خبر دار ، سچ بولنا منع ہے

ہفتہ 8 مارچ 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب خوشی سے میرے پاوٴں زمین پر نہیں لگ رہے تھے، خوشی کا سبب جنر ل پرویز مشرف کا قوم سے اپنے پہلے خطاب میں یہ خوش آئند اعلان تھا کہ ” میاں نواز شر یف کا احتسا ب ، احتسا ب کے معنی کھو چکا ہے۔احتساب میں کروں گا اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لے کر آوں گا۔“ اُن ہی دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سنیئر لیڈر ،آفتاب شعبان میرانی یہاں آئے ہوئے تھے۔

ایک دن ہم چند دوستوں کو اُس دور کے پیپلز پارٹی کینیڈا کے صدر سلیم جنجوعہ کی وساطت سے معزز مہمان کے ساتھ لنچ لینے کا اتفاق ہو۔ ملک کے تازہ تریں حالات پر بات چیت کے دوران میں جنرل پرویز مشرف کے قوم سے مذکورہ خطاب کے حوالے سے جب میں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جناب آفتاب شعبان میرانی نے مسکراتے ہوئے میری طرف ایسے دیکھا ،جیسے کسی کی بچکانہ بات پر دیکھتے ہیں اور گویا ہوئے ۔

(جاری ہے)

”توآپ اس لئے خوش ہیں کہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس آ جائے گی ؟“ اُن کے چہرے پر مشفقانہ مسکراہٹ دیکھ کر میں نے بالکل ایسی کیفیت میں ہاں کی ،جیسے کوئی کسی کی منکوحہ بیوی کے ساتھ پیار کا اظہار کر رہا ہو۔میری ہاں کے جواب میں انہوں نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔”ہمارے ہاں فوجی اور سول بیوروکریسی سے لے کر نام نہاد عوامی نمائندوں تک اکثریت کرپٹ لوگوں کی ہے۔

جو کسی قومی مسئلے پر یکجہتی کا اظہار کریں نہ کریں،لیکن کسی کرپٹ آدمی کی مالی یا اخلاقی کرپشن کے خلاف اٹھائی گئی آواز کے سامنے نہ صرف خود سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں، اپنی صحافیوں کی فورس کو بھی اس کے پیچھے لگا دیتے ہیں،اگر جنرل پرویز مشرف اپنے وعدے پر عمل کریں گے تو تنہا رہ جائیں گے “
بہر کیف، بعد میں کئی موقعوں پر عدل و انصاف کو زندہ در گور ہوتے دیکھ کر،مجھے آفتاب شعبان میرانی کے الفا ظ یاد آآ کر کڑھن کے چولھے میں جھونکتے رہے ہیں اور یہ بھی کہ ہمارے معاشرے میں کسی برائی کے خلاف بات کرنا ، ہمارے کرپٹ معاشرے میں بالکل ایسے ہی ہے، جیسے کسی شریف معاشرے میں کسی کی منکوحہ بیوی سے محبت کا اظہار کر دیا جائے۔

آج کل جمشید دستی بھی ہمارے عوامی نمائندگان ، جن کی مالی و اخلاقی کرپشن منکوحہ بیو ی کا درجہ رکھتی ہے، کے خلاف بات کر کے بری طرح پھنس گئے ہیں، سارے گلاس فیلو اور اُن کے مصاحبین صحافی اُن کے خلاف ہو چکے ہیں۔
خیر ہمارے ہاں سیاست دانوں کی تو پہچان ہی مالی و اخلاقی کرپشن ہے ،لیکن ان میں افسوس تو اُن سیاست دانوں پر ہوتا ہے جو عالم ہونے کے داعی بھی ہیں اور اپنی مالی و اخلاقی کرپشنز کو اپنی داڑھی میں چھپا ئے پھرتے ہیں ،یہاں تک کہ اخلاقی کرپشنز (کہہ مکرنیوں) اور دوسری بد عنوانیوں میں اچھی خاصی شہرت پا چکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن ، جو اپنے خاندان کے سیاسی پس منظر کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں” الحمدللہ ! ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔“ مولانا پاکستان اور پاکستان کے عوام کے ساتھ مخلص ہیں اور نہ ہی اپنے سیاسی کردار سے اپنے نام نہاد دینی مرتبے کو کوئی بڑھاوا دے رہے۔ لیکن چونکہ وہ اپنے نام کے ساتھ مولانا لگاتے ہیں۔اس لئے مجھے جمشید دستی کے حوالے سے اُن کے بیان پر انتہائی افسوس ہوا ہے۔

فرماتے ہیں۔”کیا ساری برائیاں فقط سیاست دانوں ہی میں ہیں۔ باقی ساری دنیا صاف ہے“موصوف نے خود پر دین داری کی جو چادر اوڑھ رکھی ہے اس کے پیشِ نظر مجھے ان کے اس بیان پر عبدلحمید عدم# کا ایک شعر یاد آگیا ہے
کل رات میکدے میں عجب حادثہ ہوا
زاہد شراب پی گیا میرے حساب میں
مولانا نے کبھی عوام کا ہمدرد لیڈر بن کے سوچا ہوتا تو یہ بیان دینے سے پہلے دس بار سوچتے کہ اگر عوام کا دامن ِ اخلاق تار تار ہو چکا ہے تو اس میں کس کی نالائقی کار فرما ہے ؟ حضرت عمر  کے دور میں قحط پڑا تو انہوں نے کچھ مدت کے لئے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف کر د ی تھی۔

عوام کی مجبوریوں پر ایسی ہمدردانہ نظر صرف عوام دوست لیڈ ر رکھتے ہیں۔دوسری مرعات یعنی کشمیر کمیٹی کو کاغذات پر چلانے کے اخراجات کے علاوہ کروڑوں روپے محض اپنی سکیورٹی کے نام پر سرکاری خزانے سے لے لر عوام میں بھوک ننگ اور جھوٹے وعدے بانٹنے والے لیڈر نہیں سوچتے ۔
چند محب وطن اور غیر جانب دار صحافیوں کے سوا ، اِس حوالے سے میڈیا کے چوہدری صحافیوں کا بھی عجب کردار دیکھا ہے ۔

کوئی جمشید دستی پر اسلامی حوالوں سے دوسروں کی پرا ئیویسی میں تانک جھانک کا الزام لگا رہا ہے اور کوئی کوئی جمشید دستی کو دوسروں کے راز کی کھوج لگانے کا طعنہ دے رہاہے ۔الغرض صاف معلوم ہوتا ہے ۔سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کر کے موج اڑانے والے بد مست سانڈوں کے گریبان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال رہا۔الٹا سب جمشید دستی کا ٹرائل کر رہے ہیں۔
ساری دنیا میں عوامی نمائندگان کو عوام کی پراپرٹی کہا جاتا ہے اور اُن کے کسی بھی فعل کو ، اُن کے ذاتی فعل کا درجہ دے کر ان سے چشم پوشی نہیں کی جاتی۔

ہاں ایک عام آدمی جس کی جس کی اخلاقی کمزوریاں صرف اس کی یا زیادہ سے زیادہ اس کے خاندان کی زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔اس کی زندگی کے رازوں کی ٹوہ لگانا واقعی جرم ہے۔کچھ لوگوں کو تو بات کرتے وقت اپنے دانشورانہ مقام کا بھی رتی بھر خیال نہیں رہتا،یہاں تک کہ جھوٹ کے مُنہ پر سچائی کا طمانچہ مارنے والا، اللہ سبحان و تعالی ایسے لوگوں کو اپنے پیشے کے نصب العین کے ساتھ مجرمانہ غداری کی سزا میں بے نقاب بھی کرتا رہتا ہے،ان کی کار گزاریاں یو ٹیوب پر بھی لگتی ہیں کہ وہ اپنے ایک جونئیر سا تھی کو فقط ایک سچ بولنے کے جرم میں کس طرح ننگی گالیاں دے رہے ہیں ،لیکن ہمارے معاشرے سے شاید شرم و حیا اٹھ گئی ہے، ایسے ایسے شرمناک حادثات و واقعات بھی مُنہ کالے لوگوں کو انسان بنانے میں ناکام ہو جا تے ہیں، کچھ لوگوں یہ شکایت بھی ہے کہ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، ایسے حالا ت میں جمشید دستی کو یہ پنڈورا باکس نہیں کھولنا چاہیے تھا۔

جبکہ ملک کو درپیش حالات ہی کا تقاضہ ہے ہے کہ عوام نے ان حالات پر قابو پانے کی زمہ داری جن لوگوں کو سونپی ہے وہ شزادے اِن حالات میں تو بدل جائیں، اگر وہ اپنے وقت کا زیادہ حصہ ملک کو لوٹنے اور لوٹ مار کے پیسے سے موج میلے کی محفلیں سجانے پر لگے رہتے ہیں تو پھر ایسی مُنہ کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا ملک کو در پیش حالات کی اہم ضرورت ہئے۔ایک ٹالک شو میں جمشید دستی کی جعلی ڈگری کا ذکر کر کے ناظرین کو یہ یقین دلانے کی کوشش بھی کی جا رہی تھی کہ جمشید دستی قابل اعتبار انسان نہیں ہیں۔

یہ حرکت ایک ایسا شخص کر رہا تھا، جس کی گفتگو ہمیشہ اُس کی دانشوری کے لئے سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔جب کہ جمشید دستی کو ان کی جعلی ڈگری کے حوالے سے عدلیہ با عزت بری کر چکی ہوئی ہے اور اگر عدلیہ نے انہیں با عزت بری نہ بھی کیا ہوتا تو اس موقعہ پر ان سے اس قسم کی گفتگو در پیش مسئلے کے موضوع سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی تھی کہ اللہ جب کسی انسان کی کایا پلٹنا چاہتے ہیں، تو دیکھتے ہی دیکھتے چند لمحوں میں اُس کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔

حضر عمر  کی مثال ہمارے سامنے ہے جو اپنے گھر سے حضور ,ﷺ کو قتل کرنے کے لئے نکلے تھے۔
جس ایم۔این۔ہاوس کے خلاف پولیس کے ریکارڈ میں یہ رپورٹ بھی موجود ہے کہ ایک خاتون ایم ۔ این کی گاڑی سے شراب بر آمد ہوئی۔بات پولیس تک گئی۔خاتون نے موقف اختیار کیا کہ میں تو یہ بوتل فلاں سینٹر کے لئے لائی تھی۔اِس رپورٹ کے علاوہ ایم این اے نبیل گبول اور چند دوسرے ایم۔

این ایز نے بھی جمشید دستی کی باتوں کو سچ مانا ہے۔اس کے بعد جمشید دستی کو جھوٹا ثابت کرنے کی مکروّہ کوششیں مالی و اخلاقی کرپشن کی آبیاری کرنے والی بات ہے، جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔
جمشید دستی کو اس جرم کا موردِ الزام بھی ٹھہرایا جاتا ہے کہ انہوں نے ملزمین کے نام ظاہر نہ کر کے سارے معزز لوگوں کو مشکوک بنا دیا ہے۔سب سے پہلی بات تو یہ کہ جو برائی کو دیکھ کر برائی کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا وہ معزز ہر گز نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کچھ معزز لوگ برائی کے خلاف سچ اِس لئے نہیں بولتے کہ انہیں سچ بولنے کی سزا میں نہ صرف بہت کچھ کھونا پڑتا ہے ان پر لوٹ مار کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں ۔ جمشید دستی اِس لئے سچ بول رہے ہیں کہ ان کے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے؟وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔ میں ایک غریب آدمی کا بیٹا ہوں اور اپنی عوامی خدمات کے بل بوتے پر علاقے کے بڑے بڑے جاگیر دارو ں کو ہرا کر اسمبلی میں آیا ہوں۔

عوام کے ساتھ ہمدردی اور دوستی کا زبانی جمع خرچ تو سبھی لیڈر کرتے ہیں، لیکن ایک ایسا لیڈر جو صرف عوام دوستی کو سیڑھی بنا کر اوپر آیا ہو، کیا وہ لوٹ مار کر کے عوام میں بھوک بانٹ سکتا ہے؟ غیر جانب دار ہو کر سوچیں ؟ آئین ہم سب ملک کو درپیش حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کو بھول کر مُنہ کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنے کے لئے متحد ہو جائیں۔

جن مُنہ کالی بھیڑوں کے مجرمانہ اتحاد نے اسمبلی کے اسپیکر کو بھی یہ کہنے پر مبور کر دیا ہے کہ جمشید دستی جھوٹا آدمی ہے۔کسی خالصتاً جمہوری اور تعلیم یافتہ معاشرے میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کا ایسا غیر پارلیمانی ریمارکس اسپیکر کے لئے بہت بھاری پڑ جاتا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں،عوام کے ووٹ سے تراشے ہوئے یہ بے حس بت نہیں۔نی جانے ہماری حزب اختلاف کہاں ؟ اور کس نشے میں سوئی ہے ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :