قائد کا مطلوب و مقصود

ہفتہ 29 مارچ 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

23مارچ کو ملک بھر میں 75 واں یومِ پاکستان ملّی جوش و جذبے سے منایا گیا ۔دِن کا آغاز مساجد میں خصوصی دعاوٴں اور توپوں کی سلامی سے کیا گیا ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں یومِ پاکستان کے حوالے سے تقاریب منعقد کی گئیں ، پرچم لہرائے گئے اور سارا دِن ملّی نغموں کی گونج میں ہم نے یہ ثابت کرنے میں گزار دیا کہ ”ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں “۔

لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہم ہر سال یہ دِن مناتے ہیں ، پاکستان کی غالب اکثریت کو اُس نظریے کا علم ہے نہ ادراک۔وہ نظریہ اب یا تو تاریخ کے اوراق کی زینت ہے یا پھر درسی کُتب میں ملتا ہے ۔جس جوش و جذبے سے ہم اپنے مذہبی و قومی دن مناتے ہیں اگر اس جوش و جذبے کا عشرِ عشیر بھی ہم وطن کی مٹی کا حق ادا کرنے کے لیے صرف کردیتے تو آج یہ خطہ جنت نظیر بن جاتا لیکن ہم تو شاید اُس قومِ بنی اسرائیل کی مانند ہیں جس پر ربّ ِ کریم نے کھانے کے لیے من و سلویٰ اتارا ، سروں پر بادل کی چھت تان دی اور عنایات کی بارش کر دی لیکن وہ احسان نا سپاس قوم بغاوت سے باز نہ آئی اور ربّ ِ کریم کی بارگاہ میں ہمیشہ کے لیے راندہٴ درگاہ ٹھہری۔

(جاری ہے)

ہمیں بھی وہ ساری دنیاوی نعمتیں عطا کی گئیں جو کسی بھی قوم کو عظمتوں سے روشناس کرانے کے لیے کافی تھیں لیکن ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہے اور ربّ کا یہ فرمان بھی بھول گئے کہ اللہ کسی قوم کی حالت اُتنی دیر تک نہیں بدلتا جب تک اُسے اپنی حالت خود بدلنے کا خیال نہ ہو ۔بلند بانگ دعووٴں اور تقریروں میں تو ہمارا کوئی ثانی نہیں لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو ہم تقدیر کا بہانہ بنا کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں ۔

ہماری حالت تو بقولِ اقبال یہ ہے کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
مسلمانانِ ہند نے لا الٰہ الا للہ کی بنیاد پرلاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا اور حضرت قائدِ اعظم  کا مطلوب و مقصودبھی ایک ایسا پاکستان ہی تھا جسے اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا سکے ۔

اُنہوں نے 6 مارچ 1940ء کو رسالہ ”ٹائم اینڈ ٹائیڈ“ میں اپنے مضمون میں لکھا ”اسلام محض مذہب نہیں بلکہ ایک نظامِ حیات ہے جو صرف خُدااور بندے کے تعلقات تک محدود نہیں بلکہ اپنے پیروکاروں کی زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو پر محیط ہے ۔ وہ اُن کے باہمی تعلقات ، اُن کے کلچر ، قانون اور پوری معاشرتی زندگی پر حاوی ہے “۔ہمارے سیکولر دانشورخواہ کچھ بھی کہیں لیکن یہ عین حقیقت ہے کہ قائدِ اعظم کی حصولِ پاکستان کی جدوجہد کا محور و مرکز اسلامی ریاست ہی تھاکیونکہ وہ صرف اسلام کو ہی مکمل ضابطہٴ حیات سمجھتے تھے ۔

قائد سے والہانہ محبت کرنے والے ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے اپنے کالم میں لکھا ” 4 مارچ کو شیلاگ کے جلسے میں خواتین سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایاکہ ہر مسلمان کے پاس قُرآنِ کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کر سکے کیونکہ قُرآن ایک مکمل ضابطہٴ حیات ہے “۔8 ستمبر 1945ء کو عید پر اپنے پیغام میں اُنہوں نے فرمایا ” اسلام ایک مکمل ضابطہٴ حیات ہے ، قُرآن ایک مکمل کوڈ ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے اور اسوہٴ حسنہ کا اتباع ہی ہماری نجات کی ضمانت دیتا ہے “۔

اس صراحت کے باوجود بھی ہمارے مغرب زدہ سیکولر دانشور اور فارن فنڈنگ پر پلنے والی NGO,s کے اربابِ اختیار یہ ثابت کرنے کی سعی ٴ بیکار کرتے رہتے ہیں کہ قائد کا مطلوب و مقصود سیکولر پاکستان تھا ۔اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے وہ ہمیشہ قائد کی 11 اگست کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں اُنہوں نے فرمایا تھا ”اب تم سب آزاد ہو اور پاکستان میں تمہیں اِس بات کی پوری آزادی ہے کہ اپنے مندروں ، مسجدوں اور دوسری عبادت گاہوں میں جا کر اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرو “۔

اگر اللہ ہمارے سیکولر بھائیوں کو عقلِ سلیم عطا کرے تو عرض ہے کہ یہی عین اسلام ہے اور حضورِ اکرم ﷺ کے آخری خطبے کے عین مطابق ۔آپ ﷺ کا فرمان ہے ”ُخُدا کی نظر میں سب انسان برابر ہیں اور تم میں سے ہر ایک کی جان و مال واجبِ احترام ہے ۔تُم پر لازم ہے کہ کسی حالت میں بھی ایک دوسرے کی جان و مال پر حملہ نہ کرو ۔ آج میں ذات ، نسل اور قومیت کے تمام امتیاز اپنے پاوٴں تلے روند کر مٹا رہا ہوں “۔

سیکولر دانشوروں سے سوال ہے کہ کیا حضورِ اکرم ﷺ نے مدینہ النبی میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تھی یاسیکولر ریاست کی ؟۔اگر مدینہ منورہ میں قائم کی جانے والی ریاست اسلامی تھی تو پھر قائدِ اعظم  کے ہاتھوں تشکیل پانے والی یہ ریا ست اسلامی کیوں نہیں ہو سکتی ؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر قائد کا مطلوب و مقصود ایک سیکولر ریاست ہی تھی تو پھر تقسیمِ ہند کی سرے سے ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ ایک سیکولر ریاست کا تصور تو کانگرس پہلے ہی پیش کر چکی تھی۔

گاندھی کے خط کے جواب میں قائدِ اعظم نے 17مارچ کو قوم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ”ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ لفظ ”قوم“ کی ہر معقول تعریف اور قومیت کے ہر صحیح معیار کی رو سے ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں ۔ہم ایک مختص تہذیب و تمدن کے وارث ہیں ۔ ہماری اپنی زبان ہے اور اپنا ادب ، ہماری اقدار ، ضابطہٴ اخلاق ، قوانین ، رسمیں ، نظامِ تقویم ، تاریخ ، روایتیں ، آرزوئیں اور صلاحیتیں ، سب دوسروں سے الگ ہیں ۔

ہمارا نقطہٴ نظر اور اندازِ فکر دوسروں سے یکسر مختلف ہے “۔ 14 دسمبر 1940ء کو کنگز وے ہال لندن میں تقریر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا ”ہم ایک ایسی آزاد مملکت قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اپنی مرضی اور ”مخصوص تصورات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں ۔جمہوریت کا تصور مسلمانوں کی گھٹی میں پڑا ہے ۔اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب میں مسجد میں نماز پڑھنے جاتا ہوں تو میرا شوفر اکثر میرے ساتھ کھڑا ہوتا ہے “۔


دینِ مبیں کو مکمل ضابطہٴ حیات قرار دینے والے بابائے قوم صرف عبادات ہی نہیں بلکہ معاشی و معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں دین کی رہنمائی اور عملداری کے خواہاں تھے ،قائدِ اعظم  کے اولین سوانح نگار ہیکٹر بولائتھو نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کراچی ریڈیو سٹیشن کے ریکارڈ روم میں قائدِ اعظم کی تقریر کا وہ گرامو فون ریکارڈ موجود ہے جس میں انہوں نے فرمایا ”مغربی معاشی نظام، معاشی عدل کے تقاضے پورے کر سکا نہ بین الاقوامی مخاصمت کا مداوہ کر سکا ۔

گزشتہ نصف صدی میں جو دو عالم گیر جنگیں ہوئی ہیں ان کی ذمہ داری زیادہ تر اسی معاشی نظام پر ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مخصوص تصورات و مقاصد کے مطابق اپنے اقتصادی نظام کی تشکیل کریں اور دنیا کے سامنے ایک ایسا نمونہ پیش کریں جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے اسلامی تصورات کا آئینہ دار ہو ۔اس طرح وہ مشن بھی پورا ہو جائے گا جس کے لیے ہم نے بہ حیثیت مسلمان اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے “۔

اس کے باوجود بھی اگر محض انگریزی لباس پہننے ، سر ڈنشا کی بیٹی سے شادی کرنے اور برّی ، بحری ، فضائی چیفس ، دو صوبوں کے گورنر اور ملٹری سیکر ٹری انگریز مقرر کرنے کی بنا پر حضرتِ قائد  کوسیکولر ذہن کا حامل قرار دینے پر مصر ہے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔تاریخی حقیقت تو یہی ہے کہ سر ڈنشا کی بیٹی کو مسلمان کرکے شادی کی گئی لیکن جب اُن کی اپنی بیٹی نے ایک پارسی سے شادی کی تو قائدِ اعظم نے تا دمِ مرگ بیٹی کی شکل نہیں دیکھی ۔

انگریزی لباس کی اسلام میں کوئی ممانعت ہے نہ غیر مسلموں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی ۔سر آرچی بالڈرولینڈز متحدہ ہندوستان کے آخری وزیرِ خزانہ ، جارج کینگم صوبہ سرحد اور فرانسس موڈی سندھ کے گورنر تھے جن کی خدمات سے استفادہ کیا گیا ۔ایڈمرل جیفر کو بحری فوج کی کمان صرف اِس لیے سونپی گئی کہ اُس وقت صرف دو پاکستانی آفیسر ایسے تھے جن کا تجربہ آٹھ سال تھا۔

یہی حال برّی اور فضائی فوج کا تھا ۔اِن اصحاب کی خدمات سے فائدہ اُٹھانے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ قائدِ اعظم کا مطلوب و مقصود سیکولر پاکستان تھا۔24 مارچ 1940ء کو قرار دادِ پاکستان کی منظوری کے بعد قائدِ اعظم  نے مطلوب الحسن سید کو کہا ”اگر اقبال آج زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے بالآخر وہی فیصلہ کیا جس کی انہیں آرزو تھی “۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اقبال  کے تصورات کا محور و مرکز خودی تھا اور اُن کے نزدیک ”خودی کا سرِ نہاں لا الٰہ الاللہ “۔ (باقی بشرطِ زندگی پھر کبھی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :