سپرمین،تھر اور ملک ریاض

پیر 10 مارچ 2014

Qasim Ali

قاسم علی

اگر کوئی یہ کہے کہ تھر میں 123معصوم بچوں کی ہلاکت وہاں پر خوراک کی قلت،موسم کی خرابی یا سردی کی زیادتی ہے تو کم ازکم میں تو اس سے اتفاق نہیں کروں گابلکہ میں اس عظیم المیے کا ذمہ دار ہمارے معاشرے کی اجتماعی بے حسی،افسرشاہی کی ہڈحرامی اور عام انسانوں کو کیڑے مکوڑے خیال کرنے والے طوطا چشم اور مفاد پرست سیاستدانوں کی اس کھیپ کو سمجھتا ہوں جو الیکشن کے دنوں میں تو ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں مگر جب یہ ذمہ داری نبھانے کا وقت آتا ہے تو یہ ظالم نہ صرف انہیں مرنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں بلکہ ان کی لاشوں کو کندھا دینے کیلئے بھی ان کے پاس وقت نہیں ہوتا حالاں کہ یہ عوام وہی ہوتے ہیں جو نہ صرف ان کو ووٹ کی طاقت سے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچاتے ہیں بلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کی تصویریں بھی اپنے گھروں اور دلوں میں سجائے رکھتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان کی آنیوالی نسلوں بھی باپ دادا کی اس ''جاگیر''پر خوب عیش کرتی ہے چنانچہ یہ شہزادے کبھی یوتھ فیسٹول کے نام پر بے حیائی کی محفلیں سجاکر اپنا دل پشاوری کرتے نظرآتے ہیں تو کبھی سندھی اجرک اور آزادی نسواں کے فضول اور بے مقصد نعروں سے عوام کا دل بہلاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

میں پورے وثوق کیساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر تھر جیسی قیامت کسی دوسرے ملک میں آئی ہوتی تو اب تک متعلقہ انتظامیہ اور وہ محکمے جن کی مجرمانہ غفلت کے باعث یہ معصوم زندگیاں ضائع ہوئیں اب تک کم از کم اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی تو ہوچکے ہوتے مگر یہاں تو آئے روز ہر محکمے میں اتنی ناکامیوں اور ان پر استعفیٰ کے اتنے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں کہ اب یہ مطالبہ ایک مذاق اور ٹھٹھے سے زیادہ اہمیت ہی نہیں رکھتا ۔

آپ اندازہ کریں کہ تھر میں موت کا یہ رقص دسمبر سے شروع ہوا جب حکومت سندھ کو یہ اطلاع ملی کہ تھر میں خشک سالی ،خوراک کی کمی اور موسم کی شدت کے باعث 42بچے موت کے منہ میں جاچکے ہیں مگر حکومت نے شائد اس کو ''معمول کی کاروائی''سمجھ کو نظرانداز کردیا اور حکومت کی اسی بے نیازی کے باعث جنوری میں مزید 40تڑپتے بلکتے بچے اللہ کو پیارے ہوگئے اس کے بعد کی کہانی اس سے بھی دردناک اور ہماری بے حسی کا بدترین ثبوت ہے کہ حکومت سندھ نے آخر کار کمال''فیاضی''کا مظاہرہ کرتے ہوئے 31جنوری کو ساٹھ ہزاربوری گندم اس آفت زدہ علاقے میں پہنچادی مگر مقامی انتظامیہ نے یہ گندم بھی ان غریبوں کو پہنچانے کی زحمت نہیں کی جس کے باعث فروری مزید36بچوں کونگل گیا ۔

کتنی شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ اس اسلام کے نام پر بننے والی مملکت خدادا د میں جس کی تعلیم ہی قربانی و ایثارہے اور صحابہ کرام  نے زندگی کے آخری لمحات میں بھی خود پیاسے رہ کردوسروں کو پانی پلا یاوہاں ایسے المئے جنم لے رہے ہیں اور ہمارے اسلاف تو ایسے حکمران تھے جو یہ کہتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرا تو اس پر ہم جواب دہ ہوں گے مگر ہمارے حکمران اپنا جرم تسلیم کرنے کی بجائے اپنی نام نہاد گڈگورننس کی وکالت کرتے اور مضحکہ خیز تاویلیں نظرآرہے ہیں جیسا کہ وزیراعلیٰ سندھ کا بیان سامنے آیا کہ تمام بچے بھوک سے نہیں مرے بلکہ اکثر مکان اور گرم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہلاک ہوئے ۔

کوئی ان سے پوچھنے والاہوتا تو یہ ضرورسوال کرتا کہ حضور چلیں آپ کی بات مان لیتے ہیں مگر یہ بھی تو فرمائیے کہ ان بیچاروں کو یہ کپڑا اور مکان فراہم کرنا بھی تو آپ ہی کی ذمہ داری تھی بلکہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تو آپ کا وہ مشہور عام نعرہ ہے جس کو سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں اوراب اس کی حقیقت سامنے آنے پر آپ آنکھیں کیوں چرا رہے ہیں آپ کچھ نہیں کرسکتے اس عوام کیلئے تو کم از کم یہ ہی کہہ دیں کہ ہم نے آپ سے جھوٹ بولا تھا اگر چالیس سالوں سے گونجنے والایہ نعرہ سچ ہوتا تو اب تک کوئی بھی شخص روٹی کپڑا اور مکان کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ مرتا ۔

کوئی ان سے یہ بھی پوچھنے کی یقیناََ جسارت نہیں کرے گا کہ عوام کو اگر آپ نے اسی طرح زمینی و آسمانی آفتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہوتا ہے تو آپ نے یہ محکمہ ریلیف،محکمہ بلدیات اور نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ جیسے اربوں کے فنڈز کھانے والے ادارے کیوں پال رکھے ہیں ؟اس وقعہ کے بعد عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ ان اداروں کے ذریعے کرپشن،کرپشن اور صرف کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں اگر ایسا نہیں تو کوئی یہ بتانا پسند کرے گا کہ 2001ء کی قحط سالی میں شوکت عزیز کی جانب سے آئندہ قحط سالی روکنے کیلئے جاری ہونے والے100ملین ڈالر کہاں گئے ؟ کیا پیپلزپارٹی کا کوئی جیالا یہ بتائے گا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں سندھ میں صحت اورعوامی فلاح و بہبود کے نام پر خرچ(صرف کاغذوں میں)ہونے والے 500ارب روپے کا کیا کیا گیا کہ آج بھی سندھ بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں عوام کو بنیادی سہولیات اور ایک گولی تک میسر نہیں ہوتی۔

کیا سندھ یوتھ فیسٹول پر شہزادہ بلاول کی تفریح کیلئے خرچ کئے جانے والے پانچ ارب روپے اگر تھر کے ان غریبوں کو دئیے جاتے تو کیا اتنا بڑا المیہ وقوع پزیر ہوتا ؟نہیں یقیناََ ایسا نہ ہوتا لیکن ''سپرمین ''شہزادہ کو مرتی ہوئی تہذیب کی تو فکر تھی مگر تڑپتے سسکتے انسانوں اور انسانیت کی نہیں۔
ساحرلدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیش کی جنتا سسک سسک کر مرے
کیا زمیں نے اسی کارن اناج اگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
کیا ملیں اسی لئے ریش بنتی ہیں
کہ دختران وطن تارتارکو ترسیں
کیا چمن کو اسی لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ خود اسی کی نگاہیں بہار کو ترسیں
بہرحال ایسے میں ملک ریاض حسین کو خراجِ تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے تھر کے متاثرین کیلئے فوری بیس کروڑ روپے مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے اور ان کا ماضی گواہ ہے کہ ان کا وعدہ حکومتی وعدوں جیسا نہیں ہوتا وہ جو کہتے ہیں وہ ضرور کرکے بھی دکھاتے ہیں کہ ان کو اللہ نے دنیاوی دولت کیساتھ ساتھ دل کی دولت و دردمندی سے بھی خوب نوازرکھا ہے اللہ اس میں مزید برکت عطا فرمائے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جناب تصدق حسین جیلانی نے اس حساس ترین معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے اور وزیراعلیٰ نے بھی اس پر ایک عدد تحقیقاتی کمیٹی بنادی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تمام تر مشق کا انجام وقت گزاری اور مٹی پاوٴ ہوتا ہے یا آئندہ ایسی آفات و حادثات سے بچنے کیلئے کوئی تھوس اقدامات بھی کئے جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :