمل کرائیں،آڈٹ ڈیپارٹمنٹ درست سمت میں اورذمہ داری سے کام شروع کر دے تو ایف آئی اے اور نیب کا آدھا کام باقی رہ جائے ،کرپشن کے خاتمے کے لئے بہت جلد نیب کے ساتھ معاہدہ ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے زیر اہتمام 97 ویں بین الاقوامی پرفارمنس آڈیٹنگ پروگرام کے افتتاحی سیشن سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر ڈی جی پرفارمنس آڈٹ ٹریننگ شہزاد رضا سید ، عمران اقبال ، طلعت امتیاز ، روبینہ فیصل سمیت آڈیٹرز کی کثیر تعداد بھی موجود تھی ۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان رانا اسد امین نے کہا کہ ہم وزیر اعظم کی ہدایت پر وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کس وزارت نے تین سالوں میں کیا کام کیا اور اس کو کیا کرنا چاہیے تھا۔

ہدف سے کم یا زیادہ کی ایک رپورٹ تیار ہو گی جو کہ پارلیمنٹ اور کابینہ میں زیر بحث آئے گی۔اب ہر وزارت کو چوکس ہو کر اپنے کام پر توجہ دینی ہو گی اور اسی طرح کارکردگی دکھانا ہو گی جیسا کہ وزیر اعظم چاہتے ہیں۔پہلے مرحلے میں وزارت تجارت کا آڈٹ کیا جا رہا ہے جبکہ باقی تمام وزارتوں کی کارکردگی کا بھی آڈٹ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا آڈٹ ڈیپارٹمنٹ درست سمت میں اور صحیح کام کرنا شروع کر دے تو محکمہ نیب اور ایف آئی اے کا کام آدھے سے بھی کم رہ جائے گا۔

آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کے پاس لوگوں کو پکڑ دھکڑ اور جائیدادیں قرق کرنے کا اختیار نہیں،یہ ایف آئی اے اور نیب کے پاس ہے ۔ہمارے آڈیٹرز آڈٹ کے دوران جب کوئی فراڈ یا بدانتظامی دیکھتے ہیں تو وہ رک جاتے ہیں اور متعلقہ سیکرٹری کو رپورٹ کرتے ہیں اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے اور پھر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتاتے ہیں جو کہ دو سال بعد معاملہ زیر بحث لاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بد انتظامی کے خاتمہ اورکرپشن کو پکڑنے کے لئے نیب کے ساتھ ایم او یو سائن کر رہے ہیں تاکہ ہم کسی بھی بد انتظامی کے ظاہر ہونے پر ساتھ ہی مقدمہ ان کے سپرد کردیا جائے تاکہ وہ تفتیش اور کیس کے دوران اس سے مدد حاصل کریں اور اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جاسکے کہ اصل حقیقت کیا ہے ، اگر کوئی فراڈ کرنے کی سوچ بھی رکھتا ہو تو وہ نہ کر سکے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کہا کہ انہوں نے صوبہ سندھ اور خیبر پختونخواہ کا دورہ کیا ہے اور وزرائے اعلی سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ ان صوبوں میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں متحرک ہو چکی ہیں ۔ ان سے کہا ہے کہ پرانی آڈٹس رپورٹ کافی تاخیر کا شکار ہو گئی ہیں جن کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اس سال سے آڈٹ کے تسلسل کو بہتر بنایا جائے تاکہ جو بھی رپورٹ بنے اگلے سال اس کو زیر بحث لایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالہ آڈٹ رپورٹ میں سے کچھ افراد ریٹائریا وفات پا چکے ہیں جبکہ کچھ پکڑے ہی نہیں گئے اس لیے ہم نے احتساب کا عمل تیز کر دیا ہے اور اگلے سال سے ہم رواں سال کے مطابق آڈٹ کرنا شروع کریں گے۔ انہوں نے ٹوکیو اور جکارتہ میں پاکستان کے سفارتخانوں کی عمارات کی غیر قانونی فروخت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بتایا کہ اس کا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نوٹس لے چکی ہے جس پر محکمہ نیب کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ 30مارچ تک ہم اس رپورٹ کو حتمی شکل دے لیں گے اور اس میں جو بھی ذمہ دار ٹھہرا اس کو گرفت میں لیں گے اور ریکوری کریں گے۔

قبل ازیں خطاب کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل پاکستان نے بتایا کہ 1981ء سے اب تک پاکستان 33 ممالک کے 330 افسران کو آڈٹ کی تربیت دے چکا ہے اور یہ 97 واں کورس ہے جو ہر سال پاکستان منعقد کراتا ہے ۔یہ تربیتی پروگرام 18جنوری سے12فروری تک جاری رہے گا جس میں بھوٹان،بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال،ترکی،افغانستان اورکرغزستان نے شرکت کی ہے جن کو ہمارے افسران تربیت دے رہے ہیں اور اس سے پاکستان کو دنیا میں پذیرائی حاصل ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں پرفارمنس آڈٹ میں پاکستان علمبرداری کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سے پہلے پرفارمنس آڈٹ چھوٹے اداروں کے ہوا کرتے تھے جس طرح سکول، ہسپتال وغیرہ لیکن اس دفعہ ہم وزارتوں کی سطح پر کارکردگی کا جائزہ لیں گے کیونکہ ہر وزارت کے مقاصد متعین ہوتے ہیں کہ اس نے پانچ سالوں میں کیا اہداف حاصل کرنے ہیں اور وہ اس میں کس حد تک کامیاب رہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے ان کو یہ رپورٹ پیش کرنی ہے جو رپورٹ تیار ہو گی وہ پارلیمنٹ اورکابینہ میں پیش کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہر وزارت کے اہداف مقرر ہوتے ہیں ہیں کہ وہ کتنا بزنس لائے گی، اس پر آج تک کسی نے آڈٹ نہیں کیا۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں