عدل و انصاف یا۔۔۔

اتوار 6 اپریل 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

دل پر چوٹ لگتی ہے تو دل کا باجا وقت بے وقت بجتا رہتا ہے، اس کی ایک مثال دودن پہلے اس وقت سامنے آئی، جب ہم کچھ دوست ایک بیچلر دوست کے ہاں بیٹھے ۳ ۱پریل کا ٹی۔وی پروگرام” حسب حال“ دیکھ رہے تھے۔ سہیل احمد عرف عزیزی، نجم سیٹھی بن کے پروگر ام کے میزبا ن جنید کو انٹر ویو دے رہے تھے۔جنید نے اُن سے پوچھا۔آپ نے کرکٹ بورڈ کا چئیر مین بن کے کر کٹ کی بہتری کے لئے کیا کیا ہے ؟ ہم لوگ نجم سیٹھی صاحب کا جواب نہ سکے ، اس لئے کہ ہم دوستوں میں سے کسی نے شراتاً باآواز بلند کہا۔

”جی میں نے سب سے پہلے سر جی کو اُن کاشکریہ ادا کرنے کے لئے فون کیا تھا، آج آپ کرکٹ ٹیم میں جو بہتری دیکھ رہے ہیں ۔ اُس کے لئے شکریے کے اصل مستحق تو سر جی ہی ہیں۔وہ اگر مجھے کرکٹ بورڈ کا چیئرمین نہ بناتے تو۔

(جاری ہے)

۔۔“ ان کی گفتگو کا آ خری حصہ ہمارے قہقہوں کے طوفان میں دب گیا۔ ہم ہنس رہے تھے اور کسی چابی بھرے کھلونے کی طرح ہنسے ہی چلے جا رہے تھے۔

، ظاہر ہے، اپنی شرمناک شکست کے آنسو تو ہم نے کہیں نہ کہیں چھپانے ہی تھے۔
میں کہتا ہوں۔ جب ہنسی کا طوفان تھما توایک دوست نے رنج و غم سے بھیگی ہوئی آواز میں اپنی بات کا آ غاز کیا۔اگر انسان میں خود کرکٹ کی کوئی سوجھ بوجھ نہ ہو تو اسے کم از کم دوسروں کے مشوروں پر ہی عمل کر لینا چائیے۔ایکسپریس نیوزکا سپورٹس پروگرام ”جوش جگا دے“ ،جسے اقبال مرزا صاذحب پیش کر رہے تھے،اس پروگرام میں کئی لوگ فون کر کر کے اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ اس ٹیم میں شعیب ملک کیا کر رہے ہیں ؟ جنید خان اور شرجیل کو باہر کیوں بٹھایا ہوا ہے ؟ اور اسی پروگرام میں پروگرام کے مہمان محسن خان بھی اپنے قیمتی اور ماہرانہ مشورو ں سے اپنی ٹیم کی جیت کے لئے راستہ ہموار کرتے رہے ہیں وہ مسلسل ”گیم پلان“ کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔

لگتا ہے، ہمارے ہاں اوپر سے نیچے تک ہر انسان جمہوریت کی باتیں تو بہت کرتا ہے ؟ لیکن کوئی بھی کسی دوسرے کے مشوروں پر غور و فکر کر نے کے لئے تیار نہیں ہوتا، بس ہر انسان صرف اپنی طاقت ہی کا سکہ ِ چلانا جانتا ہے۔
ایک دوسرے دوست نے کہا۔یہ شرمناک سکہ تو چاروں طرف چل رہا ہے۔کرکٹ میں اپنی طاقت کا سکہ چلا کر ا ٹھارہ کروڑ عوام کے جذبات کا قتل کیا گیا ہے تو دوسری طرف جنرل (ر) پر ویز مشرف پر غداری کے کیس میں اپنی طاقت کا سکہ چلا کر عدل و انصاف کا قتل کیا جا رہا ہے۔


طاقت کا سکہ، طاقت کا سکہ جدھر دیکھو،کم بخت یہی سکہ چلتانظر آتا ہے اور جہاں طاقت کا سکہ نہیں چلتا، وہاں سکہ رائج الوقت چلا کر صاحب الرائے لوگوں کو اپنا حمائتی بنا لیا جاتا ہے۔ ایک دوست رنج و غم سے چھلکتی ہوئی آواز میں کافی دیر سکہ رائج الوقت کے شکار صٓحافیوں کی شان میں قصیدہ آرائی کرتے رہے۔سکہ رائج الوقت کی صحافت پر حکمرانی کے تماشے تو دیکھتے ہی رہتے ہیں۔

کئی نامی گرامی صحا فی ، ایسی ایسی بے پَر کی اڑاتے نظر آتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف پر غداری کے کیس کے حوالے سے غیر جانب دار صحافیوں کی اکثریت اس بات کو مانتی ہے کہ ملک سے فوجی آمریت کو ختم کرنے کے لئے آئین کی شِک نمبر ۶ کے تحت جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزا ضرور ملنی چاہئے۔لیکن ان پر مقدمہ اکتوبر ۱۹۹۹ ء ء سے چلایا جانا چاہیے اور جن لوگوں نے آئین شکنی کی بیل منڈھے چڑھانے میں ، جنرل(ر) مشرف کی مدد کی ہے ، انہیں بھی سزا ملنی چاہیے اور یہ مطالبہ سو فیصد درست ہے اِس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سبھی فوجی آ مرو ں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ہمارے عوامی نمائند و ں کے قابل گرفت کردار کا عمل دخل ہمیشہ ہی رہا ہے ۔

ذرا غور فرمائیں اور آنکھیں کھول کے اپنے ماحول کام جائزہ لیں۔آپ کو بے شمار مُنہ کالی بھیڑیں نظر آئیں گی۔مشرف نے تو صرف آئین شکنی کی ہے۔لیکن ضیا الحق نے مسلم اُمّہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے مسلم اُمّہ کو ، دنیا کی تیسری طاقت بنانے کے خواب کو قتل کیا تھا۔آج ۴ اپریل کے دن۔اگر بھٹو کا عدالتی قتل نہ کیا جاتا تو آج مسلم دنیا کا نقشہ یقیناً یہ نہ ہوتا اور جب بھٹو کاعدالتی قتل کیا گیا تھا اُس وقت جنرل ضیا بھی تنہا نہیں تھا۔

آج کی نام نہاد جمہور یت کے بڑے بڑے سورما چیمپئین اُس سیاہ الحق آمر کی گود میں بیٹھے آمرانہ سیاست کے داوٴ پیچ سیکھ رہے تھے۔
مشرف پر اکتوبر ۱۹۹۹ ءء سے مقدمہ چلانے کی بات کر نے والوں کی بات کوئی نہیں سن رہا،عدلیہ نہ حکومت اور میاں نواز شریف صاحب کے حمائتی صحافی اکتوبر ۹۹ ء ء کی بات کرنے والوں کو یہ کہہ کر رَد کر دیتے ہیں کہ آپ تو یہ چاہتے ہیں کہ مشرف کو چھوڑ دیا جائے، آپ طاقت ور کے لئے الگ اور کمزور کے لئے الگ قانون چاہتے ہیں۔

اب ایسے غیر متوازن لوگوں کو یہ کون سمجھائے کہ مشرف کو چھوڑنے کی بات کوئی بھی نہیں کر رہا سوائے ان کے وکلا کے، ملک میں عدل و انصاف کی حکمرانی دیکھنے والے تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ آئین شکنی کا مقدمہ اکتوبر ۱۹۹۹ ء ء سے چلایا جائے اور ان لوگوں کو بھی سزائیں دی جائیں جو اپنی کالی قباوٴں میں اپنے کالے کرتوت چھپائے بیٹھے ہیں اور انہیں بھی جو بہ بانگ دُہل کہتے تھے کہ ہم مشرف کو اُن کی وردی سمیت دس سال تک صدر منتخب کراتے رہیں گے ۔

مشرف کی طاقت سے خوفزدہ ہو کر انہیں چھوڑنے کی بات کوئی بھی نہیں کر
ر ہا ہے ؟ پھر آج کا مشرف طاقتور ہی کب ہے، مشرف طاقتور اُس وقت تھا، جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے اُن کی آئین شکنی کو نہ صرف قانونی قرار دے دیا تھا ، انہیں آئین میں اپنی ضرورتوں کے مطابق ترمیم کرنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ مشر ف طاقت ور اُس وقت تھا ، جب میاں برادراُن ان کا جہاز اغواہ کر نے کے ( اس بحث میں جائے بغیر کہ جہاز اغواہ کرنے کا الزام درست تھا یا نہیں) اپنے جرم کی معافی مانگ کر دس سال تک پاکستان واپس نہ آنے کا معائدہ کر کے سعودی عرب روانہ ہو گئے تھے۔

آج مشرف نہیں، میاں نواز شریف طاقت ور ہیں۔جو سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کو قانون کی زَد میں نہیں آنے دے رہے۔ نہ جانے ایک آئین شکن کو سزا دلونے کی ضد اور دوسرے آئین شکن کو بچانے کی ضد کے پیچھے کیا راز ہے ؟ آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟
بہر کیف طاقت ور اور کمزور کے لئے الگ الگ قانون کے علاوہ میاں صاحب کے حمائتی صحا فی اکتوبر ۹۹ ء ء سے مقدمہ چلا کر مشرف کے شریک ِ جرم ساتھیو ں کو سزا نہ دینے کا ایک جواز یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ یہ تو وہی بات ہوئی نہ کہ اگر ایک ڈاکو کسی رکشے والے کی کنپٹی پر پستول رکھ کر موقعہ ِ وار دا د ا ت سے فرار ہو جائے تو تو اس رکشے والے کو بھی اس ڈاکو کے جرم میں شریک کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔

ہنسی آتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسے ایسے ذہین و فطین صحافی بھی ہیں۔یہ انتہائی بھونڈ ی مثال ہے جوعوامی نما ئند گا ن میں سے کسی پر بھی فٹ نہیں بیٹھتی۔اِس لئے کہ جس طرح گڑ پر مکھیاں آتی ہیں، یہ نہیں دیکھتیں کہ گڑ غلا ظت میں پڑاہے یا کسی صاف برتن میں رکھا ہے۔ اسی طرح ہمارے نام نہاد عومی نمائندے بھی کسی صاحب اقتدار سے وزا ر ت لیتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ وزارت کون دے رہا ہے ؟
ویسے بھی جنرل(ر) پرویز مشرف کا پہلا اور سب سے بڑا جرم مارشل لاء لگانا ہے۔

مارشل لاء لگانے کے بعد انہوں نے جتنی بھی من مانیاں کی ہیں وہ سب” مارشل لاء“ کے انڈے بچے ہیں،عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ مقدمہ اکتوبر ۹۹ سے چلایا جائے۔
کیا کسی نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ عدل و انصاف کے نام پر مشرف کو سزا کون دے رہا ہے ؟ اِس نکتے پر ضرور سوچیں اور اِس حدیث مبارکہ کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ آپ صلعم کے پاس ایک بچے کو لایا گیا کہ یہ بچہ کھجوریں بہت کھاتا ہے۔

آپ صلعم اسے منع فرمائیں۔ آپ صلعم نے فرمایا کہ اس بچے کو کل لانا۔ بچے کے والدین بچے کو دوسرے دن لائے۔آپ صلعم نے اُس بچے کو زیادہ کھجوریں کھا نے سے منع فرمایا۔بچے کے والدین نے حضور صلعم سے عرض کی۔یا رسول اللہ صلعم کل بھی آپ ہی نے منع فرمانا تھا، آپ صلعم نے کل کیوں نہیں منع فرما دیا تھا ؟ آپ صلعم نے فرمایا،کل میں خود کھجوریں کھائے ہوئے تھا۔


لگتا ہے ہمارے ہاں عدل و انصاف کا جھکاوٴ ہمیشہ طاقت کی طرف ہی رہا ہے اور آج بھی ہے،ہمارے ہاں ہمیشہ طاقت ور چور کمزور چوروں کا احتساب کرتے رہے ہیں۔ آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، قوم نے آزاد عدلیہ کے لئے جو قربانیاں دی تھیں،وہ سب رائیگاں گئی ہیں۔ورنہ اصغر خان کیس کا فیصلہ تا حال کیوں نہیں سنایا جا سکا ؟ دو چار ماہ پہلے ایاز میر صاحب نے اپنے ایک کالم میں انکشاف کیا تھا کہ میاں بردران کے خلاف سات آٹھ ارب روپئے کے نا دھندگان ہونے کا ایک کیس گزشتہ دس سال سے لاہور ہائی کورٹ کی فائلوں میں فا قہ مست قوم کی قسمت پر آنسو بہا رہا ہے۔

موجودہ آزاد عدلیہ ان کیسز کی سماعت کیوں نہیں کر رہی ؟
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
خدا را ! انصاف کو مذاق بنا کر منصف ِ حقیقی کو نہ للکاریں،اپنے ماضی پر توبہ کریں اور آئندہ کے لئے اپنے معاملات بہتر کر لیں۔ورنہ کچھ نہیں بچے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :