ملک ہے کہ قتل گاہ

ہفتہ 25 جنوری 2014

Hussain Jan

حُسین جان

جب والدہ ماجدہ کے پیٹ میں تھا تو عجیب و غریب آوازیں سنائی دیتی تھیں،کبھی پھوپھا آکر ابا کو بتاتے کے ملک کے فلاں شہر میں بم بلاسٹ ہو گیا ہے۔ کبھی کسی اینکر کی آواز کانوں میں پڑتی کہ ایک مخصوص گروہ کے لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ میں اکثر بے سدھ پڑا خدا سے دُعا مانگتا تھا کہ یا رب میں کسی ملک میں پیدا ہو رہا ہوں یا مذبح خانے میں کہ یہاں ہر وقت قتل و غارت گری کی ہی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔

پھر ایک دن علاقے کے مولوی صاحب کی آواز کانوں میں سنائی دی وہ ابا سے کہ رہے تھے بچوں کی دُعایں اللہ کبھی رد نہیں کرتا، میں نے فوراً دُعا مانگی کہ جب میں پیدا ہوں اس ملک میں قتل و غارت بند ہو جائے۔ لیکن لگتا ہی تھا کہ ابھی اور امتحان باقی ہے۔ ابھی اسی شش و پنچ میں تھا کہ آپا نے اماں سے کہاں کہ ملک میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع ہو رہی ہے مگر حکومت کو اس کے لیے اہلکار دستیاب نہیں کیونکہ کوئی بھی ورکر 250روپے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگانے کو تیار نہیں۔

(جاری ہے)

جوں جوں میری پیدائش کا وقت قریب آتا جا رہا تھا گھر میں خوشی کے ساتھ ساتھ غم کے سایے بھی لہراتے جا رہے تھے۔ مہنگائی ، بے روزگاری ،خودکشیاں ،جاہلیت اور طبی سہولیات کے فقدان سے میں اپنی پیدائش سے پہلے ہی آشنا ہو چکا تھا۔ ہمارے گھرانے کے اکثر بوڑھے یہ کہتے سنائی دیتے تھے کہ ملک کے حالات پہلے ایسے نہ تھے۔ غربت ضرور تھی لیکن لوگ مطمئن تھے۔

جب کبھی کسی بے گناہ کا قتل ہو جاتا تو لال آندھی چلتی تھی لیکن اب تو شائد لال آندھی بھی تھک چکی ہے کہ یہاں تو بے گنا لوگوں کا قتل عام شروع ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں اُنہیں کسی چیز کا پتا نہیں چلتا شعور تک پہنچنے کے لیے کم ازکم پانچ سات سال لگ جاتے ہیں مگر میں تو ابھی سے سب جان چکا ہوں،مجھے تو ہر چیز کا پتا ہے کہ قتل کیا ہوتا ہے ،دہشت گردی کیا بلا ہے، مہنگائی کس جن کا نام ہے، بے روزگاری کسے کہتے ہیں ، میں تو سب جانتا ہوں، تو کیا ہمارے ملک اتنا ترقی کر چکا ہے کہ جس کے بچے ماں کے پیٹ سے ہی سب کچھ جان جاتے ہیں۔


اور پھر ایک دن میں بڑئے آرام سے سو رہا تھا کہ مجھے لگا جیسے کوئی چیز مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہے اماں کی کراہ کی آوازوں نے مجھے جگا دیا، بڑئے بھائی کی آوازیں کہیں دور سے سنائی دے رہی تھی جو کہ رہے تھے کہ گاڑی نکالوں اماں کو ہسپتال لے جانا پڑئے گا، ابا کے بے بسی سے بھرپور آواز کانوں میں پڑی کے گاڑی میں تو گیس نہیں ہے کہ حکومت نے پچھلے دو ماہ سے گیس اسٹیشن بندھ کررکھے ہیں کہ گھریلو صارفین کو گیس کی سپلائی ملتی رہے مگر افسوس گھروں میں بھی چولھے ٹھنڈئے پڑئے ہیں۔

خیر خدا خدا کر کے بھائی جان نے ایک عدد رکشا پکڑا اور اماں کو اُس میں بیٹھایا۔ راستے میں بھائی اور ابا کی بڑبڑاہت سنائی دی کہ کون سے ہسپتال چلنا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور نجی ہسپتالوں میں پیسا اتنا خرچ ہو جاتا ہے کہ غریب آدمی افورڈ نہیں کرسکتا۔ خیر فیصلہ یہی ہوا کہ کسی چھوٹے سے نجی ہسپتال میں لے جایا جائے۔

اور پھر ایک دم ہر طرف مبارک بادیں شروع ہو گئیں ابا کو لوگ مبارک دے رہے تھے کہ اللہ نے آپ کو بیٹا عطا کیا ہے۔ ابا ابھی پوری طرح خوشی بھی منا نہیں پائے تھے کہ ایک نرس نے ہاتھ میں ہسپتال کا لمبا چوڑا بل تھما دیا جسے دیکھ کر ابا کے ہوش اُڑ گئے۔ انہوں نے بڑئے بھائی سے کہا کہ وہ یہاں رکے میں پیسوں کا بندوبست کر کے آتا ہوں۔ اماں بہت خوش تھیں کی اللہ نے اُن کو ایک اور بیٹا دیا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ فکر مند بھی نظر آرہی تھیں کہ کہیں میرا بیٹا کبھی ایسی جگہ نہ چلا جائے جہاں گولیاں اور بم چلتے ہوں۔ اماں نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر رونا شروع کر دیا۔ اسی دوران ابا کی آواز آئی وہ بھائی کو بتا رہے تھے کہ انہوں نے کس کس سے جا کر کے پیسے اُدھار مانگے ہیں۔ پھر ابا نے بھائی سے کہا کہ کوئی بات نہیں پیسے تو ہم دن رات محنت کر کے واپس کر دیں گے۔

پھر ہمیں ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔
گھر پہنچ کر دیکھا ہر طرف مبارک بادکے پیغامات موصول ہو رہے تھے،تمام گھر والوں کی خوشی دیدنی تھی،پھر ایک دم سب سناٹے میں آگئے پتا چلا ساتھ والوں کے لڑکے کو کچھ نامعلوم افراد نے گولی مار دی ہے کہ وہ اُس سے موبائل لینا چاہتے تھے پر مزاحمت کرنے پر گولی مار دی گئی۔ میں پالنے میں پڑا سوچتا رہا کہ یہاں خوشی صرف پل دو پل کے لیے ہی نصیب ہوتی ہے۔

پھر ایک دم سے ہر طرف اندھیرا ہو گیا میں بہت گھبرا گیا ماں نے اپنے سینے سے لگا لیا لیکن میں نے دیکھا اس اندھیرے سے کسی کو ڈر نہیں لگا پھر گھر والوں کی باتوں سے احساس ہوا کہ لوڈشیڈنگ ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں معمول کا کام ہے۔ پھر ابا نے ماموں کو بتایا ایک مخصوص طبقہ فقر کے لوگ ایران نے واپس آرہے تھے کہ راستے میں اُن کی گاڑی کو بم سے اُڑا دیا گیا ہے۔

اور اس بم نے نہ کوئی چھوٹا دیکھا نہ کوئی بڑا سب کے سب کو ختم کر دیا۔ابھی اس کے ساتھ ساتھ مزید قتل و غارت کی خبریں آرہی تھی، مجھے یوں لگ رہا تھا میری پیدائش کسی غلط وقت پر ہو چکی ہے کہ مجھے بھی بڑا ہو کر یہی سب سننا اور دیکھنا ہے۔ کوئی ایک بھی ایسا نہ دیکھائی دے رہا تھا جس نے کہا ہو کہ فکر کی بات نہیں حالات جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ ہے میرا پیارا ملک پاکستان میری جائے پیدائش اور وقت سے پہلے ہی سب کچھ سکھانے والا ملک، کیونکہ ہم تو ماں کے پیٹ سے ہی سب سیکھ لیتے ہیں ۔

کہ ہی ہمارا نصیب ہے۔
یہ ملک ایسا ملک ہے جس کی قوم خوشیوں کو ترس گئی ہے خیبر سے لیکر کراچی تک ہر طرف خون ہی خون نظر آتا ہے کہیں فرقہ واریت کا کہیں صوبائیت کا کہیں شریت کاتو کہیں قوم پرستی کا۔ حقوق و فرائض کتابوں کی حد تک ہی ہیں، عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کرنا کسی بھی حکمران کی ترجہیات میں شامل نہیں ۔ اپنی اپنی سیاسی دُکان چمکانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہمارے سیاسی عمائدین عملی طور پر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں، شاہانہ زندگی گزارنے کے عادی یہ لوگ غربت کے مسائل سے کوسوں دور ہیں ترقی یافتہ ممالک کی مخالفت کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے ترقی کی ہی تب جب انہوں نے اپنے عوام کے مسائل کو حل کرنا شروع کیا کہ عوام خوشحال ہوں گے تو ملک ترقی کرے گا ہی۔

اور جہاں ہر وقت بم پھٹتے ہوں وہاں کیا خاک ترقی ہو گی۔ جہاں محافظ بھی محفوظ نہیں وہاں عوام کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ سردیوں کی یخ راتوں میں دھرنا دینے والوں کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا۔کیا اس چھوٹی سی زندگی میں مسائل کا حل دیکھ پائیں گے امن و امان کی صورتحال بہتر دیکھ پائیں گے۔ شاعر نے اسی لیے کہا تھا،
مجھے اور زندگی دے کہ ہے داستان ادھوری
میری موت سے نہ ہو گی میرے غم کی ترجمانی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :