حامد میر کے قضئیہ میں کون کہاں کھڑا ہے !!!

اتوار 27 اپریل 2014

Younas Majaz

یونس مجاز

صاحبو !انسان کتنا بھی فر عون بن جائے ایک دن اپنے گناہوں کی سزا ضرور پاتا ہے اور اگر اس میں خود غرضی اور حرص و لالچ کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس میں کئی گناہ اضافہ ہو جاتا ہے اسی قسم کی صورت حال سے اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اخباری و میڈیا گروپ دوچار ہے جس کی وجہ سے ڈھنڈھورچی اینکر پرسن جنھیں عرفِ عام میں پاکستانی عوام لبرل فسادی کے نام سے یاد کرتی ہے سخت پریشانی کے عالم میں اپنی نوکریاں اور ساکھ بچانے کی سر توڑ کوشش میں ہیں مالکوں سمیت ان کی گردنوں کے سریے موم کی شکل اختیار کرنے لگے ہیں لیکن تنہائی کا شکار جیو جنگ گروپ ”رسی جل گئی پر بل نہ گیا“کے مترادف انقلابی اشتہارات اور پرانی خدمات کے حوالے دے دے کر کل کے حمائتیوں اور آج کے مخالفین کو رام کرنے کی کوشش بھی جاری ہے آزادی رائے کی آڑ لے کر ملک کی سلامتی کو داوٴپر لگانے والے اپنے خلاف بولے جانے والے سچ اور آزادی رائے کو برداشت نہیں کر پا رہے مخالفین کے خلاف میڈیا ٹرائل اور زہر اگلنا بھی جاری ہے معافیاں اور دھمکیاں ایک ساتھ چل رہی ہیں گزشتہ کئی سالوں سے اسی ملک کا کھا کر اسی ملک کے اداروں خصوصا ْفوج اور احساس ادروں کے خلاف جو زہر اگلا جا رہا تھا اس پر ہر محب ِ وطن پاکستانی شدید بے چینی اور اضطراب کا شکار ہے آزادی صحافت اور جمہوریت کے نام پر سنسسنی خیز خبروں اور ہیجانی کیفیت سے دوچار کرنے والے اسکینڈلز سے ریٹنگ بڑھانے کی پالیسی پر گامزن اس میڈیا گروپ نے ڈالروں کے عوض پاکستان کی سلامتی کے در پے عالمی سازشیوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں جو کردار ادا کیا ہے اس کا پردہ تو اسی وقت چاک ہو گیا تھا جب اس گروب کے ٹی وی چینل جیو نے بمبئی بم دھماکوں کے فوراْ بعد اجمل قصاب کو پاکستانی ثابت کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کا جعلی گاوٴں دکھا کر سازشوں میں گھرے پاکستان کی مشکلوں میں اضافہ کیا تھا اسی پر بس نہیں مختاراں مائی ہو یا ملالہ یو سف زئی کی پرو موشن، میمو اسکینڈل ہو کہ ایبٹ آباد اسامہ آپریشن اس چینل نے مغربی میڈیا کی ہمنوائی اور امریکی موقف کو زبان زدِ عام کیا مضروب حامد میر (اللہ تعالیٰ اسے صحت اور ہدیت دے آمین )تو مشرف دشمنی میں اتنے آگے نکل گئے کہ اس کا ہر کالم اور کیپیٹل ٹاک شو حساس ادوروں اور فوج کے خلاف ہرزہ سرائی پر منتج ہو تا تھا مسنگ پرسن کے معاملے کو ہی لے لی جیئے کل تک کرایہ مانگ کر اسلام آباد آنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کو مسنگ پرسن کی آڑ میں این جی او بنانے اور اسے کروڑوں کے بجٹ کا مالک بنانے والے حامد میر سے اس کی بلیک میلنگ صحافت کی بدولت کسی نے بھی یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ وہ کس کے ایجنڈے پر گامزن ہے اس کی اس ٓزادی صحافت کے صلہ میں فوج کو جہاں دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے وہاں بلوچستان کے عام آدمی اور عسکری اداروں میں فا صلے بڑھ رہے ہیں اور یہی منشا ہمارے دشمنوں کی ہے جو بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں جب کہ مسنگ پرسن میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو یا تو عسکری اداروں سے جنگ میں برسرِ پیکار پاکستانی فوج یاپھر اپنے ہی شدت پسند وں کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے گئے اور کچھ ان شدت پسندوں کے ساتھ افغانستان کے فراری کیمپوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور وہاں دہشت گردی کی ٹرینگ حاصل کر کے پاکستان میں دہشت گردی کرنے میں مصروف ہیں اور فوج کی ڈیوٹی بھی تو یہی ہے کہ وہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اس موضوع پر کسی اور کالم میں لکھنے کی جسارت کروں گا فی الحال آتے ہیں حامد میر حملے کی جانب جو انیس اپریل کو کوئٹہ جا رہے تھے لیکن عامر لیاقت کے اصرار نے انھیں کراچی آنے پر مجبور کیا بقول عامر لیاقت حامد میر نے کراچی آمد پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسے کچھ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری عامر لیاقت پر ہو گی ؟یہی وجہ ہے کہ حامد میر کی کراچی آمد اس کے ادارے کے چند مخصوص افراد کے کسی کے علم میں نہیں تھی جب وہ کراچی ائیر پورٹ پر اترے تو ان کو خطرات کے باوجود لینے کے لئے ایک عام گاڑی ڈرائیور اور ایک گارڈ کے ساتھ بھیجی گئی جسے شکیل الرحمان کے سمدی جہانگیر صدیقی کی ملکیت بتا یا جاتا ہے حامد میر کی گاڑی جب شاہرائے فیصل پر پل کے نیچے پہنچی تو وہاں کھڑے ایک شخص نے ان پر فائرنگ شروع کر دی گولیاں پیٹ اور ران میں لگیں جس کے نتیجے میں حامد میر شدید زخمی ہو گئے ڈرائیور گاڑی بھگا کر آغا خان ہسپتال لے جانے میں کامیاب ہو گیا یہ کہا جاتا ہے کہ دو حملہ آور جو موٹر سائیکل پر سوار ہو کر گاڑی کا پیچھا اور فائرنگ کرتے رہے اور انھیں ایک موٹر کار کی معاونت ھاصل تھی لیکن نہ ڈرائیور کو کوئی گولی لگی نہ گاڑی الٹی یا ڈولی اور حفا ظت کے لئے آنے والا باڈی گاڑ خاموش تماشا دیکھتا رہا جوابی گولی چلانے کی بے ادبی نہیں کی گاڑی کا بھی صرف ایک شیشہ ٹوٹا اور ایک گولی اس کے دروازے میں پیوست ہوئی جسے بار بار جیو ٹی وی نے دکھایا وہ بھی گاڑی کو خون دھبوں سے پاک صاف کر کے ،ڈرائیور کو بیپر تو لیا گیا لیکن بارڈی گارڈ اور ڈرائیور کو تفتیش کے لئے فوری طور پولیس کے حوالے بھی نہیں کیا گیا جیسا کے عام حالات میں ہوتا ہے ائیر پورٹ سے نکلنے کی سی سی فٹیج تو موجود ہے لیکن بقول وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن وقوعہ کی جگہ کے کیمرے لنک ڈاوٴن کا شکار ہوگئے وقوعہ سے لے کر ہسپتال تک کے کیمروں کاکیا بنا اس کا جواب حل طلب ہے کہ پیچھا کرتے ملزمان کہاں تک فائرنگ کرتے رہے ،زخمی حالت میں حامد میر کا اپنے ساتھیوں خصوصاْ رانا جواد اور عامر لیاقت سے یہ کہنا ان کچھ لوگ ان کا تعاقب یہ لوگ مجھے جان سے مارنا چاہتے ہیں اور پھر فون بند ہو گیا جن کہ مبینہ طور پر حامد میر ہسپتال پہنچ کر گاڑی سے اتر کر کود اسٹریچر پر لیٹے اور آپریشن کرنے کے لیٹر پر خود دستخط کئے جہاں قابل غور ہے وہاں زخمی حامد میر کے پاس پہنچنے والے ادارے کے ابتدائی چند لوگوں میں شامل عامر لیاقت کا اپنے چینل کو بیبر پر بتانا کہ حامد میر اسے دیکھ کر مسکرائے اور اپنی ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور پھر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا اپنے دوست کو ہسپتال ہی میں چھوڑ کر ٹی وی چینل پہنچ جانا بھی حیرت زدہ کرنے کے لئے کافی ہے جہاں حامد میر پر حملے کے چند منٹ بعد ہی عدالت لگ چکی تھی جس میں دستیاب اینکر پرسنز خود ہی مدعی خود ہی منصف اور پراسیکیوٹر بنے ہوئے صرف ملکی سلامتی کے اعلیٰ ترین ادارے آئی ایس آئی اور اس کے چیف جنرل ظہیر السلام کو کٹہرے میں کھڑا کیے ہوئے اس واقع کا موردِ الزام ٹھہرائے ہوئے تھے اس دوران حامد میر کے بھائی عامر میر کا بیپر بھی لیا جاتا ہے جو کسی گھبراہٹ کے بغیر پر اعتماد لہجے میں گویا ہوئے کہ حامد میر نے تحریری طور پر اپنے دوستوں ،اہل خانہ اور میڈیا گروپ کو بتایا تھا کہ آئی ایس آئی کی طرف سے ان پر حملہ کیا جا سکتا ہے حملے کی صورت میں ذمہ دار لیفٹینٹ جنرل جنرل ظہیر السلام ہو نگے عامر میر نے بتایا کہ حامد میر اس سلسلہ میں ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کرا کرکمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کو بھیجوا چکے ہیں ادھر جہاں طالبان پنجاب سیکشن نے حامد میر پر حملے کی ذمہداری قبول کی ہے تا ہم طالبان پاکستان کے تر جمان شاہد اللہ شاہد نے حامد میر کے خلاف اپنے شدید تحفظات رکھنے کا اظہارکرنے کے باوجود اس حملہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور پاکستان کی سیکورٹی اداروں پر کیچڑ اچھالا وہاں کمیٹی پروٹیکت ٹو جر نلسٹ نے کسی ریکارڈ شدہ بیان کے ملنے کی تردید کی ہے ،لیکن مزکورہ ٹی وی چینل نے ان بیانات کو نظر انداز کئے رکھاجب کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان عاصم باجوہ کی طرف سے کہا گیا کہ وہ حامد میر پر حملے کی پر زور مذمت کرتے ہیں آئی ایس آئی پر بغیر ثبوت کے الزامات افسوس ناک اور گمراہ کن ہیں ،فوری آزادانہ تحقیقات کرائی جائے تاکہ حقائق کا پتہ چل سکے ہم حامد میر کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں ، اس کے باوجود آٹھ گھنٹے تک مسلسل آئی ایس آئی اور اس کے چیف کی تصویر لگا کر میڈیا ٹرائل کیا گیا اور مختلف اینکر پرسنز دور کی کوڑیا لاتے رہے لیکن جب اس گروپ کو اندازہ ہو اکہ اس راگ کو وہ اکیلے ہی الاپ رہے ہیں تاہم ان کا یہ ایجنڈا ضرور پورا ہو گیا کہ مغربی میڈیا خصو صاْ بھارتی میڈیا نے پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسی کے خلاف خوب ہرزہ سرائی کی لیکن اس کے قبیلے کے دیگر ٹی وی چینل ،صحافتی حلقے ،سوشل میڈیا، عوام اور معتبر سیاسی حلقے ملکی سلامتی اور تقاضوں کے عین مطابق فوج اور آئی ایس آئی کے ساتھ کھڑے نظرآ ئے تو اس میڈیا گروپ کو احساس ہوا کہ ان کا ڈرامہ فلاپ ہو تا جارہا ہے سو عامر لیاقت میڈیا گروپ کے ترجمان بنکر سامنے آئے اور کہا کہ وہ بڑی ذمہ داری سے اعلان کرتے ہیں کہ عامر میر کی جانب سے لگائے گئے آئی ایس آئی پر الزامات ان کا ذاتی بیان ہے جیو جنگ گروپ کا آفیشل موقف نہیں،اس واقعہ پر حکومت کی خاموشی معنی خیز تھی لیکن آئی ایس آئی کی طرف سے قانونی چارجوئی کے اعلان نے حکومت خاموشی کو توڑا مگر تقسیم موقف کے ساتھ ، وزیر اطلاعات پرویز رشید جہاں یہ کہتے سنے گئے کہ حکومت دلیل سے بات کرنے والے دانشوروں کے ساتھ کھڑی ہے نہ کہ غلیل چلانے والوں کے ساتھ وہاں وزارت دفاع نے الٹ موقف اختیار کرتے ہوئے جیو گروپ کے خلاف پیمبرا میں شکایت درج کراتے ہوئے جیو چینل بند کرنے کی درخواست کردی جب کہ وزیر اعظم نے واقعہ کی انکوائری کے لئے سپریم کورٹ کو کمیشن مقرر کرنے کی درخواست کی جس پر سپریم کورٹ کی طرف سے حاضر سروس ججوں پر مشتمل تین رکنی کمیٹی قائم تو کر دی گئی (جوصوموار کو اپنی انکوائری کا آغاز کر رہی ہے ،)لیکن پانچ روز تک نہ تو سندھ حکومت نے واقعہ کی ایف آئی آر درج کرائی جس کا موقف تھا کہ حامد میر کے ہوش میں آنے تک ایف آ ئی آر درج نہیں کی جائے گی تاکہ کیس خراب نہ ہو اور نہ ہی مدعیان کی طرف سے کوئی تھانے گیا لیکن یہ کیا حامد میر کے مکمل ہوش میں آنے سے ایک روز قبل ہی از خود پولیس کی طرف سے نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا جب کہ دوسرے روز حامد میر نہ صرف مکمل ہوش میں آگئے بلکہ ایک با ضابطہ بیان بھی تحریر کروا دیا جسے اچھی طرح پڑھا اور دیکھا اور اس میں کانٹ چھانٹ کروائی اور پھر یہ بیان ان کے بھائی عامر میر نے ہسپتال کے صحن میں لائیو کوریج کے ذریعہ میڈیا پر پڑھ کر سنا دیا جسے صرف جیو ہی نے دیکھایا باقی چینل نے اجتناب برتا ،لیکن وہیں سے جیو کے ہی ایک رپورٹر نے بیپر دیتے ہوئے کہا کہ بیان دینے میں حامد میر کی اہلیہ اور حامد میرنے کوئی خاص دلچسبی نہیں لی، ان کی اہلیہ تو بلکل اس سے لا تعلق رئیں ؟حامد میر کے اس بیان میں غیر ریاستی عناصر اور آئی ایس آئی پر الزام تو لگایا گیا لیکن ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے آئی ایس آئی چیف کا ذکر تک نہیں کیا گیا ؟تاہم ما ما عبد لقادر بلوچ کے لانگ مارچ کی کوریج پر آئی ایس آئی کی ناراضگی کا زکر کیا گیا ،جب کہ حیران کن طور پر حامد میر کی طرف سے پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا گیا کہ وہ حملہ آور کو نہیں جانتے ؟حالات واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو میڈیا اور سیاست دانوں سمیت سب نے اپنی اپنی سیاست کھیلی اور کھیل رہے ہیں سیاست دان اور جیو مخالف چینل جہاں اپنے اپنے حساب چکانے کی پالیسی پر گامزن ہیں وہاں جیو گروپ جسے اپنے کارتوتوں کی وجہ سے چینل بند ہونے کے سنجیدہ خدشات لاحق ہیں وہاں گروپ کے اخبارات اور چینل کا فوجی اور بعض دیگر علاقوں میں بائیکاٹ کی وجہ سے اربوں کے نقصانات کا واویلا کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے جسے وہ مغربی ہمدردوں جن کے ایجنڈے پر وہ گامزن تھا سے کیش کرانے کے لئے سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا اور خوب تشہیر کی جارہی ہے کہ اگر اس کے چینل اور اخبارات بند ہوگئے تو وہ اپنے ملازمین کی چھانٹی کرنے پر مجبور ہوں گے لیکن اس سارے قصہ میں اگر کسی کا نقسان ہوا ہے تو وہ حامد میر ہیں جن کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے جب کہ احساس اداروں فوج اور پاکستان کا نا قابل تلافی نقصان ہوا ہے جس کے دشمن ہر ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن یہ کام دشمنوں نے نہیں اپنوں نے کیا جو اب بھی وطن سے محبت کے دعویٰ دار ہیں ؟۔

(جاری ہے)

بقول صدیق منظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن پیالہ و ساغر نہیں کہ ٹوٹا تو
دوکانِ شہر سے جا کر خرید لائیں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :