ریچھ کی دوستی ، قومی پوشاک اور میاں نواز شریف

جمعہ 30 مئی 2014

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

بچپن کی کہانیوں کا حقیقت سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے ، در حقیقت یہ کہانیاں کہیں نہ کہیں حقیقت کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہیں ۔ہم سب کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی کسی کہانی کا کردار ہوتے ہیں یا ہونے والے ہوتے ہیں ۔میں بہت عرصے سے سفر میں ہوں ، میری عمر کا ایک بڑا حصہ گھر سے دور گزرا اور میں نے بچپن کی کہانیوں کے لطف کی کمی کو ہمیشہ محسو س کیا ۔

جب کبھی وقت ملتا ہے تو وقت کو ریوائنڈ کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔حال ہی میں میں نے کچھ کہانیوں کی کتابوں کو پڑھنا شروع کیا اور مجھے محسوس ہوا کہ ان میں سے بیشتر کہانیاں درحقیقت ہمارے آس پاس ہی منڈلا رہی ہوتی ہیں ۔کچھ کہانیاں اسقدر حیران کن حقائق پر مبنی ہوتی ہیں کہ کہانی نویس کے انداز تحریر ،اس کے الفاظ کا استعمال اور اس کی کہانی کے کرداروں کی تعریف نہ کرنا ایک ادبی جرم بن جاتا ہے ۔

(جاری ہے)


اخبارات ، ان میں چھپنے والی انتہائی فضول خبریں اور کالم نگاروں کے تجزیے عام شہریوں اور پڑھنے والوں کو مایوسی کے انجیکشن لگاتی رہتی ہیں ۔جس قوم میں حکمران کرپٹ ہوں وہاں پورا ملک ہی ایک کرائم سین بن جاتا ہے ۔عوامی سوچ اسقدر مجرمانہ ہو جاتی ہے کہ جرم لائف سٹائل کا مرتبہ اختیار کر جاتا ہے ۔
پاکستان میں اس وقت کرائم شوز شائد اس لیے بہت مقبول ہیں کیونکہ وہ نرسری جہاں مجرموں کی نشونما ہوتی ہے اب کسی بدمعاش کا اڈہ نہیں بلکہ آپکی اپنی پیاری ٹی وی کی اسکرین ہے جہاں جرم کرنے کے مختلف طریقوں کو اس قدر گلیمرائز کر کے پیش کیا جاتا ہے کہ معصوم اور غیر پختہ ذہن رکھنے والے بچوں سے لیکر گھر میں کام کرنے والے نوکر سب ہی اس سے متاثر ہوے بنا نہیں رہ سکتے ۔

پندرہ منٹ کے نیوز بلیٹین میں تین چار قتل ، ایک دو آبرو ریزی کے قصے اور دس پندرہ ڈکیتیوں کا ذکر نہ ہو تو خبریں سننے کا مزہ نہیں آتا۔ٹی آر پی
( ٹارگٹ ریٹنگ پوائنٹ ) نے ملک اور ثقافت کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور پوری کی پوری قوم سیاسی دہشت گردوں کی دہشتگردی کا شکار ہے ۔خیر بات کہانیوں کی ہو رہی تھی ۔
خبر کی طرح کہانی کو بیان کرنا اور اسے لکھنا بھی ایک اہم اور منفرد ہنر ہے ۔

خبر رائے کو جنم دیتی ہے اور کہانی ثقافت کے رنگ دکھلاتی ہے ، سوشل فیبرک یعنی سماجی تانے بانے جن کہانیوں کا حصہ ہوتے ہیں ان میں سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے ۔ہم نے بچپن سے سناتھا کہ ہماری مٹی بڑی زرخیز ہے ، شاعروں نے اپنے کلام میں لکھا اور مفکرین نے اپنے فکر میں اس کی جھلک دکھلانے کی کوشش کی مگر حقیقت میں اس زرخیز مٹی سے جو فصل نکلی وہ ایک عجیب سی سنڈی کا شکار ہو گئی جسے سیاست کہتے ہیں ۔

پاکستان کے حالات کی تمثیل ہمارے لکھ پتی کالم نگار جب لکھنے بیٹھتے ہیں تو وہ اپنے قلم سے سماجی مسائل پر کم اور اپنی یورپ ، امریکہ اور مشرق وسطی کے سفر کی کہانی ضرور لکھتے ہیں اور آخر میں کہیں تین یا چار لائنوں میں غریب عوام کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ان کے غم میں پگھل رہے ہیں ۔
خیر میری کہانیاں ، جن کا میں ذکر کر رہا تھا ۔…۔میں نے کچھ پہلے ایک چھوٹی سی کہانی پڑھی ، بہت ہی سادہ سی کہانی مگر لگتا ہے اس کہانی کا پاکستان سے بہت گہرا تعلق ہے ۔

کہانی کچھ ایسے تھی ، ایک لکڑہارہ جنگل میں ایک ریچھ سے دوستی کر لیتا ہے ، ایک عقل مند آدمی لکڑ ہارے کو مشورہ دیتا ہے کہ تم ریچھ سے دوستی کر کے بہت بڑی غلطی کر رہے ہو ۔لکڑ ہارے کو لگتا ہے کہ یہ شخص پاگل ہو گیا ہے اور وہ اپنے دوست ریچھ کے ساتھ جنگل میں چلا جاتا ہے ۔وہ عقل مند آدمی لکڑ ہارے کو خبردار کرتا ہے کہ ایک دن یہ دوستی تمھاری جان لے لے گی ۔

لکڑ ہارا محسوس کرتا ہے کہ اس شخص کو اس کی اور ریچھ کی دوستی سے جلن ہو رہی ہے اور وہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنے پیارے ریچھ کے ساتھ جنگل میں رہے گا ۔
لکڑہارا جنگل میں پہنچ کر تھک جاتا ہے اور ایک درخت کے سائے میں لیٹ جاتا ہے ، اسی دوران اس کی آنکھ لگ جاتی ہے اور ریچھ پاس بیٹھ جاتا ہے ۔تھوڑی دیر بعد ایک مکھی کہیں سے آتی ہے اور سوئے ہوے لکڑ ہارے کو تنگ کرنے لگ جاتی ہے ، ریچھ جب دیکھتا ہے کہ اس کا دوست سو رہا ہے اور مکھی کی وجہ سے اس کی نیند میں خلل پڑرہا ہے تو وہ اٹھتا ہے اور ایک بڑا سا پتھر اٹھا کر مکھی کو مارنے کی کوشش کرتا ہے ۔

ریچھ جب پتھر پھینکتا ہے تو مکھی تو اڑ جاتی ہے مگر بے دھیانی میں سویا ہوا لکڑ ہارا غفلت کی نیند میں ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے
اب اس کہانی کا پاکستان سے یا پاکستانی حکمرانوں سے یا میڈیا سے کیا تعلق ہے ؟ سوچنے کی بات ہے ؟ بات سے بات نکالتے جاتے ہیں اور ربط ملاتے جاتے ہیں ۔سب سے پہلے کرداروں کو بدل دیتے ہیں ، لکڑ ہارے کے بجائے ہماری کہانی کے ہیرو ہیں میاں محمد نواز شریف ۔

اکتوبر 1999میں ہمار ا ہیرو جلاوطنی کی زندگی کاٹنے دنیا کے جنگل میں سنیاس لے لیتا ہے ۔اسی دوران بہت سے ریچھ ان کے دوست بن جاتے ہیں ۔ان میں سے کئی ایسے ریچھ تھے جو ان کے دوست تھے اور ان کے بھی جنہوں نے انہیں جلاوطنی پہ ملک بدر کیا ۔ہمارا ہیرو کبھی لندن اور کبھی سعودیہ میں وقت بتاتا ہے مگر پھر خدا خدا کر کے وقت گزر جاتا ہے اور نومبر 2007 میں ہمار ا ہیرو پاکستان لوٹنے میں کامیاب ہو چکا ہوتا ہے ۔

ہمارے ہیرو یعنی میاں صاحب جب واپس پاکستان کا رخ کرتے ہیں تو ان کے قریب بہت سے ایسے ریچھ نظر آتے ہیں جن کا میاں صاحب کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔اس کے باوجود سیانے کچھ نہیں کہتے کیونکہ انھیں میاں صاحب کی کم سننے کی عادت کا علم ہوتا ہے مگر اچانک میاں صاحب کی سیاست میں ایک عجیب تبدیلی آتی ہے وہ واپس جا کر کافی سارے ریچھوں کے مقابلے میں فرینڈلی اپوزیشن بن بیٹھتے ہیں اور اس وقت سیانے چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں کہ میاں جی کچھ ہوش کرو یہ نہ ہو کہ یہ ریچھ آپکو نقصان پہنچائیں ۔

چونکہ میاں صاحب کی طبعیت اور مزاج کے خلاف ہے کہ وہ کسی کی بات سنیں اس لیے وہ زرداری اینڈ کو کو کھل کر پاکستان کو جنگل بنانے کی اجازت دیتے ہیں ۔میاں صاحب خود ایک درخت کے نیچے لمبی تان کر پانچ سال سوئے رہتے ہیں ۔
اس دوران ان کے ریچھ دوست کوشش کرتے ہیں کہ کوئی مکھی میاں صاحب کو جگا نہ دے وہ نہ صرف مکھی بھگاتے رہتے ہیں بلکہ لوری بھی سناتے ہیں ۔

جب میاں صاحب جاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان کے منہ میں اپنی محبت کے شہد کے چند قطرے ٹپکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ سوئے رہیں اور تخت پنجاب کا مزہ لوٹیں۔ان پانچ سالوں میں پاکستان جنگل بن جاتا ہے ۔عوام کا استحصال ، ملکی پالیسی کا بیڑہ غرق اور پاکستان کی فکری اور سماجی سرحدوں پہ گھمسان کا رن پڑتا ہے ۔جو پہلے نہیں ہوا ہوتا وہ ہو جاتا ہے ۔

ملک ٹوٹنے کا انتظام ہونے ہی والا ہوتا ہے کہ پانچ سال پورے ہو جاتے ہیں ۔ملکی ادارے مفلوج اور معذور ہو چکے ہوتے ہیں اور میاں صاحب سوئے رہتے ہیں اور ریچھ مکھیاں اڑاتے رہتے ہیں ۔
پھر پاکستان میں 2013 میں ایک اور الیکشن ہوتا ہے اور میاں صاحب جاگ کر تخت لاہور سے تخت اسلام آباد پر آ بیٹھتے ہیں ۔یہاں تک کی کہانی اچھی ہے ۔کیونکہ جو ریچھ مکھیاں بھکا رہے تھے اپ وہ اپوزیشن کی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔

جیسیتیسے کچھ ریچھوں نے میاں صاحب کی سٹیپنی کو 35 پنکچر لگائے اور میاں صاحب پھر سے پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے ۔اب وقت تھا ریچھوں کو نوازنے کا ۔میاں صاحب اچھے اور دوست سناس آدمی ہیں انہوں نے تمام ریچھوں کو ان کی محنت کا انعام دیا ۔اب سیانے پھر سے حرکت میں آگئے انہوں نے میاں صاحب کو سمجھایا کہ سرکار یہ نہ کریں آپ پھر سے دنیا کے جنگل میں جانے کی عمر میں نہیں ہیں مگر میاں صاحب دوست شناس آدمی ہیں اور شائد اپنے دوستوں کو پہچانتے ہیں اس لیے انہوں نے کہا کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ ٹھیک ہے انہیں ریچھ اور دوست میں تمیز نہیں تھی شائد اسی لیے انہوں نے سیانوں کو خاطر میں لانا مناسب نہیں سمجھا ۔


کہانی میں ریچھ ہی ریچھ تھے اور کوئی سیانا نہیں تھا ۔کبھی یہ ریچھ میڈیا والے ہوتے اور کبھی یہ ان کے پرانے دوست ہوتے جن کی شہرت پہلے ہی کافی خراب ہے ……… اب یہاں تک کی کہانی میں کچھ ایسا نہیں ہے جسے بدلا جا سکتا تھا ۔سیانے اپنا سر پیٹ چکے مگر میاں صاحب مزے سے نئے نئے سوٹ پہنے دنیا میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر پھر ایک دن میاں صاحب ایک اور بہت بڑے ریچھ سے دوستی بڑھانے ہندوستان کا سفر کرتے ہیں ۔

جی ہاں نیریندر مودی سے دوستی کا سفر ، ایک ایسیریچھ سے دوستی کا سفر جو کبھی بھی دوست نہیں ہو سکتا ۔میاں صاحب بندے بڑے اچھے ہیں مگر میرے خیال سے اخبار نہیں پڑتے اور نہ ہی ٹی وی دیکھتے ہیں، انہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ قصیدہ گو چینل یا تو کرائم شوز دکھاتے ہیں یا اپنی مرضی کی پارٹی کی تشہیر کرتے ہیں اور جو باقی وقت بچتا ہے اس پر ڈانس پروگرام چلتا ہے ۔

میاں صاحب جب سفر پر نکلنے والے تھے تو بہت سے سیانوں نے تجاویز دیں کہ آپکے ریچھوں نے پہلے ہی آپکے سفینے کو ڈبونے میں کسر نہیں چھوڑی اس لیے اس سفر سے پہلے تھوڑی تحقیق کر لیں ۔خیر یہ سفر بھی ہو گیا اور ایک نئے ریچھ کو دوستی کا ہار پہنانے میاں صاحب دلی گئے ۔میاں صاحب کے پہناوے اور ساتھ گئے وفد سے لگتا تھا کہ میاں صاحب دلی فتح کر کے لوٹیں گے مگر لوٹے تو کچھ تصویروں اور ایک حکم نامے کے ساتھ ۔


اب میاں صاحب چونکہ یہ نئی بینگ جھولنے والے ہیں تو کوئی سیانا میاں صاحب کو اتنا بتا دے کہ یہ نیا ریچھ دوست مکھی نہیں ہٹائے گا ۔اس کی دوستی خطرناک اس لیے ہے کہ اسے انسانی خون سے پیار ہے ۔گودرا گجرات کوئی پرانی داستان نہیں ہے ۔جیسے ہٹلر کو یہودیوں کی نسل کشی میں مزہ آتا تھا اسے خون مسلم کو بہانے میں لطف آتا ہے ۔آپ اپنے نئے ریچھ دوست اور اپنے ساتھ مشورہ دینے والے ریچھوں سے محفوظ رہیں ۔

آپ نماز پڑھتے ہیں ، آپ مذہب اور عقیدے پر یقین کرتے ہیں اور میرے خیال سے ایک وطن دوست اور امن پسند شخص ہیں اس لیے احتیاط کریں ۔
ٹی وی پہ بیٹھ کر آپکو " حضور کا اقبال بلند ہو "کہنے والے آپکے دوست نہیں دشمن ہیں ، یہ سفر جاری رہے گا ، زندگی چلتی رہے گی اور جب
تک مالک کائنات کو منظور ہے ملکی نظام بھی چلے گا ۔آج قبرستان ایسے حکمرانوں سے بھرے ہیں جو کہتے تھے کہ ہم نہیں ہونگے تو دنیا نہیں چلے گی ۔

شاہ ایران اس کی ایک مثال تھا ، مثالیں تو بہت ہیں مگر میں بات ریچھوں کی کر رہا ہوں ۔قومیں تباہ ہوئیں مگر دنیا میں انسانی معاشرے ختم نہیں ہوے ۔سیلاب آئے ، طوفانوں نے شہر اجاڑے، زلزلوں میں تہذیبیں مٹ گئیں مگر سفر نہ رکا۔کیا یہ سفر آپ کے ریچھ روک سکیں گے ؟ نہیں کوئی نہیں روک سکتا !
حکمران اس جولاہے کی طرح ہوتا ہے جو بہترین رنگوں کے پوشاک کا کپڑا بناتا ہے ۔

اب مرضی آپکی ہے ، ان ریچھوں کا ساتھ دیں اور تاریخ میں ناپید ہو جائیں یا پھر تھوڑا سا قومی وقار مضبوط کریں اور کسی کی شرطوں پر نہیں اپنی قومی غیرت پر دوستی کا ہاتھ بڑھائیں ۔حامد کرزائی جیسا شخص اگر آپکو آنکھیں دکھا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے ۔
آپکے وزیر اندھے ہیں ان کی نظر کا ٹیسٹ کروائیں ، آپکے درباری صحافی بک چکے ہیں ان کا پولیگرافک ٹیسٹ کروائیں ، آپکی انتظامیہ چاپلوس ہے ان کو سیدھا کریں ۔

پھر دیکھیں کیسے ایک شاندار قومی پوشاک بنتا ہے ۔ٹی وی سٹیشن اور چاپلوس ملک نہیں چلاتے بلکہ اس بھٹی کا ایندھن عوام ہے ۔ان کے دکھ سنیں پروردگار آپکا اقبال بلند کرے گا ۔کشمیر کا مسئلہآپ با لکل سرد خانے میں ڈال رہے ہیں آپکے وہ ریچھ دوست جو آپکو یہ کہہ رہے ہیں کہ ٹریڈ کریں اور ان مسائل کو بھول جائیں درحقیقت ایک وزنی پتھر لے کر کھڑے ہیں جو وہ کبھی بھی آپکو دے ماریں گے اور آپکو پتہ بھی نہیں چلے گا ۔

وہ کل بھی مکھیاں بھگاتے تھے اور آج بھی یہی کر رہے ہیں ۔آپکے ملک کی افواج آپکی اپوزیشن نہیں ہے ، ان سے پیار کریں اور آپکو ان کا سپریم کمانڈر ہونا چاہیے ۔جب آپکے وزیر یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک دن ان وردی والوں کے ظلم کا بدلہ محسودوں کے ساتھ ملکر لیں گے تو گمان اور تاثر بدل جاتا ہے ، لگتا ہے واہگہ پر کھڑے ہندوستانی ٹینک پاکستان کا رخ کر رہے ہیں اور ان پر آپکے ہی ریچھ بیٹھے پاکستان فتح کرنے آ رہے ہیں ۔


خدا را میڈیا پالیسی بنائیں ، جیسے آپ اور آپکے دوست کہتے ہیں کہ فوجی اپنی اپنی بیرکوں میں چلے جائیں ایسے ہی ان پنکچر صحافیوں کا حساب کتاب کریں۔آپ مالدار اور صاحب علم ہیں ذرا دیکھیں کہ ملک میں کس قسم کی صحافت ہو رہی ہے ۔آپ شام کو لندن میں ہائیڈ پارک کے کونے پر کبھی کبھی ٹہلنے جاتے تھے اس وقت یہ ریچھ آپکے خلاف تھے اب یہ آپکے قصیدہ گو ہیں برائے مہربانی یہ تو پتہ کروائیں کہ دس سال پہلے بس میں سفر کرنے والا آج اسلام آباد میں دو تین کروڑ کی کوٹھی اور تیس چالیس لاکھ کی گاڑی کامالک کیسے بنا ۔

آپ نے یقینی طور پر محنت سے اپناسرمایہ کمایا ہو گا اور اس میں شک نہیں کہ آپ محنتی آدمی ہیں ، مجھے آپکی محنت اور وطن دوستی پر شک نہیں ۔الله آپکو پچاس ملوں کا مالک بنائے مگر شارٹ کٹ بلیک میلنگ اور قلم کو بیچ بیچ کر اپنے محل کھڑے کرنے وا لوں کا حساب بھی ضروری ہے ۔یہ اس پوشاک کو داغدار کرنے والے ریچھ ہیں جسے قومی وقار کا پوشاک کہتے ہیں ۔


میاں صاحب آپ ہیرو ہیں اس میں کوئی شک نہیں مگر افغانستان کے مسائل کا جو انعام پاکستان کو افغان مہاجرین کی صورت میں ملا اس کی صفائی بھی آپ کو کرنی ہے ۔کئی ریچھ آپکو ایسا نہیں کرنے دیں گے ۔کوئی ریچھ آپکو انسانی حقوق کی کہانی سنائے گا اور کوئی آپکو ڈرائے گا کہ حضور یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ، اصل مسئلہ عمران خان ہے ، اصل مسئلہ جیو ٹی وی ہے ۔

اصل مسئلہ انڈیا سے تجارت کا ہے ۔میں آپکو یقین سے
کہتا ہوں کہ یہ ریچھ ایک اور بڑا پتھر آپ کی جانب پھینکنے والے ہیں جس سے بچنا ضروری ہے ۔نجم سیٹھی کے بغیر بھی پاکستان چلے گا ، خواجہ آصف اور جیو کے بغیر بھی پاکستان قائم رہ سکتا ہے مگر اس وقت داخلی صورتحال جو منظر دکھا رہی ہے اس میں پاکستان کے وجود کو خطرہ ہے ۔افغان پاکستان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر دنیا میں پاکستان کا امیج خراب کر رہے ہیں ۔

جس ریچھ نے انہیں پاکستانی شہریت دی اس کا بھی پتہ کریں۔افغان اب اپنے وطن جا سکتے ہیں ، امریکہ واپس جا رہا ہے اور آپکو بھی افغان مہمانوں کو فوری واپس بھجوانا ہو گا ورنہ یہ کرائم سین کبھی نہیں بدلے گا ، یونہی دھماکے ہوتے رہیں گے ، قتل ہوتے رہیں گے ، عزتیں لٹتی رہیں گی اور پاکستان جلتا رہے گا ۔پاکستان کا پوشاک بچائیں ، ریچھوں کو تحفظ نہ دیں اور جب انڈیا سے بات کریں تو اپنے پوشاک کی زینت کو سامنے رکھ کر ، اپنی شرطوں پر ، اپنے نظریات کی روشنی میں ۔

آپکا کوئی دشمن نہیں ہے اگر کوئی دشمن ہے تو وہ ریچھ ہیں جن کی دوستی خطرناک ہے ان سے ہوشیار رہیں ۔تاریخ پڑھا کریں تاریخ میں بہت سی مثالیں ہیں جہاں ریچھ کی دوستی جان لیوا ہی ملے گی ۔چاپلوسوں سے محفوظ رہیں اور اپنی فوج کو اعتماد میں لیں پھر دیکھیں کیسے آپ کا اقبال بلند ہوتا ہے ۔یہ نہ ہو کہ ریچھ آپکی مکھی بھی نہ اڑائیں اور آپکو زخمی بھی کر دیں۔

آپ بھاری اکثریت والے حکمران ہیں اس لیے آپ پہ بوجھ بھی بھاری ہے ۔آپ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ آپ نوازنے میں کنجوس نہیں ہیں اور ایسا آپکے ناقد کہتے ہیں کہ آپ خاندانی سیاست کرتے ہیں اور آپکے آس پاس ریچھوں کے علاوہ خاندانی سیاستدانوں کی فوج ہے ۔میں پھر سے گزارش کروں گا کہ اپنے کسی سٹاف افسر سے کہیں کہ وہ آپکو قدیم چینی تاریخ کی کوئی کتاب ہی خرید دے ، آپکو چین اچھا بھی لگتا ہے اور وہ پاکستان کا دوست بھی ہے ۔

قدیم چین میں ایک فلسفی لاوزی گزرا ہے اس کے پیرو کار تاوٴ ازم کے ماننے والے تھے ، اس کا ایک مشہور قول ہے " ایک رہنما تب بہترین رہنما ہوتا ہے جب عوام کو یہ پتہ بھی نہ چلے کہ وہ ان میں موجود ہے ، جب اس کا ( حکمران کا ) کام ہو جائے ، اس کا مقصد پورا ہو جائے ، تو وہ ( عوام) کہیں کہ ہم نے یہ کیا ہے " ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :