غداری کی اسناد بانٹنے والوں کے نام

بدھ 30 اپریل 2014

A Waheed Murad

اے وحید مراد

چلیں آپ حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتے مگر وہ آنکھیں توبند نہ کریں جو حقیقت کو دیکھ رہی ہیں۔ آپ خامیوں کو درست کرنے کی بجائے وہ انگلیاں کاٹنے دوڑپڑے ہیں جو خرابیوں کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔جس قدر تکلیف ہمیں اپنے اداروں کی غلطیوں سے ہے اس سے زیادہ دکھ ان دوستوں کی باتوں سے پہنچتا ہے جو نیک نیتی سے ہماری جائز اور تعمیری تنقید کو بدنیتی سمجھتے یا قرار دیتے ہیں۔


کئی ’محب وطن ‘ ٹی وی اینکروں کی طرح میرے بہت سے دوست بھی طاقتور خفیہ ایجنسی کے خلاف مقبول ٹی وی چینل کی جانب سے الزامات نشر کرنے پر سخت مشتعل ہیں اور چونکہ ہم اسی شعبے سے وابستہ ہیں اور اپنی ایک سوچ بھی رکھتے ہیں تو نشانے پر ہیں۔سوشل میڈیا پر کئی دوستوں کی ناراضی اور غم و غصے کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

میرے یہ دوست لیکن صحافیوں کو درپیش خطرات سے لاعلم نظر آتے ہیں یا پھر سمجھتے ہیں کہ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ سب جھوٹ ہے۔


انیس اپریل کی شام صحافی حامد میر پر حملہ ہوا، چھ گولیاں لگیں مگر معجزانہ طور پر بچ گئے۔جیو ٹی وی نے حامد میر پر قاتلانہ حملے میں ممکنہ طور پر ایجنسی کے ذمہ داروں کے ملوث ہونے کے الزامات نشر کیے۔ اور پھر اگلے روز معذرت یا اظہارافسوس کی خبر بھی چلائی۔ بیس اپریل سے مگر ملک کے تین ٹی وی چینل اور سوشل ویب سائٹوں خاص طور پر فیس بک اور ٹوئٹر کے جہادیوں نے اپنی تلواریں اور نیزے سونتے ہیں اور بندوق والے بھائیوں سے اظہار ہمدری میں یہ تک کہہ رہے ہیں کہ چھ گولیوں سے بھی صحافی نہیں مرا؟ جیسے یہ چاہتے ہوں کہ ان کی تلواروں کو حکم ہوا ہوتا تو ایک ہی وار کام تمام کردیتا۔


چلیں مان لیا کہ آپ طاقتور خفیہ ایجنسی کے ذمہ داروں کی منفی تشہیر پر مشتعل ہیں لیکن خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے صحافیوں کو بڑھتے ہوئے خطرات کا آپ کوعلم کیوں نہیں؟ یا آپ یہ کیوں نہیں پوچھتے کہصحافی خفیہ اداروں سے کیوں خطرہ محسوس کرتے ہیں؟۔ کیا آپ نے ’محب وطن‘ ٹی وی اینکروں کو اس موضوع پرکوئی پروگرام کرتے دیکھا؟ یا حب الوطنی کے جذبے سے آپ بھی اتنے ہی مغلوب ہیں کہ سوال اٹھانے والے کو بھی قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں؟۔

کیا صرف طاقتور خفیہ ادارے پر الزامات سے قومی سلامتی کو خطرہ اور صحافت بدنام ہوئی؟ اس کے بعد سے صحافت کے نام پر جو طوفان بدتمیزی بپا ہے اس کیلئے کیا شرمناک کے سوا کوئی کم از کم الفاظ ہیں کسی کے پاس۔؟
دو ہزار پانچ میں وزیرستان میں حیات اللہ نامی صحافی کو شہید کیا گیا، اس کی تحقیقات کیلئے بھی کمیشن بناتھا، کیا کسی کو یاد بھی ہے؟۔

حیات اللہ کا جرم کیا تھا، صرف یہی کہ اس نے پرویز مشرف کے فوجی ترجمان کے دعوے کو اپنی تصاویر سے غلط ثابت کردیا تھا۔ براہ کرم، غداری کی اسناد بانٹنے سے قبل ذرا گوگل کو بھی چیک کرلیا کریں، یہ بھی اسی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے جس سے ّآپ فیس بک اور ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں۔ حیات اللہ قتل کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے؟ کیوں اس کو عام نہیں کیا گیا؟ آج آٹھ برس گزرگئے۔

کیا یہ سوال کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے؟۔ پھر دوہزار گیار ہ میں سلیم شہزاد کو اسلام آباد سے لاپتہ کرکے قتل کردیا گیا۔ اس قتل کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ تو پڑھ لیں۔ اس رپورٹ میں خفیہ ایجنسیوں کیلئے قانون سازی کا بھی مطالبہ کیاگیا تھا۔ کیا اس کا مطالبہ کرنا بھی غداری ہے؟۔ کیا ایجنسیوں کو عدالتوں کے سامنے جوابدہ بنانے کی بات کرنا کسی کو بھی قابل قبول نہیں؟۔


ایک بات یہ بھی ہے کہ صحافی کوئی ایسی بات کرے تو ملک دشمن اور غدار مگر سابق فوجی اس سے زیادہ بھی کچھ کہہ دے بلکہ عملی طورپر بھی کردے تو سارے خاموش۔ جنرل ریٹائرڈشاہد عزیز کی تصنیف کردہ کتاب ’یہ خاموشی کب تک‘ اگر کسی نے نہیں پڑھی تو ہم پر احسان کرتے ہوئے کئی بار پڑھے ۔ اگر یہ کتاب کوئی صحافی لکھتا توکیا ہوتا؟۔ مرچکا ہوتا یا غداری کے الزام میں جیل میں سڑ رہا ہوتا۔

میرے دوست پوچھتے ہیں کہ آئی ایس آئی ایسا کرہی نہیں سکتی یا کرتی ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کو سابق ڈی جی شجاع پاشا کا وہ بیان ضرور پڑھنا چاہیے جو انہوں نے ایبٹ آباد کمیشن کودیا تھا۔ جنرل پاشا نے تسلیم کیا تھا کہ ان کی ایجنسی نے کچھ شریف آدمیوں سے بھی بدسلوکی کی۔ اور پھر آپ ہمار ے کمانڈو کے فرمودات کو کیوں بھول جاتے ہیں، جنرل پرویز مشرف نے امریکی چینل اے بی سی نیوز کوکیا بتایا تھا؟۔

جنرل کا فرمانا تھا کہ ایجنسی میں سرکش عناصر موجود ہیں۔کیا کسی نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف نے ایسی بات کرکے ملک کے اعلی ترین حساس ادارے کی توہین کی؟ اور اس وقت جنرل صاحبملک کے اعلی ترین منصب پر بھی فائز تھے۔
سوشل میڈیا پر غداری کی اسناد تقسیم کرنے والے ہمارے دوست اگر کچھ مطالعہ بھی کرلیں تو زیادہ بہتر انداز میں مسائل کو سمجھ سکیں گے اور ہم جیسے صحافیوں پرتنقید کیلئے ان کو دلائل بھی میسر آسکیں گے۔

اگر امریکی صحافی ٹم وینر کی دوہزار سات میں خفیہ ادارے سی آئی اے پر لکھی گئی کتاب ’لے گیسی آف دی ایشز‘ نہیں پڑھ سکتے تو ہمارے ہی ملک کی ایک دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کی اپنی فوج پر لکھی کتاب ’ ملٹری ان کارپوریٹ‘ ہی پڑھ لیں۔ تنقید سے ادارے تباہ ہوتے ہیں اور نہ ختم، ان کو غلطیاں درست کرنے کا موقع ملتاہے۔ دو مئی کو امریکی ہیلی کاپٹر پاکستان کی حدود میں آئے تھے اور اسامہ بن لادن آپریشن بھی کامیابی سے مکمل کرگئے، اس حوالے سے خفیہ اداروں کی ناکامی کیوں تسلیم نہیں کی گئی؟۔


سوالات بہت سے ہیں۔ ہر کسی کو پوچھنے چاہئیں۔ حکومت سے بھی، فوج اور خفیہ اداروں سے بھی ، اور میڈیا سے بھی۔ مگر سوال میں وزن بھی ہونا چاہیے اور منطق بھی۔ اگر آپ یہ احمقانہ سوال مجھ سے پوچھیں گے کہ حامد میر چھ گولیوں سے مرے کیوں نہیں؟ تو میرا جواب ہوگا کہ کیا آپ تقدیر کے منکر ہیں؟۔ موت کیا چھ گولیوں کی محتاج ہے؟۔ لوگ اپنے گھروں پر لیٹے ہوئے کیوں مرجاتے ہیں؟ کیا آپ کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :