غیر جانبدار جمہوری حکومت،آج کی ضرورت

ہفتہ 29 مارچ 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

کسی بھی ریاست کے سیاسی ا ستحکام اور اس کی معاشی ترقی کا ضامن اس کی غیر جانبداری ہوتی ہے۔جس قدر ایک حکومت اپنی غیر جانبداری کو بر قرار رکھتی ہے اسی قدر اس کو استحکام بھی ملتا ہے اور اسکی معاشی ترقی میں گراں قدر اضافہ ہوتا ہے اور آج کے دور حاضر زمانے میں سب سے زیادہ طاقتور وہی ہے جو معاشی طور پر مضبوط ہے۔ غیر جانبداری ریاست اور کسی بھی حکومت کی کامیابی کی کنجی ہوتی ہے لیکن المیہ ہے کہ یہی بنیادی سنہری اصول اسلامی اور ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا ہے اور اسی کی نفی کی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انہی ممالک میں سیاسی افراتفری زیادہ ہے۔پاکستان ایک ا یسا ملک ہے جہاں وسائل افرادی قوت اور قدرتی ذخائر کی کوئی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود آج بدقسمتی سے اس کی حالت قابل رحم ہے۔

(جاری ہے)

معاشی طور پر بیرونی قرضوں کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا نیا بچہ ہزاروں روپے کا پیدائشی مقروض ہوتا ہے اور ہر حکومت نئے نوٹ چھاپ چھاپ کرحکومتی فرائض سر انجام دیتی ہے۔

افراط زر ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومتی پالیسیاں عارضی نوعیت اور وقت ٹپاؤ نوعیت کی ہیں، یہ بات صرف اسی حکومت کی نہیں ہے بلکہ پچھلی حکومت بھی عوامی مسائل اوردور رس حامل کی معاشی پالیسی نافذ کرنے میں ناکام رہی تھی۔پانچ سال کا عرصہ گزارنا ان کی نظر میں کامیابی ہوسکتا ہے لیکن اگر جمہوری اور معاشی نظر سے دیکھا جائے تووہ ناکام ترین دور تھا جس میں ذاتی اور سیاسی مفادات کو تو تحفظ ملتا رہا لیکن عام آدمی کی حالت زار پہلے سے زیادہ خراب ہوئی اور آج بھی ہو رہی ہے اور شائد ہوتی رہے۔

اس کی وجوہات بہت سی ہوسکتی ہیں لیکن ان میں بنیادی طور پردرج ذیل ہو سکتی ہیں۔اول یہ کہ پاکستان میں کبھی بھی غیر جانبدار حکومت بر سر اقتدار نہیں رہی اور ہر حکومت نے نظریاتی طور پر حکومت کی جو کہ جمہوری طور پر غلط ہے۔ اس طرح کی طرزحکومت نے قوم کے تصور کو پارہ پارہ کیا ہے۔جمہوری حکومت اور جمہوریت کا مطلب عوامی حلومت ہوتا ہے جس میں ان کے بنیادی حقوق کے بارے سوچ بچارکیا جاتا ہے اوربلاامتیاز ریاستی پالیسی اختیار کی اور بنائی جاتی ہے جس میں میرٹ پر فیصلے کرکے اہل اور حقدار کو اس کا حق دیا جاتا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں،نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ مستقبل میں ہونے کا امکان ہے۔

قومی المیہ یہ ہے کہ اب ہر دور میں پاکستانی کے تصور کو پہلے مذہب کے نام پر پس پشت ڈالاگیا اور پھر بعد میں پارٹی کارکنوں کی فہرستوں کی بنیاد پر فیصلے ہونے لگے اور آج پی پی پی کی حکومت ہو یا مسلم لیگ ن کی یا پھر مسلم لیگ ق کی،ہر دور میں پارٹی کارکنوں کی فہرستوں کی بنیاد پر نوکریاں بھی بانٹی گئیں اور داخلے بھی ملے اور ا سلحہ کے لائسنس بھی بانٹے گئے اور تو اور مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور فوجی حکومتوں کے دور میں ان کی پانچوں انگلیاں دیسی گھی میں رہی ہیں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران اور بعد میںآ ج بھی سیاسی اتحادی ہونے کے نام پر میرٹ کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور اس طرح لاکھوں کارکنوں کو نظریاتی بنیادوں پر فائدہ پہنچایا گیا جو کہ حق داروں کی حق تلفی ہے۔

بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ فوجی حکومتوں کے دور میں سابقہ فوجیوں اور ا فسران کو ترجیح دی جاتی رہی ہے ۔یہ دلیل کہ اس طرح فائدہ بھی تو عوام کہ ہی ہوا ہے؟؟؟غلط بات ہے۔عوام کو نہیں بلکہ منظور نظر کارکنوں کو فائدہ پہنچایا گیا اور جاتا ہے ۔ عدل،میرٹ اور انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ عام پاکستانی جس کا نظریاتی طور پر کسی بھی جماعت سے تعلق نہ ہو اور اس کی درخواست کو میرٹ پرقبول کیا گیا ہے اور اس غریب کے گھر میں بھی خوشی کے گیت گائے جائیں اور وہاں بھی چولہا جلنے لگے۔

لہذا پاکستان میں ان حالات میں غیر جانبدارانہ اور حقیقی پاکستانی کے تصور کے ساتھ والی حکومت کی ضرورت ہے۔نظریاتی اور کارکنوں کے تصور اور فہرستوں والی حکومتیں نوجوانوں کے اندر نہ صرف مایوسی پیدا کر رہی ہیں بلکہ ان کو غلط راہوں کی طرف دھکیل رہی ہیں جن کا فائدہ لازمی طور پر دہشت گرد تنظیمیں ہی اٹھائیں گی۔ لہذا اس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے مسائل میں ایک اور اہم سبب اداروں میں سیاسی مداخلت ہے۔یہ ایک ایسی لعنت اور بیماری ہے جو دیمک کی طرح اداروں کو ختم کر رہی ہے۔ ؛اس سے نجات حاصل کرنا آج کی فوری اور اہم ضروت ہے۔ایک ایم پی اے اور ایم این اے کی ذرا ترجیحات کبھی دیکھیں تو عقل ماتم کرتی نظر آئی گیْ۔ان کی سرکاری مصروفیات اور قومی فکر کا جائزہ لیں تو آپ کو پاکستان کے مسائل میں ا لجھنے اور نہ نکلنے کی وجہ سمجھ آ جا ئے گی اور بیس فیصد ہونگے جو واقعی ممبر پارلیمنٹ کی اہلیت رکھتے ہونگے۔

ممبر پارلیمنٹ نے کرنا کیا ہوتا ہے؟ اور دیگر ملکوں میں وہ کیا کرتے ہیں وہ سب کو پتہ ہے لیکن ہمارے ہاں یہ سب ٹرانسفروں،من پسند پوسٹوں پر تعیناتی،مخا لفین کے خلاف مقدما ت بنوانا ، یا ان کو مروانا ہی ان کے فرائض ہوتے ہیں ان کی ہر ادارے میں مداخلت اور سیاسی بنیادوں پر سرکاری افسران کی تعیناتی غیر جمہوری رویئے ہیں جن کے باعث آج ملک اس حالت کو پہنچ گیا ہے۔

ریلوے کی حالت دیکھیں؟ پی آئی اے کا ستیاناس کرنے والے ایسے ہی سیاسی گرہ گٹ ہیںآ ج کل ایک اور مصروفیت دیکھنے میں آ رہی ہے اور وہ لڑکھڑاتی عمر میں عا رضی شادی کرنا ہے۔کرکٹ بورڈ کو ہی دیکھ لیں،ہاکی جو نیشنل کھیل ہے اس کے لئے ازلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے لئے فنڈ ہی نہ دستیاب ہو سکے؟؟؟؟اس وقت پوری دنیا میں معاشی ترقی کی دوڑ لگی ہے لیکن ہمارے ہاں آج بھی ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کاروائیوں اورذاتی مفادات کے حصول کے لئے اپنے ملک کے ہی وسائل کو لوٹنے میں سر دھڑ کی بازی لگائی جا رہی ہے؟ایک عام آدمی کے مسائل روٹی،تعلیم، صحت، انصاف اور امن کا حصول ہے اور یہ سب کس حد تک میسر ہے وہ سب کے سامنے ہے، گویا حکومت کی باڑ دوڑ ناا ہل لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے؟اسی کا نام اقراء پروری ہے اور اس سے بانی پاکستان نے اپنی پہلی تقریر جو دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں کی تھی میں اس سے منع فرمایا تھا۔

ان کی یہ سیاسی پیشنگوئی اب پوری ہورہی ہے۔پاکستان میں کبھی ایسی حکومت نہیں آئی جو پاکستان میں بسنے والے تمام پاکستانیوں کی ترجمانی کرے ہر حکومت جانبدار رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی عام پاکستانی کے مسائل نہ صرف جوں کے توں ہیں بلکہ ان میں بتدریج آضافہ ہی ہو رہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :