ٹی آئی پی کی ممکنہ نجکاری اورسینکڑوں مظلوم ملازمین!!!

پیر 28 جولائی 2014

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

سمجھ نہیں آ رہی کہ وطن عزیز میں بسنے والے عوام کو عزت کب دی جائے گی؟ان کی عزت نفس مجروع کرنے کا سلسلہ برتر طبقات ختم کب کریں گے؟کیا یہ عوام پاکستان اسی طرح بھیڑ بکریوں کی طرح زندگیاں گذارتے کبھی کس کے ہاتھوں اور کبھی کس کے ہاتھوں ادھر ادھر ہانکے جاتے اور بے موت مارے جاتے رہیں گے؟کیا ان کے بھی کوئی بنیادی حقوق ہیں۔۔۔۔اگر ہیں۔۔۔؟تو پھر ان کی پامالی کا سلسلہ رکے گا کب؟حیرت کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہے کہ وہ عظیم مزدور جو ملکی معیشت اور قومی اداروں کی بنیاداپنے لہو سے سینچتا ہے مگر صلے میں اسے کچھ دینے کے بجائے دو وقت کی روٹی ،اس کی سفید پوشی اور عزت نفس تک بھی چھین لی جاتی ہے؟آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔۔کون باندھے گا ان مظالم کے سامنے بندھ؟؟ایک بار پھر اہم قومی اداروں کی نجکاری کا پلان تیار ہے یہ دیکھے بغیر کہ جو ادارے اس سے پہلے نجکاری کی بھٹی میں جھونک دیے گئے ان کا حشر کیا ہوا؟ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کا کیا بنا؟وہ کس حال میں ہیں؟حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ یہ پالیسیاں بنانے والے اتنے سادہ یا ہٹ دھرم کیسے ہو جاتے ہیں ان کی پالیسیاں تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث بن جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

۔۔لوگ شور واویلا کرتے ہیں مگر یہ عام عوام ان بڑے شہزادوں کا بگاڑ بھی کیا سکتے ہیں وہ جو بھی کریں انھیں پوچھنے والا ہے کون؟؟ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی جیسا مسئلہ پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے مگر کیا پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ 1997میں ہری پور ہزارہ میں پاک چائنہ فرٹیلازر کی نجکاری کے بعد سے اب تک ان محنت کشوں پر کیا بیت رہی ہے جو اس وقت اس ادارے کی جڑوں کو اپنے خون پسینے سے سینچ رہے تھے مگر آج وہ دردر کی خاک چھاننے پر مجبور ہیں۔۔کیوں؟؟؟ان کے واجبات ابھی تک ادا نہیں کیے گئے جن کے حصول کے لیے وہ ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں مگر ان کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ۔۔۔آج پی آئی اے اور پاکستان سٹیل سمیت کئی ایک اہم قومی ادارے نجکاری کی مبینہ ہٹ لسٹ پر ہیں جن میں ٹیلی فون انڈسٹریز آف پاکستان جسے ایشیا کا سب سے بڑا ٹیلی فون سازی کا ادارہ ہونے کا قابل فخر اعزاز بھی حاصل ہے کے سینکڑوں کنٹریکٹ ملازمین جن کے ساتھ ٹی اینڈ ٹی کالونی ہسپتال،ٹیلی کم بوائز اینڈ گرلز پبلک سکول و کالج اور ٹی اینڈ ٹی کالونی ہسپتال کے تین سو سے زائد مرد و خواتین ملازمین بھی درد ناک عذاب سے گذر رہے ہیں۔۔۔۔ان لاچار و بد قسمت ملازمین کو گذشتہ پانچ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں اور اپنے جائز حق کے حصول کے لیے چیخ و پکار کرتے کرتے یہ بد نصیب ملازمین غم و الم کی مجسم تصویر بنے عید کی چھٹیوں پر اپنے آبائی علاقوں کو سدھار گئے ہیں مگر انھیں اپنے اہل و عیال کو مطمئن کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ گھر والوں کے لیے عید پر کیا لائے ہیں؟ان کے بچے کسی پائی پیسے کے بغیر دوسرے لوگوں کی طرح عید کی خوشیوں میں کیسے شریک ہوں گے؟کیا ان کے بچوں اور گھر والوں کو عید کے کپڑے اور دیگر اشیاء درکار نہیں ہوں گی؟کیا ان کے اور ان کے بچوں کے کوئی ارمان اور ضرورتیں نہیں؟جن مظلوم ملازمین کو پانچ مہینوں سے تنخواہیں ہی نہ ملی ہوں اور اسی کسمپرسی کے عالم میں ان کا رمضان المقدس بھی گذرا ہو جس کے بارے میں متاثرہ ملازمین کا کہناہے کہ رمضان میں میس کے ماہانہ واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث ان کا میس بھی بند کر دیا گیا تھا اور وہ پانی کے ساتھ سحری و افطاری کرنے پر مجبور رہے لیکن وہ اپنی اس لاچارگی و کسمپرسی کا اظہار بھی سفید پوشی کا بھرم ٹوٹنے کے ڈر سے کسی کے سامنے کرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔۔۔حتیٰ کہ ان مقہور و مظلوم ملازمین نے تنخواہوں کی طویل بندش اور جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ ہونے سے گھروں کو جانا بھی چھوڑ دیا تھا کہ گھر والے خرچہ مانگیں گے تو وہ کیا منہ دکھائیں گے۔۔۔ اور گذشتہ روز جب یہ ہی مجبور محض پردیسی لوگ عید کی چھٹیوں پر اپنے آبائی علاقوں کو رندھے ہوئے چہروں اور نمناک آنکھوں کے ساتھ ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی مانگ تانگ کر لے تو گئے مگر ان کی اس شرمناک حالت پر کسی کو رحم آیا اور نہ ہی کسی نے ان بیچاروں کا دکھ درد محسوس کیا۔۔جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔۔۔کوئی سوچ سکتا ہے کہ جن عظیم محنت کشوں نے ایک دہائی سے لے کر تین تین دہائیاں مسلسل ٹی آئی پی جیسے معتبر قومی ادارے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں اور قیمتی زندگی وقف کر دی ہو ان کے ساتھ ایک وقت میں ایسی بدترین بدسلوکی اور ظلم بھی روا رکھا جائے گا کہ ٹی آئی پی کی 60سالہ تاریخ میں یہ لاچار ملازمین پہلی باراپنے اہل و عیال کے ہمراہ پانچ پانچ ماہ کی فاقہ کشی کے بعد تنخواہوں کی وصولی کے بغیر عید کی چھٹیوں پر اپنے گھروں کو سدھاریں گے؟؟؟افسوس تو اس بات کا کہا کہ نہ تو انفارمیشن منسٹری ،نہ وفاقی حکومت اور نہ ہی انتظامیہ کو یہ خیال آیا کہ جن سینکڑوں ملازمین کی پانچ پانچ ماہ سے تنخواہیں بھی بند ہیں ان کے اہل و عیال پر کیا گذر رہی ہو گی؟انھوں نے اور ان کے بچوں نے رمضان المقدس کی بابرکت ساعتیں انتہائی لاچارگی اور فاقوں میں کیسی گذاری ہوں گی اور عید کی چھٹیوں کے موقع پر یہ پریشان حال لوگ کس حالت میں اپنے گھروں کو جائیں گے؟دکھ تو اس بات کا بھی ہے کہ مزدورکی نام لیوا پی پی پی سمیت کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت نے پانچ ماہ کے فاقہ زدہ ان مزدوروں کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کی۔۔۔تو پھر کاہے کی عوامی نمائندگی؟؟ْتف ہے ایسی نام نہاد اور کھوکھلی نمائندگی پر۔۔۔یہ نمائندگی ہے یا کھلا دھوکہ اور فراڈ؟؟؟شوکت عزیز،یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سمیت تین وزیر اعظموں نے تو ٹی آئی پی کے ان سینکڑوں کنٹریکٹ مظلوم ملازمین کو مستتقل کرنے کی نوید سنائی ۔۔۔سابق وفاقی وزیر اور پی پی پی کے مرکزی لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی یہ ہی کچھ کیا۔۔۔پی پی پی کی ایک مقامی سابق ایم پی اے تو ان بد قسمت ملازمین کی مستقلی کے نوٹیفیکیشن بھی انھیں دکھاتی،سیاست چمکاتی اور ان سادہ لوحوں سے چوکوں چوراہوں میں بھنگڑے لڈیاں ڈلواتی رہی مگر آج یہ سب غائب ہیں ان میں سے کسی ایک یا اس کی جماعت کو اتنی توفیق بھی نہیں کہ وہ ان مظلوموں کا مسئلہ کسی معتبر فورم پر اٹھاکران کے حق کی آواز بلند کرے۔۔۔انصاف کے بلند بانگ دعوے کرنے والی تحریک انصاف کی ساری قیادت بھی چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔۔۔عمر ایوب خان اور وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر نے مذکورہ ملازمین کی تنخواہوں کی واگزاری اورجائز حقوق کے تحفظ کے لیے طویل جدوجہد کی مگر ان کاوشوں کے خاطر خواہ ثمرات سامنے آنے سے پہلے ہی عمر ایوب خان کو اپنی والدہ کی بیماری کے سلسلے میں بیرون ملک جانا پڑ گیا ۔۔۔اب سنتے ہیں کہ ٹی آئی پی اور ذیلی اداروں میں تیس تیس سال تک ملازمت کرنے والے مرد و خواتین بغیر واجبات و مراعات کی ادائیگی کے بیک جنبش قلم فارغ بھی کیے جا رہے ہیں۔۔۔؟؟؟اگر ایسا ہو تا ہے تو یہ ان مفلوک الحال ملازمین پر ایک اور ظلم عظیم ہو گا۔۔۔اس لیے ہماری وزیر اعظم نواز شریف اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر مملکت انوشے رحمان سے درد مندانہ گزارش ہو گی کہ خدارا ٹی آئی پی جیسے قومی ادارے کو نجکاری کی دلدل میں دھنسنے اور سینکڑوں خاندانوں کے معاشی قتل کے تدارک کے لیے ہنگامی نوعیت کے موثراقدامات کریں تا کہ وطن عزیز کے ایک اہم قومی ادارے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے سینکڑوں عظیم محنت کشوں اور وابستہ خاندانوں کو ان کا جائز حق اور انصاف مل سکے۔۔۔دوسری طرف تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں کو بھی اس سنگین مسئلہ کے تناظر میں خاموش تماشائی بننے کے بجائے وسیع تر علاقائی و قومی مفاد میں اپنے حصے کا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تا کہ نہ صرف ایک اہم قومی ادارے کو نجکاری کی بھینٹ چڑھنے سے بچاکر سینکڑوں خاندانوں اور آئندہ نسلوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جا سکے بلکہ کئی کئی سال ملازمت کرنے والے جن مظلوم ملازمین کو بغیر واجبات و مراعات کے بیک جنبش قلم ملازمت سے فارغ کیا جا رہا ہے ان کے جائز حقوق کا تحفظ کر کے دین و دنیا کی بھلائی کا کوئی سامان کر سکیں!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :