سیاست ہی سیات ، عوام کہاں ہیں ؟

منگل 18 مارچ 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

سانحہ کھوکرا پار
دو سو سے زیادہ بچوں کے، قحط کا شکار ہو کر، بے یارو مدد گار مر جانے کاسانحہ، ِ اِس لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتاکہ بقول شر میلا فارقی صاحبہ،” یہاں کے لوگ اکثر قحط کا شکار ہو کر مرتے رہتے ہیں،یہ سانحہ کوئی نئی بات نہیں ہے“۔یہ بات انہوں نے ایک ٹی۔وی ٹالک شو میں سندھ گورنمنٹ کی نمائندگی کے فرائض ادا کرتے ہوئے فرمائی ہے، موصوفہ کا فرمان ہمارے سیاسی کلچر کے مطابق سو فیصد درست ہے،ایک ایسا مسئلہ ، جو ایک مدت سے حل طلب ہے،اُس کی زمہ داری ایک ضعیف العمر وزیر اعلیٰ پر کیوں ڈالی جائے ۔

جبکہ اُنہوں نے اپنی گورنمنٹ کی مجرمانہ غفلت کی سزا کے طور پر جناب امین فہیم کے دو صاحبزادوں کا تبادلہ بھی کر دیا ہے۔جو لوگ بے یارو مدد گار مر گئے ہیں، روٹی، کپڑا اور مکان کی علمبردار پیپلز پارٹی اُن کے لئے اس سے زیادہ اور کر بھی کِیا سکتی ہے ؟مجھے جناب امین فہیم کا نام کچھ جانا پہچانا سا لگ رہا ہے، اگر میں غلطی پر نہیں تو کیا یہ وہی خوش نصیب امین دفہیم نہیں ہیں،جن کے اکاوٴنٹ میں کسی نے، انہیں خبر ہوئے بغیر چار کروڑ روپے جمع کر ا دئے تھے۔

(جاری ہے)

ظاہر ہے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی نے جب اُن سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آ خر آپ کے اکاوٴنٹ میں اتنی بڑی رقم آئی کہاں سے ؟ تو ان کے بیٹوں کو اُن کی مجرمانہ غفلت کی اس سے زیادہ کوئی سزا کیسے دے سکتی تھی ؟ویسے بھی پاکستان سے غربت ختم کرنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ غریبوں کو ایسے ہی آسمانی آفات کے حوالے کیا جاتا رہے ۔ ایک دن نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔


آدھا انصاف
جنرل پرویز مشرف کے کیس میں جس طرح ایک وزنی آواز یہ آ رہی ہے کہ میاں نواز شریف اور عدلیہ ایک Pageپر ہیں اور جنرل پرویز مشرف اور فوجی قیادت ایک Pageپر ہیں۔اس وزنی آواز کے بعد اداروں میں ٹکراوٴ کے خطرے کی جو گھنٹیاں بج رہی ہیں، اُن کے پیش نظرکچھ لوگ تو یہ بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ میاں نواز شریف عدل و انصاف کے نام پر ، سابق آ رمی چیف کے ساتھ جو خطر ناک کھیل ، کھیلنا چاہ رہے ہیں،وہ انہیں بہت مہنگا پڑے گا۔

دوسری طرف اتنے سارے انتباہ کے باجود میاں نواز شریف جس اطمنان اور تسلی کے ساتھ ۱۲ اکتوبر کے دن مارشل لاء لگانے جیسے بھاری جرم سے چشم پوشی کرتے ہوئے ، فقط ایمر جنسی لگانے کے جرم کی سزا دینے پر بضد ہیں، جبکہ کچھ صاحب الرائے لوگوں کا کہنا ہے کہ” ایمر جنسی“ تو ۱۲ اکتوبر جیسے بڑے جرم ” مارشل لاء “ کا بچہ ہے، اداروں کے ٹکراوٴ کے خطرے کی گھنٹیوں کے شور میں میاں نواز شریف کا اطمنان و سکون غور طلب ہے۔

کم از کم مجھے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ جنرل راذحیل شریف کو چیف آف آرمی سٹاف بنانے کے پس پردہ کچھ شرائط بھی رہی ہوں گی، اور وہ شرائط ہی میاں نواز شریف کے سکون و اطمنان کا سبب ہیں ۔ اب دیکھئے ، ۳۱ مارچ کے دن کیا سا منے آتا ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ فوج میاں نواز شریف کے ادھور ے انصاف یا جنرل پرویز مشرف کا سا تھ دیتی ہے ؟ ویسے سچ تو یہ ہے کہ جس ملک کی عدلیہ حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کے کیس عدل و انصا ف کی کسوٹی پر پرکھے بغیر خارج کرتی جائے،جیسا کہ آج کل میاں نواز شریف کے خلاف مقدمات کو دھڑا دھڑ خارج کیا جا رہا ہے،فوج کے ایک سابق سربراہ کو ایسی عدلیہ کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے ،جب تک کہ عدلیہ ایک ایسا عدل و انصاف قائم کرنے کی راہ پر گامزن نہ ہو جائے، جو عدل و انصاف نظر بھی آئے۔


مذاکرات کا ڈرامہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن الحکیم کے مطابق کسی بھی متنازعہ مسئلے کا بہترین حل صلح جوئی اور مذاکرات کو ہی قرار دیا گیا گیا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ صلح جوئی کے کسی معائدے پر راضی ہو کر اس معاہد ے کو توڑ ڈالیں،جو لوگ اپنے وعدوں کو پیٹھ پیچھے ڈال کر کسی دشمن طاقت کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف فساد مچائیں اور جواز یہ پیش کریں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ، قرآن الحکیم نے ایسے فسادیوں کے لئے معافی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی ۔

حکم یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو چن چن کر ہلا ک کر دیا جائے۔
ہمارے دشمنوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے اِن کتوں نے ہمارے ایف۔سی کے قیدی جوانوں کو جس بے دردی سے شہید کیا ہے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مذاکرات کی بات ایک بے معنی کوشش ہے ۔ میں قرآ ن الحکیم کی حکیمانہ حکمتِ عملی کے تحت شروع ہی سے عمران خان کے موقف ” مذاکرات“ کا حامی رہا ہوں ۔لیکن اب نہیں ہوں۔

بڑی مشہور کہاوت ہے۔”تیل دیکھو ،تیل کی دھار دیکھو“ مذاکرات کی کوششوں کے درمیان بھی امن و امان کی جو صورت حال ہے ، احرار الہند کے نام پر جو وارداتیں کی جا رہی ہیں۔ اُنہیں دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر مجھے یہ یقین نہ ہوتا ہے کہ عمران خان سے امن و امان کی صور ت ِ حال بہتر بنانے کی کوشش میں کوئی غلطی تو ہو سکتی ہے۔لیکن وہ اپنے قومی مفادات پر کسی بیرونی ایجنڈ ے کو فو قیت نہیں دے سکتے، تو میں ایک ہی سانس میں کہہ سکتا تھا کہ مذاکرت کے نام پر قوم کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔

مران خان کو چاہیے تھا کہ ”جس کا کام ،اُسی کو ساجے ، اور کرے تو ٹھینگا باجے“ جیسی کہاوت کے مصداق مزید فساد کرنے کی غرض سے منظم ہونے کے لئے وقت کے طالب طالبان کا مسئلہ فوج پر چھوڑ دیتے۔
کرب و ملال کی گٹھڑی
میں جب بھی مسی ساگا جاتا ہوں تو جنگ کینیڈا کے برادرام عامر ارائیں اور محمد اشرف خان لودھی کی محبت اور مخلصانہ مہمان نوازی مجھے کئی دن تک مسرور رکھتی ہے۔

ورنہ ہماری عمر میں تو اچھے اچھے راشتے بھی ریشمی ڈوریوں کی طرح ہاتھ سے سرک جاتے ہیں۔لیکن اس بار برادرم لودھی نے کرب و ملال کی ایک ایسی گٹھڑی میرے حوالے کر دی ہے۔جس کا دیا ہوا کرب و ملال ایک شعر کی شکل میں ساون بھادوں کی برسا ت کی طرح مجھے مسلسل بھگو رہا ہے۔
تجھے قربِ دوستاں سے میں کبھی منع نہ کرتا
گر یہ مجھے نہ ڈستے میری آستیں میں پل کر
کر ب و ملال کی اس گٹھڑی کا نام پیپلز پارٹی کا لیڈر اشرف راوٴ ہے۔جس سے جو شرمناک اخلاقی گناہ ہوا ہے۔ اس کے بارے میں اگلے کالم میں لکھوں گا۔اِ س غصے کی کیفیت میں لکھا تو شاید کوئی زیادتی ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :