دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز

بدھ 18 جون 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

چند ماہ پہلے جب حکومتی ادارے اور کچھ سیاسی و مذہبی جماعتیں طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈال رہے تھے تب میں نے اپنے کالم میں عرض کیا کہ طالبان شریعت نہیں ابلیسیت کے ایسے علم بردار ہیں جِن کی دہشت گردی کے سبب معیشت کادس ہزار ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ، پچاس ہزار سے زائد پاکستانی بچے ، بوڑھے ، جوان اور عورتیں شہید ہوئے اور چھ ہزار سے زائد فوجی جوانوں کی شہادتیں ہوئیں ۔

اتنا کچھ ہونے کے بعد مذاکرات چہ معنی دارد؟۔میرے نزدیک مذاکرات کی ناکامی اظہر من الشمس تھی جس کا میں نے اپنے کالموں میں بار بار ذکر بھی کیا۔میری ناقص رائے یہ تھی کہ دہشت گرد اپنی مذموم حرکات سے باز نہیں آ سکتے کیونکہ دہشت گردی اُن کے خمیر میں گندھ چکی ہے اور وہ مذاکرات کا بہانہ بنا کر اپنی صفیں درست کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

میں نے یہ بھی عرض کیا کہ حکمران محض وقت ضائع کر رہے ہیں کیونکہ

پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تُم سدھانے کی سوچتے ہو
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
با لآخروہی ہوا اور جونہی طالبان نے اپنی صفیں درست کیں ، کراچی ایئر پورٹ پر خوفناک حملہ کر دیا۔

اِس حملے کے بعد حاکمانِ وقت یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ بَس ! اب بہت ہو چکا ۔شمالی وزیرستان میں آپریشن تو تیرہ اورچودہ جون کی درمیانی رات کوہی شروع کر دیا گیالیکن پندرہ جون کو حکومتی سطح پر بھی اِس کا اعلان کرتے ہوئے آئی ایس ای آر کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا جس میں یہ کہا گیا کہ حکومت کی ہدایت پر شمالی وزیرستان میں بھرپور آپریشن شروع کر دیا گیا ہے اور یہ آپریشن آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گا ۔

افواجِ پاکستان نے اِس آپریشن کا نام حضورِ اکرم ﷺ کی تلوار کے نام پر ”ضربِ عضب“ رکھا ہے ۔یہ تلوار آقا ﷺ کوحضرت سعد بِن عبادہ نے دی اور غزوہٴ بدر و اُحد میں استعمال بھی ہوئی اور یہ تلوار آج بھی قاہرہ کی جامع حسین میں موجود ہے ۔”ضربِ عضب“ کا لغوی مطلب ”ضربِ کاری“ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ارضِ پاک کے جرّی جوان دہشت گردوں پر کاری ضرب لگا کر اُنہیں نشانِ عبرت بنا دیں گے ۔

انشاء اللہ یہ آپریشن ضرور کامیاب ہو گا کیونکہ ہمارے غازی اللہ کے سپاہی ہیں جنہیں شکست سے دوچار کرنا کسی بھی طاغوتی طاقت کے بس کا روگ نہیں ۔
امریکہ کی عرصہٴ دراز سے یہ خواہش اور کوشش تھی کہ افواجِ پاکستان شمالی وزیرستان میں آپریشن کریں ، اب جبکہ یہ خواہش پوری ہونے جا رہی ہے تو امریکہ سے یہ دو ٹوک سوال کیا جانا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہے یا دہشت گردوں کے ؟۔

اگر وہ پاکستان کے ساتھ ہے تو اُسے افغانستان کے صوبہ کنڑ میں پناہ لینے والے تحریکِ طالبان پاکستان کے امیر ملّا فضل اللہ اور ساتھی دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنا ہو گا ، بصورتِ دیگر ہمیں فوری طور پر امریکی جنگ سے نکل جانا چاہیے ۔حکومتِ پاکستان نے افغان حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ سرحدوں کو ”سِیل“ کر دے تاکہ دہشت گرد افغانستان کی طرف فرار نہ ہونے پائیں ۔

وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ افغان حکومت ایسا کچھ نہیں کرنے والی کیونکہ اُسے پاکستان میں افراتفری بہت مرغوب ہے ۔سرحدوں کی نگرانی کاکام بھی ہمیں خود ہی کرنا ہو گا۔
دِل خوش کُن امر یہ ہے کہ قوم کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی غالب اکثریت بھی اِس آپریشن پر متفق و متحد ہے ۔قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے حسبِ سابق انتہائی مدبرانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ”حکومت نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا ، پھر بھی ہم حکومت کے ساتھ ہیں“۔

اے این پی اور ایم کیو ایم نے بھی حکومت اور فوج کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا ۔سُنّی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین نے بھی دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کو قومی خواہشات کا آئینہ دار قرار دیا البتہ مولانا فضل الرحمٰن نے مذاکرات کو محض ڈھونگ قرار دیا اور تحریکِ انصاف نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کور کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ۔

یہ تو طے ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی حامی اور مخالف دونوں قوتیں ہی محبِ وطن ہیں اور دونوں کا مقصد حصولِ امن ہی ہے ۔ اب جب کہ حکومت نے مذاکرات کی کوشش کرکے دیکھ لی ،جو بُری طرح ناکام ہوئی ، تو مذاکرات کی حامی ، خصوصاََ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کو چاہیے کہ وہ افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں اور حکومت کی دست و بازو بنیں۔ہمیں یقین ہے کہ موٴثر عوامی قوت رکھنے والے محترم عمران خاں بھی ملکی حالات کومدِ نظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی کی خاطر اپنی تحریک کو موٴخر کر دیں گے ۔

مولانا طاہر القادری بھی 23 جون کو پاکستان تشریف لانے والے ہیں ۔وہ ضرور تشریف لائیں لیکن کسی انقلاب کے لیے نہیں بلکہ قومی و ملّی یکجہتی کے لیے کیونکہ حب الوطنی کا تقاضہ یہی ہے۔
انتہائے نرگسیت کا شکار کچھ لکھاری اپنی بزرجمہری کا رعب جھاڑتے ہوئے یہ گمراہ کُن پراپیگنڈہ کر رہے تھے کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر نہیں ۔ اُن کی آنکھیں اب کھُل جانی چاہیئں کیونکہ افواجِ پاکستان کے ترجمان نے پوری قطیعت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ آپریشن حکومت کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے۔

آج وزیرِ اعظم بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے رہے ہیں لیکن وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اپنے گندے تزویراتی مقاصد میں مگن کچھ دانشور طرح طرح کی مو شگافیاں کرتے رہیں گے اور ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی رائی کا پہاڑ بناتا رہے گاکیونکہ جو خبر الیکٹرانک میڈیا کے کانوں پر گرتی ہے وہ کچھ سے کچھ بن کر نکلتی ہے ۔ 2008ء کے الیکشن میں نواز لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہونے والے ایک معتبرلکھاری آجکل نواز لیگ کے خلاف آگ اُگلتے رہتے ہیں۔

اُنہوں نے اپنے کالم میں حکومت اور فوج کی باہمی چپقلش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ”آخری مرتبہ نواز شریف وزیرِ اعظم بنے تو اُنہیں اقتدار کوسبوتاژ کرنے میں اڑھائی سال لگ گئے ۔تاہم اِس مرتبہ اُنہوں نے سستی اور غفلت کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا اور ایک سال سے بھی کم عرصہ میں خود کو اُس مقام پر لے آئے ہیں “۔موصوف کے خیال میں فوج اپنی مرضی سے فاٹا میں کارروائیاں کر رہی ہے اور آئی ایس آئی کو بھی جی ایچ کیو سے ہی ہدایات مِل رہی ہیں ، حکومت کہیں موجود نہیں ۔

نہیں معلوم کہ یہ موصوف کا ”مدبرانہ“تجزیہ تھا یا اطلاع لیکن آئی ایس پی آر کے حالیہ بیان سے واضح ہو گیا کہ کالم نگار موصوف کا پراپیگنڈہ انتہائی گمراہ کُن اور سرے سے غلط تھا ۔ایسے لکھاری پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں بھی تاریخ پہ تاریخ دیتے رہے لیکن اُن کی ساری” بشارتیں“ اور پیشین گوئیاں ہمیشہ غلط ثابت ہوتی رہیں ۔موصوف کہتے ہیں ” اب کی بار اسٹیبلشمنٹ سیاسی حکومت کے خلاف براہِ راست کچھ نہیں کرے گی بلکہ پس پردہ رہ کر داوٴ کھیلے گی ۔

ماضی میں بھاری بوٹوں کی دھمک آنا شروع ہو جاتی تھی لیکن اِس بار زیرک انداز اپنایا جا رہا ہے “۔شائدمحترم لکھاری کے خیال میں فوج کازیرک انداز یہ ہو کہ وہ ایسی سیاسی قوتوں کی پشت پناہی کرے جو نواز لیگ کو ”ٹَف ٹائم“ دے سکتی ہوں۔اسی لیے اُنہوں نے فرمایا ”عمران خاں کے جلسوں میں شُرکاء کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔دوسری طرف ڈاکٹر قادری اپنی شعلہ بیانی سے جون کی تمازت میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کرنے (نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں)کینیڈا سے تشریف لایا ہی چاہتے ہیں “۔

کیا موصوف یہ سمجھتے ہیں کہ طاہر القادری اور عمران خاں کی پُشت پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے ؟۔اول توایسا کچھ بھی نہیں ہے لیکن اگر خُدا نخواستہ ایسا ہونے جا رہا ہوتا تو پھر محترم لکھاری سے سوال کیاجا سکتا ہے کہ ایسی صورت میں وہ جمہوری قوتوں کا ساتھ دیں گے یا اسٹیبلشمنٹ کا ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :