انقلابِ قادری اور چندسوالات

پیر 30 جون 2014

Qasim Ali

قاسم علی

ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی 23جون کوآمد بہت دھماکہ خیز رہی اور اس کو دھماکہ خیز بنانے کا آغاز اگرچہ حکومت نے خود ہی کیا کہ ان کے اسلام آباد اترنے والے طیارے کارخ موڑ کر لاہور میں اتاردیا گیا حالاں کہ یہی طیارہ اگر اسلام آباد میں ہی اترنے دیا جاتا تو کوئی قیامت نہیں آنی تھی بہرحال یہیں سے ہی "اندھا کیا چاہے ،دوآنکھیں''کے مصداق قادری صاحب کو مجمع گیری اور سیاسی شعبدہ بازی کا موقع مل گیا لہٰذا ڈاکٹر صاحب نے طیارے کا رخ موڑنے کی اس حکومتی گستاخی پر احتجاجاََ جہاز سے اترنے سے انکار کردیا اور اعلان فرمایا کہ وہ اس وقت تک طیارے سے باہر قدم رنجہ نہیں فرمائیں گے جب تک فوج کا کوئی اعلیٰ عہدیدار انہیں یہاں سے لینے نہیں آجاتا کیوں کہ انہیں حکومتی مشینری پر ہرگز اعتماد نہیں ہے مگر حسب معمول بلکہ حسب عادت ان کے مطالبات ہوا کے رخ کی طرح بدلتے رہے اور دوسری طرف آرمی نے بھی ان کو not respondingکہہ کر ان کے انقلابی خواب بکھیر دئیے اوپر سے افتاد یہ آن پڑی کہ امارات والوں نے انہیں طیارہ ہائی جیک کرنے پر کاروائی کرنے اور آدھے گھنٹے بعدجہاز کے اے سی بند کرنے کی روح فرسا''دھمکی''دے ڈالی ایسے میں قریب تھا کہ ڈاکٹر صاحب خود ہی حکومت کے خلاف یہ ''جہازی جہاد''ختم کرکے باہر تشریف لے آتے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی مداخلت غیبی مدد بن کر آئی اور ان کی درخواست پرگورنر پنجاب چوہدری سرور صاحب(جوکہ 100%حکومتی نمائندے ہیں) جناب شیخ الاسلام جن کو اب شیخ الاسلام آبادبھی کہنا چاہئے کو ماڈل ٹاوٴن میں پہنچاگئے اس طرح پانچ گھنٹوں پر مشتمل یہ طویل سٹیج ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچا جس نے نہ صرف میڈیا کو ایک اور چٹکلہ مل گیا بلکہ مہنگائی اور دکھوں کی ماری عوام کو بھی مفت تفریح میسر آئی۔

(جاری ہے)

اب رہی بات قادری صاحب انتخابی نظام میں اصلاحات کے مطالبات کی جو وہ بہت تواتر سے کرتے آرہے ہیں ان میں کافی حد تک صداقت ہوگی اور حکومت کی پالیسیوں میں بھی بہت سی خامیاں ہوسکتی ہیں مگر ان سب چیزوں کے باوجود اگر حقیقت پسندانہ نظروں سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر صاحب جس انقلاب کی نوید عوام کو بلکہ اپنے مریدین کو سناتے رہتے ہیں اس کو ڈاکٹر صاحب کے خواب یا سراب تو کہا جاسکتا ہے انقلاب نہیں ۔

عوام کی بڑی تعداد کے ذہنوں میں کئی طرح کے سوالوں کا پیدا ہونابھی ایک فطری امر ہے مثلاََ گزشتہ برس جب ڈاکٹر صاحب سردیوں کی چھٹیوں میں پاکستان تشریف لائے تھے تو ایک دنیا نے دیکھا کہ دن رات عوام کے غم میں گھلنے والا اور ان کو امیر اور غریب کے مابین فرق ختم کرنے کی خوشخبریاں سناکر محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کے عالیشان دعوے کرنے والا انقلابی لیڈر خود تو گرم کنٹینر میں مزے لے رہاتھا اور عوام کی ایک بڑی تعدادجن میں عورتیں بھی اپنے شیر خوار بچوں کیساتھ سخت ترین سردی اور اوپر سے بارش میں انقلاب انقلاب کھیلتی رہی مگر انقلاب تو نہ آیا البتہ انقلاب کی خواہش میں تین دن تک کھلے آسمان تلے سخت ٹھنڈ میں ٹھٹھرنے والوں کی بڑی تعداد نمونئے اور ملیریے میں مبتلا ہوکر ہسپتالوں میں ضرور پہنچ گئی اور جناب قادری صاحب ان بیچاروں کی خبرگیری کرنے کی بجائے اسی حکومت کیساتھ مزاکرات کرکے کینڈا سدھار گئے جس کو وہ اب تک منافق اور غاصب کہتے رہے تھے ۔

اور 23جو ن کو بھی یہی منظر دیکھنے میں آیا فرق صرف یہ تھا کہ اب سردی کی بجائے قادری صاحب سخت گرمی میں تشریف لائے اور ٹھیک ایسے وقت میں جب ان کے چاہنے والے تپتی دھوپ میں جل مررہے تھے ایسے میں موصوف جہاز میں اے سی کی کولنگ زیادہ ہوجانے کے باعث گرم کوٹ پہننے میں مصروف تھے ۔ایک اور اہم بات جو عوام ڈاکٹر قادری،شیخ رشید اور چوہدری برادران سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں وہ یہ کہ انہوں نے ماڈل ٹاوٴن میں پولیس گردی کے نتیجے میں پیش آنے والے سانحے کو تودنیا کا سب سے بڑا سانحہ قراردے دیامگر ان کی یہی زبانیں اس وقت کیوں گنگ ہوگئی تھیں جب ان کا باوردی مرشد و آقا پرویزمشرف لال مسجد کی عفت ماٰب بیٹیوں پر فاسفورس بموں کی بارش کرکے ان کی لاشوں تک کو پگھلارہاتھا اوران کو اپنے دور اقتدار میں 12مئی2007ء کا وہ واقعہ کیوں بھول گیا جب سابق چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کے دورہ کے موقع پر کراچی کی سڑکوں کو انسانی لہو کی سرخ چادر پہنا دی گئی تھی۔

کیا کبھی انہوں نے ان واقعات کی کبھی مذمت کی ؟کیا اس وقت ان میں سے کسی کو کسی سے استعفیٰ مانگنے یا دینے کی توفیق ہوئی تھی ؟ایک اور اہم بات یہ کہ قادری صاحب آپریشن ضرب عضب کی تو خوب حمائت فرما رہے ہیں مگر اس آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 6لاکھ مہاجرین کے بارے میں ان کی تحریک عملی طور پر تاحال خاموش ہے کیا ہی بہتر ہوتا کہ قادری صاحب اپنے پیروکاروں اور چاہنے والوں کو ان مصیبت زدہ بھائیوں کی خدمت ، ان کو سہولیات فراہم کرنے اور جذبہ ایثار کی نئی مثالیں قائم کرنے کی تاکید کرتے کہ اسلام کی تو تعلیمات ہی یہی ہیں کہ ''تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے''عوام تو یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ قادی صاحب فوجی حکومت میں تو خاموش رہتے ہیں بلکہ الیکشن میں بھی حصہ لیتے ہیں اور قومی اسمبلی میں پہنچنا بھی کارثواب سمجھتے ہیں مگر جمہوری حکومت کے آتے ہی ان کو یہ نظام کافرانہ نظرآنے لگتا ہے اور ان کے پیٹ میں مروڑ بلکہ انقلاب اٹھنے لگتے ہیں مگر ایک بات جس نے عوام کو سب سے زیادہ حیران کیا ہے وہ ان کا تازہ فرمان ہے جس میں انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ وہ خود ا لیکشن کروائیں گے سبحان اللہ ۔

عوام کو یہ بات ہضم شائدمشکل سے ہی ہویا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قادری صاحب یہ کہتے ہوئے بھول گئے ہوں کہ وہ تو اس نظام کو بدلنے آئے ہیں پھر وہ الیکشن کس نظام کے تحت کروائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :