تباہی کے ذمہ دار۔۔۔ ہمارے رویے

بدھ 23 اپریل 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین افوج میں سے ایک ہے۔ سیاستدان چاہے آج برے ہیں لیکن ان میں پھر بھی بہتری کے آثار موجود ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم بطور قوم تنزلی کا شکار ہیں۔ اقوام عالم میں ہمارا مقام کم ہو رہا ہے۔ سیاح ہیں تو ہمارے ملک کا رخ نہیں کر رہے ۔ کھلاڑی یہاں آتے ہوئے گھبراتے ہیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں پاکستان پر لعن طعن کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں دیتیں۔ ایک زمانے میں جب ہماری معاشرتی اقدار کی مثالیں دی جاتی تھیں وہ دور ہم گنوار بیٹھے ہیں۔ پوری قوم ایک ہیجان کی سی کیفیت میں مبتلا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پوری قوم اجتماعی طور پر کسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہو گئی ہے۔ جو ہر گزرے دن کے ساتھ شدید ہوتی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

ہم جن پرخلوص اور سادہ رویوں کے امین تھے ان میں بطور قوم ہم نے خیانت کر دی ہے۔
میرے ایک استاد کہا کرتے تھے اگر اچھا کالم نگار بننا چاہتے ہو تو مطالعہ کرنے کی عادت اپنا لو اور اگر مطالعہ کرنے کا وقت میسر نہ آئے تو کم از کم اخبار روز ضرور پڑھا کرو۔ اسی بات پر عمل کرتے ہوئے میں کم از کم روزانہ دو سے تین اخبارات کا مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔

آج کل اخبارات مفید معلومات کے بجائے انسان کو ذہنی طور پر بیمار کرنے میں اہم کردار ادار کرتے ہیں۔ اس میں اخبارات یا ان کی انتظامیہ کا کوئی قصور نہیں قصور ہمارا اپنا ہے۔ اخبارات وہی چھاپیں گے جو انہیں معاشرے میں نظر آئے گا۔
صرف ایک دن کے اخبار کا جائزہ لیا تو اس میں زیادتی کے 14 واقعات تھے۔ خاندانی دشمنی کے ہاتھوں قتل ہونے کے5 سے زائد واقعات تھے۔

اور دیگر معاشرتی برائیوں کی خبریں بھی ان گنت تعداد میں شامل اشاعت تھیں۔ کہیں سگے ماموں نے اپنے بھانجوں کو کسی عامل کی تاکید پہ سانسوں کی قید سے آزاد کر دیا تو کہیں سگے بھائے نے ایک زمین کے ٹکڑے کی خاطر دوسرے بھائی کو خون میں نہلا دیا۔ ایک امام مسجد نے طالبعلم کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا تو ساتھ ہی یہ خبر پڑھ کر شاک سا لگا کہ ایک بارہ سال کی بچی جو کہ ذہنی طور پر بیمار تھی ایک اوباش کی ہوس کا نشانہ بن گئی ۔

ایک جوان سال وطن کی بیٹی کی آبرو ایک جعلی عامل کے ہاتھوں لٹ گئی تو ایک بچی اپنے ہی ہمسائے کی درندگی کا نشانہ بن گئی۔ دوست نے دوست کو اغواء کیا اور تاوان کا ڈرامہ رچایا۔ اس کے علاوہ تین واقعات میں تاوان کے باوجود مغویوں کو مار دیا گیا۔ اولاد کے ستائے ہوئے ایک بزرگ اخبار کے دفتر پہنچ گئے۔سگے بیٹے نے سرزنش کرنے پر باپ کو قتل کر دیا۔

ہر دوسری خبر میں رشوت کا تذکرہ۔ خون کی ہولی۔ رشتوں کی بے توقیری۔ہوس کا لاوا۔ احساس کی کمی کے سوا کچھ ایسا نہیں ہو گا جو مفید معلومات کے ضمرے میں آتا ہو۔
کیا کبھی ہم نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ ہمارا معاشرہ کیوں پستی کی طرف گامزن ہے؟ ہمارا مذہب ہمیں کیا درس دیتا ہے اور ہم کون سا درس اپنا رہے ہیں کبھی اس طرف توجہ کی ہم نے؟ درسی کتب میں ہم ان فقروں کے رٹے لگاتے ہیں کہ " اسلام نے جاہلیت کو مٹا دیا" لیکن کیا واقعی ہم اپنے دلوں سے جاہلیت کو مٹا پائے؟ اسلام سلامتی کا دین ہے۔

ہمارے نبی صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی روایت کو ختم کیا لیکن ہم اسی نبی آخر الزماں صلی اللہ و علیہ و ا ٓلہ وسلم کے امتی ہوتے ہوئے بیٹیوں کی توہین کر رہے ہیں تو پھرآج کے دور اور زمانہ قبل از اسلام میں کیا فرق رہ گیا؟کیا ہم اس قابل ہیں کہ خود کو مسلمان کہہ سکیں؟
آج سے کچھ سال پہلے تک کوئی کسی کی بیٹی کی طرف بری نگاہ بھی ڈالتا تھا تو محلے کے بڑے بوڑھے اس کی وہ خبر لیتے تھے کہ بری نگاہ ڈالنے والے کو اپنی شامت نظر آتی تھی۔

ہمارے معاشرے کی ایک روایت تھی(جو اب ناپید ہو چکی ہے) کہ کوئی بزرگ کسی بھی جوان کو راستے میں فضول کھڑے دیکھتا تھا تو اس جوان کی شامت آجاتی تھی شو مئی قسمت اگر وہ جوان گھر جا کر ان بزرگ کی شکایت کرتا تو اسے اپنے والدین سے بھی بے بھاؤ کی سننے کو ملتی تھی۔ لیکن آج کل ہر کوئی اپنی عزت سنبھالے بیٹھا ہے۔ آپ کسی کو کچھ کہہ کر تو دیکھیں جائز بات بھی کہیں گے تو آپ کا گریباں دوسرے کے ہاتھ میں ہو گا چاہے وہ دوسرا عمر میں آپ سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔

کسی کو کسی غلط بات سے بھی روکیں گے تو اس کے والدین بمعہ" ڈانگ سوٹا" آپ سے لڑنے کو پہنچ جائیں گے۔ہر گاؤں و محلے میں ایک آدھ بزرگ ایسا ہوتا تھا جس سے لڑکیاں بالیاں اپنے والدین سے بھی زیادہ ڈرتی تھیں۔ میرے والد اکثر مجھے اپنے گاؤں کے ایک بزرگ جمعہ خان کی داستان سنایا کرتے تھے کہ لڑکیاں تو لڑکیاں جمعہ خان کے سامنے کوئی لڑکا بھی اگر ننگے سر آجائے اس کے سر پہ کوئی مردانہ رومال یا نماز کی ٹوپی نہ ہو تو اس کی ٹانگیں کانپنے لگتی تھیں کے اب جمعہ خان بے بھاؤ کی سنائے گا۔

اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ہمارے ارد گرد سے ایسے جمعہ خان ختم ہو گئے ہیں۔ اسی لیے معاشرتی طور پر ہم ماں، بہن ، بیٹی کا تقدس بھولتے جا رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک کسی گھر میں بزرگوں کا وجود قدرت کا ایک تحفہ سمجھا جاتا تھا۔ گھر کے صحن میں ایک تخت پڑا ہوتا تھا جس پر گھر کا کوئی بزرگ براجمان ہوتا تھا۔ اور ہر معاملے میں گھر کے تما م افراد کو صائب مشورے دیتا تھا۔

لیکن جب سے ہمارے ہاں اولڈ ہومز بڑھتے جا رہے ہیں ہم اچھے مشورے دینے والوں کو کھوتے جا رہے ہیں۔ اور ہم یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ اچھا مشورہ کسی بھی کام کی بنیاد بنتا ہے۔
دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ کسی قوم نے اپنی اقدار کو چھوڑ کر ترقی نہیں کی۔ تمام ترقی یافتہ اقوام نے اپنی اقدار کا پاس رکھا تبھی وہ دنیا میں ایک الگ مقام بنانے میں کامیاب ہوئیں۔

ہم جب سے اپنی اقدار و روایات کو بھولے ہیں پستی کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔اس تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہمارے بدلتے رویے ہی ہمیں ایک اندھی و گہری کھائی میں دھکیل رہے ہیں۔ جو رویے کل ہماری شناخت تھے آج ہم نے انہیں اپنی بربادی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔بطور قوم ہمارے اجتماعی رویے تبدیل ہو گئے ہیں جس سے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔

آج اگر ہم مصمم اردارہ کر لیں کہ ہم اپنی اچھی روایات کی حفاظت کریں گے ۔ اور ان کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں گے تو جس تباہی و تنزلی کا ہمیں آج سامنا ہے کچھ ہی عرصے میں ہم اس بھنور سے نکل آئیں گے۔ کیوں کہ ہماری ایک تاریخ ہے کہ جب ہم کسی بھی بات کا مصمم ارادہ باندھ لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے نہیں روک سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :