تھر ،بھوک ہلاکتیں اور ہماری ذمہ داری

منگل 25 مارچ 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

بتایا جاتا ہے کہ قدرت کی بے پناہ نعمتوں سے مالا ملک پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد اہل پاکستان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں بلکہ گزار نہیں زندگی گھسیٹ رہے ہیں ،جبکہ صوبہ سندھ کا علاقہ تھر قحط سالی کا شکار ہے جہاں ایک عظم انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اور پنجاب کے جنوبی اضلاح چولستان کے بارے بھی اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں خبر دار کیا جارہا ہے کہ چولستاں بھی قحط کا شکار ہو سکتا ہے خبروں پر کان دھرتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب نے قبل ا ز وقت ایکشن لیتے ہوئے سرکاری ہرکارے چولستان کی حالت زار دیکھنے کے لئے دواڑا دئے ہیں بلکہ انہیں کہا گیا ہے کسی انسانی المیے کو جنم لینے سے پہلے اس کا ازالہ کر دیا جائے تجزیہ نگار اس گڈ گورنس کا نام بھی دے رہے ہیں ۔

لیکن دوسری جانب پاکستان میں غربت کا شکار پاکستانیوں کے بارے شائع ہونے والی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ پاکستان میں 5 کروڑ 87 لاکھ افراد غربت کا شکار ہیں ،صوبائی لحاظ سے غربت کی یہ شرح صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ 52 فیصد، صوبہ سندھ میں 33 فیصد، صوبہ خیبرپختونخواہ میں32 اورپنجاب میں سب سے کم ، یعنی صرف 19 فیصد ہے ،پاکستان میں غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آربا ہے، جب کہ پاکستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزاررہی ہے۔

(جاری ہے)

غربت کی اِس بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 20 کروڑ آبادی والے ملک کی 33 فیصد آبادی ایسی ہے ،جس کے5 کروڑ 87 لاکھ افراد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان کی غیر سرکاری تنظیم تھنک ٹینک، ’سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ نے پاکستان میں بڑھنے والی غربت پر تحقیقی رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان کی ایک تہائی آبادی انتہائی غربت اور مفلسی کا شکار ہے۔

اگر دیکھا جائے اور محسوس کیا جائے تو اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ مہنگائی میں روز بروز اضافہ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، وسائل میں کمی، بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔
تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق غربت میں ہونیوالا مزید اضافہ جہاں ملک کیلئے تشویش کا باعث ہے وہیں غربت کا شکار افراد بھی کئی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں۔

پاکستان سے غربت کا خاتمہ حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
جس ملک میں ستر اسی ارب روپیہ سالانہ خیر خیرات کی جاتی ہو اس ملک میں تو غربت کا نام و نشان نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے باوجود بھی اگر یہاں غربت اور تھر جیسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو اس میں ہمارے نظام حکومت اور افراد معاشرہ کا قصور ہے جس نے منصفانہ بنیاد پر وسائل کی تقسیم کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی کوئی بندوبست کیا ۔


تھر میں ساڑھے تین مہینوں میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 193ہو جانا اور ابھی تک بھوک اور بیماریوں کی بنا پر اموات کو کم نہ کے جا سکنا حکومت کی نااہلی ہے۔ جو کام حکومت کے کرنے کا ہے اسے بھی مختلف سماجی و فلاحی اداروں کی جانب سے متاثرین میں امدادی اشیا اور طبی سہولیات کو فراہم کر کے کیا جارہا ہے ، مگر علاقہ میں پڑنے والی شدید گرمی ان امدادی کاروائیوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

متاثرین کی جانب سے امدادی گندم کی فراہمی میں سنگین بے قاعدگیوں کی عام شکایات بھی سامنے آرہی ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تھر میں آنے والا قحط ایک بہت بڑی آفت کی شکل میں نازل ہوا ہے ،بتایا جارہا ہے کہ اس المیے سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں اور ان کی امداد کے لئے عالمی برادری کو اپنا فرض ادا کرنے کی اپیل کرنے سے پہلے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے پہلے ہماری اپنی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس فرض کو یاد رکھیں ،پاکستان میں تقریباً بیس کروڑ افراد بستے ہیں جن میں خط غربت کے المیے کے شکار لوگوں کی تعداد سرکاری اعداو شمار کے مطابق پانچ کروڑ بنتی ہے انہیں نکال دیا جائے تو پندرہ کروڑ افراد بنتے ہیں ان میں سے کیا یہ تمام لوگ تھر متاثرین کے لئے کافی نہیں ؟ جبکہ آسودہ حال لو گوں کے حصے میں ایک فرد سے بھی کم کا تخمینہ بنتا ہے جبکہ اس ملک میں کروڑ پتیوں کی تعداد بھی کم نہیں ، یہاں تو ایک سرکاری اہلکار جس سے عوام کا واسطہ کسی کام کے سلسلہ میں پڑتا ہے بھی کروڑ پتی سے کم نہیں کے حصے میں ایک فرد سے بھی کم آئے گا ،اور پھر ہماری چاروں صوبائی اسمبلیاں ،سینٹ،اور قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے اور یہ تمام لوگ ”ہذا من فضل ربی“ سے لدئے ہوئے ہیں اگر یہی لوگ پول کر کے رقم اکٹھی کرنی چاہیں تو سسکتی انسانت کا بھلا ہو سکتا ہے،پاکستان کا ہر فرد بھوکی ننگی دوا دارو سے محروم اور صاف پانی سے ترستے ہوئے لاکھوں بچوں ،خواتین اور بوڑھے افراد کے لئے اپنے پیسے میں سے تھوڑا سا بھی نکال کر ان کی مدد کر دے تو سسکتی انسانیت پھر سے جی اٹھے گی اور خدا بھی خوش ہو گا ، تو یقین کیجیے ہمیں کہیں سے امداد کی اپیل کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے اس ضمن میں ملک کے جید علماء کرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ وہ حکومت اور متمول افراد کو یہ باور کرائیں کہ سسکتی انسانیت کی خدمت کرنا اور بھوکوں کی بھوک دور کرنا اصل نیکی ہے ،جہاں بات زندگی اور موت کی ہو تو وہاں تو اور بھی زیادہ ذمہ دارری بنتی ہے۔

کیا ہم کشکول کے بغیر زندگی گزارنے کے عادی نہیں ہو سکتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :