شان سے اسلم خان تک

اتوار 12 جنوری 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

میں9جنوری(جمعرات) کی شام کو دفتر میں اپنے صحافتی فرائض میں مصروف تھا۔ دل کافی بوجھل بوجھل تھا، افسردگی نے مغلوب کررکھا تھا۔ طبعیت بھی کچھ ناساز تھی جسکی بنیادی وجہ میرے سامنے تین ٹیلی وژن سکرینوں پر چلنے والی فوٹیجز تھیں۔ لیکن مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے کام میں مشغول رہنا پڑا کیونکہ ہماری صحافی برادری کے کام کی نوعیت اس لحاظ سے قدرے مختلف ہے کہ ہمیں نامساعد اور مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ایک صحافی کیلئے طبعیت کی ناسازی، خراب موسم، گرمی ، سردی،کشیدہ حالات، کرفیو وغیرہ کی صورتحال کام میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ حتیٰ کہ صحافی کو عیداور دیگر مذہبی تہواروں پر بھی اپنے فرائض انجام دینا پڑتے ہیں۔
کام اور طبعیت بوجھل ہونے کے دوران ہی میری میز پر پڑی ایل سی ڈی پر کھلے فیس بک پر میرے بچپن کے دوست امین ملک صاحب کا میسج نمودار ہوا۔

(جاری ہے)

"یہ آپ کے دفتری کام کا وقت ہے، میں آپکو کہیں ڈسٹرب تو نہیں کر رہا؟ میں ٹیلی وژن دیکھ رہا ہوں، پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں، یہ کون کررہا ہے، کون اس سب کا ذمہ دار ہے؟"امین نے اپنے پیغام میں لکھا۔ میں امین کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کرسکتا تھا، کیونکہ ایک تووہ میرا بچپن کا گہرا دوست ہے ،دوسرا وہ گزشتہ 22سال سے مجھ سے دور ہے، تیسرا کہ اس کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے اوروہ اسی سکول کا ہیڈماسٹر ہے جس میں ہم دونوں نے ابتدائی تعلیم ایک ساتھ حاصل کی اور اسی سکول کے میدان میں کھیلا کرتے تھے۔ امین سے میرے بچپن کی ساری یادیں وابستہ ہیں۔ اگرچہ امین کے مشکل سوالات کا جواب پاکستان میں کسی کے پاس نہیں ، تاہم امین سے بے پناہ محبت کی وجہ سے مجھے ہاں ناں کرتے ہوئے اس کے سوالات کے جواب میں کچھ لکھنا ہی پڑا۔ "ہاں، حالات خراب ہیں، کراچی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم دو اہلکاروں سمیت خودکش حملے میں جاں بحق ہوگئے"۔ میں نے امین کے مشکل سوالات کا مختصر سا جواب دیا۔ امین نہ صرف اعلیٰ پڑھا لکھا بلکہ بہت حساس اور ذہین ہے۔لہذا میرے جواب کو سمجھ کر اس نے مزید سوالات سے گریز کیا، اور میں بھی یہی چاہتا تھا کہ پاکستان کے حالات پر وہ مزید سوالات کر کے مجھے الجھاؤ میں نہ ڈالے۔ امین کی پریشانی مجھ سے ڈھکی چھپی نہیں تھی کیونکہ اس کے ذہن میں یہی بات تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں 90کی دھائی میں صورتحال کے کشیدہ ہونے کی وجہ پوری دنیا کے سامنے عیاں تھی۔ کشمیر میں خون خرابے، لاشیں گرنے ، مار دھاڑ اور کرفیو کی وجہ کشمیریوں کی بھارت
سے آزادی کا مطالبہ ہے جس کے جواب میں بھارتی فوج کی طرف سے کشمیر یوں کا قتل عام اور ظلم و بربریت کا سماں جاری رہا۔ لیکن اسلامی مملکت
خداداد پاکستان جہاں تقریباً97فیصد مسلمان رہتے ہیں جنہوں نے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں بے پناہ مشکلات میں آزادی حاصل کی اس ملک میں معصوم لوگوں کا قتل عام کون کررہا ہے؟ ٹارگٹ کلنگ میں کون ملوث ہے؟مساجد اور امام بارگاہوں میں کون خود کش حملے کررہا ہے؟ لوگوں کی جبری گمشدگی میں کون ملوث ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایسے سوالات جو امین کے ذہن میں گردش کررہے تھے انکے جواب کی تلاش میں پاکستان کا ہر شہری ہے۔ لیکن جواب دینے والا کوئی نہیں!
اس ملک میں جہاں لوگوں کی حفاظت کرنے والے ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری محمد اسلم جیسے پولیس افسران کی جان محفوظ نہیں ، وہاں عام شہریوں کی جان کون بچائے۔ دہشت گردی کے خلاف نبردآزما یہ پولیس افسر خود دہشت گردی کا شکار ہوا اور اپنے تین بیٹوں، بیٹی اور بیوہ کو سوگوار اور پوری قوم کو افسردہ کر کے اس دینائے فانی سے ہمیشہ کیلئے چلے گئے ۔ محمد اسلم کے بچوں کو اب پاپا کے آنے کا انتظار نہیں ہوگا، انکی فرمائشیں پوری کرنے والا ان کا پاپا اُس دہشت گردی کا شکار ہوئے جو پاکستان کو کینسر جیسے مہلک مرض کی طرح کھائے جارہا ہے۔ محمد اسلم پر اس سے قبل پانچ بار حملے ہوچکے ہیں اور چھٹی بار وہ اللہ کو پیارے ہوئے۔ محمد اسلم کی اہلیہ نورین کا کہنا ہے کہ محمد اسلم ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ موت اللہ کے حکم سے ہی آتی ہے، جو اللہ کو منظور ہوگا وہ ہوکررہے گا، وہی زندگی دینے اور لینے والی ذات ہے۔
محمد اسلم اپنے بچوں کو ٹیوشن پر لے جانے کیلئے گھر آئے تھے ۔دفتر سے اہم ٹیلی فون کال موصول ہوئی اور اپنی اہلیہ کو کہا کہ میں جلدی بچوں کو ٹیوشن لے جاؤں، لیکن اسی دوران دوسری کال آئی تو محمد اسلم نے بچوں کو ٹیوشن لے جانے کے بجائے اپنے دفتری فرائض کو ترجیح دی اور اپنے اسکاڈ کے قافلے کے ساتھ روانہ ہوئے اور عیسیٰ نگری کے پاس دو حملہ آور انکی گاڑی کے سامنے آئے ، ڈرائیور نے عام راہ گیر سمجھ کر بریک لگادی، اسی دوران دھماکہ ہوا اور محمد اسلم موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ اگرچہ حکومت نے انکے اہل خانہ کیلئے کچھ مراعات کا اعلان کیا، لیکن یہ محمد اسلم کے بچوں کیلئے انکے پاپا جان کا نعم البدل نہیں ہوسکتیں۔ محمد اسلم کے بچے رات کو آنکھیں بند کرنے اور ہر صبح آنکھیں کھولنے کے بعد اپنے پاپا کو نہیں دیکھ سکیں تو ان پر جو گزرے گی اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔
چوہدری محمد اسلم کے خلاف خودکش حملہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے تھے۔ لیکن ہنگو سے تعلق رکھنے والے صحافی شان ڈھر کو کس نے قتل کیا؟ اس نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ وہ اپنے قلم اور آواز کے ذریعے سچ کے حق میں اور جھوٹ کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ شان کو 31د سمبر 2013 اور یکم جنوری2014کی درمیانی رات کو نامعلوم بندوق برداروں نے دس فٹ کے فاصلے پر گولیوں کا نشانہ بنایا۔ شان کی بزرگ والدہ نے زاروقطار روتے ہوئے کہا کہ "میرے شان کو بے گناہ قتل کیا گیا، مجھے انصاف چاہئے، میرے شان کے قاتلوں کو سامنے لایا جائے تاکہ میں انہیں دیکھ سکوں اور ان سے پوچھ لوں کہ میرے شان نے ان کا کیا بگاڑا تھا، اللہ میرے سارے صحافی بیٹوں کی حفاظت کرے، میرا کوئی بھائی ہے نہ والد، میں ایک بیوہ ہوں، بیٹے کا واحد سہارا بھی چھین لیا گیا ۔۔۔۔ " شان گھر کی چھ خواتین کا واحد سہارا تھا۔ شان کی والدہ، دو بہنیں، دو کم سن بیٹیاں اور آنٹی، ان سب کی کفالت کون کرے، انہیں سہارا کون دے؟ شان کی دو بہنیں ، دو بیٹیاں اور والدشان کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟2014کے ان ابتدائی دنوں میں بھی پاکستانی عوام کو کوئی خوشی کی خبر سننے کو نہیں ملی۔ یکم جنوری2014کو شان کے المناک قتل اور آج 9جنوری کو عظیم پولیس افسر چوہدری محمد اسلم کی موت کی خبر نے پوری قوم کو افسردہ کیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :