کےپی حکومت اور قارئین کی دیرینہ خواہش کی تکمیل

بدھ 21 مئی 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

میری پچھلے کئی دنوں سے کوشش رہی کہ سیاست اور اہل سیاست پر قلم اٹھانے سے پر ہیز کیا جائے اور اس کی ستم ظریفیوں پر لکھنے سے کئی درجے بہتر ہے کہ اس کی جگہ بعض دوسرے عنوانات مختص کر کے معاشرے کے ان مسائل کو لوگوں کے سامنے لا یا جائے جن کے بظاہر کوئی نقصانات دکھائی نہیں دیتے لیکن جس طرح اندر ہی اندر یہ اپنا کام دکھائی جا رہے ہیں اور معاشرے بالخصوص نوجوان نسل کو جس طرح نا امیدی اور مایوسی کی سیاہ منزل کا مسافر بنا رہے ہیں یہ انتہائی خوفناک بات ہے۔


اللہ جی کے خاص فضل و کرم سے معاشرتی مسائل پر لکھے گئے میرے کالموں کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور اس میں سے گارڈین عدالتوں کے مسائل کے حوالے سے تحریر شدہ میرے کالم پر چیف جسٹس لا ہور ہائیکورٹ نے نظر کر م فر ماتے ہوئے گارڈین عدالتوں کی بہتری اور سیشن کو رٹ سے ان کی منتقلی کے احکامات جاری فر مائے ہیں۔

(جاری ہے)

کالز، ای۔میل اور فیس بک کے ذریعے حاصل ہونے والے فیڈ بیک کی روشنی میں مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ میرا کالم پڑھنے والوں میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہے اور ایک عرصے سے جاری ان کی فر مائش کہ میں خیبر پختونخواہ کی حکومت کی کارکردگی پر لکھوں کچھ وجوہات کی وجہ سے طویل ہوتی جارہی تھی۔

قارئین!اتوار کے روز خورشید قصوری کی رہائش گاہ پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کے اعزاز میں دوپہر کے کھانے پر میں بھی مدعو تھا لہذا اس تقریب کو غنیمت جانتے ہوئے یہاں پر خیبر پختونخواہ کے حالات کے بارے صیح جانکاری حاصل کر کے اپنے قارئین کی دیرینہ خواہش کو پورا کر نے کی کوشش کی تھی لیکن ذہن سے وقتی طور پر نکل جانے والے اسی روز اور اسی وقت منعقدہ کالم نگاروں کی نمائندہ تنظیم (پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ)کی جانب سے تربیتی نشست میں ہر حال میں حاضری دینے پر دوسرے پروگرام کو حسرتوں کے قبرستان میں دفن کر دیا۔

لیکن قدرت کو اس دفعہ کچھ اور ہی منظور تھا جب دن بھر کی شدید تھکاوٹ جسم پر لادے گھر پہنچا ہی تھا کہ بزرگوار محترم خالد یعقوب صاحب کا فون آیا اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کے اعزاز میں عشائیے میں شر کت کی دعوت دی جو مجھے فوراََ قبول کر نا پڑی،اپنے محسن و مربی کے کسی بھی حکم کی سر کوبی بھلاکیسے کی جا سکتی تھی؟۔
قارئین !پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی انفارمیشن سیکریٹری ملک اعظم کی رہا ئش پر اس تقریب کا اہتما م تھا اور یہ وہی پڑھا لکھا نوجوان ہے جب 2013کے قومی الیکشنوں میں میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود بھی اِ س وقت پارٹی کو ہائی جیک کئے ”دہاڑی بازوں اور فراڈیوں “ نے اس کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے کسی اپنے جیسے کو پارٹی ٹکٹ تھما دیا ،اول درجے کی نا انصافی ، لا متناہی زیادتیوں اور مسلم لیگ کی طرف سے ”ٹکٹ“ ہاتھ میں تھامے مسلم لیگیوں کی پر کشش مراعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے جس طرح اس نوجوان نے اپنی پارٹی سے وفائی کی ہے میں سمجھتا ہوں یہ عزم اور حوصلے کی وہ روایت ہے جوصرف تحریک انصاف میں دکھائی دی ہے ۔


قارئین محترم !پرویز خٹک اور ان کی کابینہ کے ارکان کی گفتگو اور باڈی لینگو ئج سے یہ واضح ہو رہا تھا کہ تبد یلی کا جو نعرہ ان کے قائد نے لگا یا تھا اسے عمل میں ڈھالنے کے لئے یہ سر توڑ کو شیشں کر رہے ہیں بلکہ سر کاری دفتروں میں اور بالخصوص پولیس کے محکمے میں جس طرح انہوں نے انقلابی اقدامات کا آغاز شروع کیا ہے بہت جلد اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو ں گے بلکہ پٹواریوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایسی قوم ہے جو کسی کو نہیں چھوڑتی لیکن ہمارے ہاں اب ان کو پیسے دیں بھی تو یہ نہیں لیں گے۔

اسلام آباد موٹر وے سے 25منٹ کی مسافت پر ایک نئی انڈسٹریل سٹی بنائی جا رہی ہے اور آئندہ کچھ عرصے میں ان کی تعداد چھ ہو جائے گی۔
ایک ماہ میں گیس سے بجلی بنا نے والے منصوبے کا آغاز بھی کر دیا جائے گا جس کے نتیجے میں انتہائی سستی بجلی لوگوں کو فراہم کی جائے گی۔لاء اینڈ آرڈر کی صورتحالپر بات کرتے ہوئے انہوں نے شر کاء کو صوبے میں آنے کی دعوت دی اور کہا کہ آپ اپنی آنکھوں سے آکے دیکھیں ۔

ہماری کار کردگی لوگوں کو اس وجہ سے نظر نہیں آتی کہ ہم اشتہارات نہیں دیتے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگ ہماری حکومت کو ناکام حکومت کہتے خوش ہوتے ہیں۔
قارئین ! باقی باتیں تو اپنی جگہ لیکن خیبر پختونخواہ حکومت نے صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے حکومتی سطح پر اور اہل خیر کے تعاون سے سکولوں کی حالت زار بہتر بنا نے یہاں پینے کے پانی، واش رومز اور کلا س رومز کی مرمت سمیت پہلی کلاس سے نصاب کو انگریزی میڈیم بنا نے کا جو بیڑہ انہوں نے اٹھا یا ہے قابل تحسین ہے ۔

یاد رہے اگر آپ تعلیمی میدان میں اصلاحات کر تے ہوئے انقلاب بر پا کر دیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ایک ایسی کھیپ تیار ہوتی ہے جو معاشرے کوترقی، روشنی اور فلاح کی طرف لیجاتی ہے جو سڑکوں، انڈر پاسوں اور پُلوں سے کئی گناہ بڑھ کے قیمتی ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :