منشیات کی لعنت اور ہمارا کردار

اتوار 6 جولائی 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

گزشتہ دنوں ہر سال کی طرح منشیات کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا اس دن کی نسبت سے ملک بھر میں سیمنار منعقد کئے گئے تقریریں ہوئیں اور منشیات سے متاثرہ افراد کی بحالی کی باتیں بھی ہوئیں ۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہر سال دنیا بھر میں منشیا ت کے خاتمے کا عا لمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام الناس میں شعور کو اجاگر کرنا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ،کیوں؟ اس کیوں کا جواب ہمیں کسی سیمنار میں نہیں ملتا جبکہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں سے حقائق کھنگالے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ منشیات کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس ” وسیع منافع بخش“ کاروبار کو حکومتوں کی سپورٹ مہیا ہوتی رہے گی۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 25کروڑ سے زائد افراد مختلف اقسام کی منشیات استعمال کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ ہر سال ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔نوجوان مردوں کے علاوہ اب خواتین کی بڑی تعداد بھی اس لت کا شکار ہورہی ہے۔ محکمہ صحت پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں بھی 90لاکھ سے زائد افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔جن میں 22 فیصد دیہاتی آبادی اور 38 فیصد شہری آبادی شامل ہے۔

جبکہ ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال سگریٹ اور شراب کے علاوہ صرف منشیات ( چرس، افیون ، ہیروئن وغیرہ) پر 40 ارب روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں نشہ کرنے والوں میں زیادہ تر 14 سے 25 سال کے نوجوان ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال35 لاکھ سے زائد افرادمنشیات کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کے تمام اعداد و شمار اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں جبکہ حقائق ان اندازوں سے بھی زیادہ تلخ ہوتے ہیں ابھی حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات اور جرائم نے بھی پاکستان میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے ایک سروے رپورٹ شائع کی ہے۔

جس کے مطابق پاکستان میں 15 سے 64 سال کی عمر کے افراد پر مشتمل آبادی منشیات کے تباہ کن نتائج سے متاثر ہو رہی ہے۔سروے رپورٹ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ایک سال کے دوران 67 لاکھ بالغ افراد نے منشیات کا استعمال کیا۔پاکستان میں 42 لاکھ سے زائد افراد کے بارے میں خیال ہے کہ وہ نشے کے عادی ہیں لیکن ان میں سے 30 ہزار سے بھی کم افراد کے لیے علاج اور طبی سہولیات میسر ہیں۔

اس کے علاوہ ان افراد کے لیے باقاعدہ علاج مفت نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ا یک ایسا ملک جس کی کل آبادی کے تین چوتھائی افراد ایک دن میں 1.25 امریکی ڈالر سے کم پر زندگی گزارتے ہیں ان کے لیے منشیات کا علاج کروانا غیر معمولی طور پر مہنگا ہے۔پاکستان میں مرد اور خواتین دونوں منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ مردوں میں بھنگ اور خواب آور ادویات کی شرح زیادہ ہے جب کہ خواتین سکون فراہم کرنے والی ادویات بھی استعمال کرتی ہیں۔

سروے رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 16 لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں اور خواتین میں اس کی شرح زیادہ ہے۔پاکستان میں منشیات کے استعمال کی سروے رپورٹ نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن پاکستان بیورو آف شماریات اور اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے منشیات اور جرائم کے تعاون سے جاری کی گئی۔
یہ افسوس ناک امر بھی سامنے آیا ہے کہ نشے کی لت میں ایسے بچے اور نوجوان بھی شامل ہیں جو کسی مجبوری کی بنا پر معاشرے میں تنہا رہ جاتے ہیں، جن کے انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھنے کے امکانات انتہائی زیادہ ہوتے ہیں۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایسے بچے دہشت گردوں کا آسان شکار ہو سکتے ہیں جنہیں شمالی وزیرستان لے جاکر خود کش بمبار بنانے کی تربیت دی جاتی ہے جنہیں بعد میں خود کش دھماکوں کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کی ملکی حالات ،معاشی ناہمواری، بے روزگاری اور عدم مساوت کے نتیجے میں اس طرح کی برائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے مگر حکومتوں کی غفلت ،سیکورٹی پر مامور افراد اور انسداد منشیات کے لئے کام کرنے والے اداروں کی عدم فعالیت بھی منشیات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے اور دوسری اہم وجہ افغانستان میں پیدا ہونے والی منشیات اور اس کی بذریعہ پاکستان دنیا بھر میں سمگلنگ ہے۔

پاکستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے اس میں دہشت گردی کا ناسور سرفہرست ہے۔ دہشت گردوں کواپنی مذموم سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے مالی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور منشیات کی تیاری اور سمگلنگ اس سلسلے میں ان کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس طرح دہشت گرد ایک تیر سے دوشکار کررہے ہیں۔ ایک طرف وہ منشیات کے ذریعے ااپنی مذموم سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے براہ راست افواج ، قومی املاک اور عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری طرف ہماری نوجوان نسلوں کی رگوں میں نشہ اتار کرانہیں تاریکیوں کی طرف تیزی سے دھکیل رہے ہیں۔


ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت منشیات کی ترسیل کے راستوں کی کڑی نگرانی کرنے کے ساتھ منشیات سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لئے ایسے اداروں کے قیام پر فوری توجہ دے جن میں انسان سے محبت اور انسانیت کو بچانے کا جذبہ رکھنے والے افراد کو تعنیات کیا جائے اس کے ساتھ ہی ملکی حالات خصوصا ً بے روزگاری ، غربت اور جہالت کے خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے ،ایک صحت مند پاکستان کے قیام کے لئے صحت مند سرگرمیوں کا احیاء وقت کی نہ صرف ضروت ہے بلکہ اس کے بغیر چارہ کار ہی کوئی نہیں، اس کے ساتھ ہی شہروں میں منشیات کو فروخت کرنے والوں کو نہ صرف پکڑا جائے بلکہ انہیں قرار واقع سزا دی جائے جو ہماری نسل کی رگوں میں منشیات کا زہر اتار رہے ہیں ،کسی ایک گھر میں کسی ایک فرد کے نشے کے عادی ہونے کا مطلب اس سارے گھر کی پریشانی ہوتی ہے ،پولیس نشے کی لت میں مبتلا افراد کو پکڑنے اور زلیل و رسوا کرنے کی بجائے فروخت کرنے والوں کو پکڑئے تو بہتری کے آثار پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو بچانے کا جذبہ ان کے دل میں موجزن ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :