سوشل میڈیا کی اہمیت وکردار اورغدار کون !

اتوار 10 اگست 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

ہم بڑی د ِلچسپ اورز ِندہ د ِل قوم ہیں،چاہے حالات کیسے ہوں ،ہم لوگ اپنی عادات اور معمولات کو متاثرنہیں ہونے دیتے۔ عوام کے ساتھ اس قوم کے راہنما بھی کسی طورکم نہیں،جو سب کچھ بھول کر ہمیشہ اچھے کی اُمید رکھتے ہیں۔ اپنے دور اقتدار میں ،وسیع ترملکی مفادکے نام پر کئے گئے اقدامات اورمظالم تک بھول جاتے ہیں پھر اسی بھول کا شکار ہوکرمکافات ِ عمل کے گرداب میں آپھنستے ہیں۔

مگر اس سب کے باوجودبھی رب العزت کے سامنے جوابدہی اور قیامت کے خوف کی بجائے، اُنہیں عوام میں شہرت، مقبولیت اور پزیرائی کا پختہ یقین ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا معلومات، دلچسپ تبصروں اور رائے عامہ کا بہترین ذریعہء بنتا جارہا ہے۔اگرچہ ان میں زیادہ تر پوسٹس من گھڑت قصے ، بلاتصدیق اور ذاتی پسند و ناپسندپرمشتمل غیریقینی معلومات پرمبنی ہوتی ہیں اور اکثراوقات مخالفین کی اس حدتک کردار کشی اور تضحیک کی جاتی ہے ، کہ شرمساری کے سواکچھ حاصل نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

اِس سب کے باوجود سوشل میڈیا نے معاشرہ پر گہرے اثرات مرتب کرنا شروع کردیئے ہیں۔ سوشل میڈیا نے الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کو اس قدر متاثرکیا کہ اخبارات پر لگنے والی خبریں،ٹی وی پر دکھائے جانے والے ٹاک شوز اورمزاحیہ پروگرام ،سوشل میڈیا پرگردش کرتی اطلاعات ہی سے ترتیب دیئے جا رہے ہیں۔جس کے سبب ٹی وی اور اخبارات آہستہ آہستہ بے اثرجبکہ معاشرہ کو فعال کرنے میں سوشل میڈیاکا کردار اور اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔

مگر ابھی سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کے حوالہ سے بہت کچھ سیکھنا باقی ہے ، ذہنی پختگی ،تعمیری فکروسوچ اورانفرادی اصلاح تک، فوائد سے کہیں زیادہ نقصانات کا سامنا ہے۔لیکن کم ازکم اس کا یہ فائدہ ہوا کہ میڈیا پر صہیونی، امریکہ اور یورپی طاقتوں کے اثرات بتدریج زائل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
فیس بُک پر ہرطبقہ فکر اور مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے وابستہ افراد اپنے پسندیدہ راہنماوں سے والہانہ محبت کا اظہار اپنی پوسٹ کے ذریعہ ء کرتے ہیں۔

اس حدتک تو بات دُرست ہے۔ لیکن تکلیف دہ مرحلہ اُس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی شخص اپنے مخالف کی تصویربگاڑ کر، کسی جانور پراپنے مخالف کا چہرہ لگاکر یا ناپسندیدہ الفاظ لکھ کر نہ صرف پوسٹ کرتاہے بلکہ اکثر ایسی پوسٹس(مواد) فرینڈ لسٹ میں موجود بے شمارلوگوں کوبھی ٹیگ(منسلک) کردی جاتی ہیں۔ پھر اس پر تضاد یہ کہ ساتھ ہی رائے دینے کی بھی فرمائش کردی جاتی ہے، چاہے کسی کواپنی ٹائم لائین پرمطلوبہ پوسٹ ٹیگ کرناہی ناگوار گزرے، ٹیگ کرنے والے کی بلا سے۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے تک قوموں کی پہچان قوم کے لیڈر یا دُنیاکے مختلف ممالک میں تجارت یا ملازمت کرنے والے حضرات کی ایمانداری، محنت، اخلاص اور اپنے پیشہ کے ساتھ دلی وابستگی سے ہوتی، کہ اس ملک کے باشندے محنتی ، ایماندار اور نیک خصلت ہیں تو وہ ملک اور پوری قوم صالح ہوگی۔
آج انٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو سمیٹ کر گلوبل وولیج بنادیا ہے کہ ہرپل کی خبر لمحوں میں دُنیا کے مشرق ومغرب تک پھیل جاتی ہے۔

جب گلی محلہ اور ملک بھر میں چوری، ڈکیتی،قتل و غارت گری،اغوا برائے تاوان، عورتوں کی عصمت دری، معصوم بچوں اوربچیوں کے ساتھ کی گئی جنسی زیادتی جیسی خبریں ٹی وی پر نشر ہوتی ہیں اور ملک کے صدر ، وزیر ِاعظم ،مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں اور اپوزیشن راہنماسے متعلق مخالف مواد اور تصویریں جنہیں اکثر رودوبدل کے بعد انتہائی نازیبا بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے ، توسارے عالم پر متعلقہ ملک وقوم کی اصلیت آشکار ہوجاتی ہے۔

لہٰذاایسی صورت ِحال میں سفارت کارکو اپنی قوم کی نمائیندگی،قومی ترجیحات، ملکی پالیسیوں کی ترویج اوردیگر اقدامات سرانجام دینے کی قطعی ضرورت باقی نہیں رہتی۔لیکن کیا کیا جائے کہ ٹی وی چینل، اخبارات کی اپنی سوچ اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ آخر کار اُنہوں نے اپنا کاروبار چلانا ہے۔اسی طرح فیس بُک ودیگر سوشل ذرائع استعمال کرنے والے حضرات کی بھی اپنی سوچ اور فکر ہے اور سوچ پر پابندی ناممکن ہے۔


بات ہو رہی تھی پاکستانی حکمرانوں کی ،جنہیں عوام میں اپنی مقبولیت اور پزیرائی برقرار رہنے کا یقین ِ کامل ہوتاہے۔موجودہ دورمیں مقبولیت کاسروے اور جائزہ لینے کا بہترین ذریعہء فیس بُک کو کہاجاسکتا ہے۔ بعض مرتبہ بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوتی ہے،جب کوئی اپنے لیڈر کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لئے اُن صاحب کی تصویرکے ساتھ پیغام لکھ کر پوسٹ شیئر کرتا ہے اور حسب روایت اس پوسٹ پر کمنٹ دینے کی فرمائش بھی کردی جاتی ہے۔


پچھلے دِنوں ایک سابق حُکمران کی تصویر اُس کے پیغام"کیامیں آپ کی نظر میں غدارہوں" کے ساتھ شیئر کی گئی ۔ پوسٹ دیکھ کرآج سے کچھ عرصہ قبل کی ایک اور پوسٹ یاد آگئی ،جس میں حالات سے مجبور ہوکر اپناگھر چھوڑ کرراہ چلتے ضیعف العمر شخص سے ایک فوجی جوان پوچھتا ہے کہ بابا جی ہمارے بارے میں آپ کی کیارائے ہے ؟توبابا جی بے ساختہ جواب دیتے ہیں بیٹا آپ بہت اچھے ہیں، آپ میں سے کوئی مارا جائے تو وہ شہید ہے اور اُن میں سے کوئی مارا جائے تووہ بھی شہید۔

فوجی جوان حیرانگی سے پوچھتا ہے ،پھر قصوروار کون ہوا؟ باباجی نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں بیٹا جی! قصور وار، دہشت گرد اور جہنمی تو ہم عوام ہیں۔
بابا جی کے جواب کو سامنے رکھتے ہوئے ،سابق حکمران کے تصویری پیغام"کیامیں آپ کی نظر میں غدارہوں"پر کہا جاسکتاہے کہ پاکستان کے سابقہ اور موجودہ راہنما اور حکمران انتہائی ایماندار، ملک وقوم کے ساتھ مخلص، سچے پاکستانی اورمحب وطن ہیں۔

جس کا ثبوت پاکستان کے موجودہ حالات ہیں۔پورے ملک میں مکمل امن وامان ہے،چوری ، ڈکیتی ، بھتہ خوری سمیت کسی قسم کے جرائم کی خبر سُننے میں سالہاسال بیت جاتے ہیں۔یہ ہمارے حکمرانوں کے اخلاص اور حب الوطنی کا نتیجہ ہے کہ قیام ِ پاکستان کے اولین مقصد اِسلام کے نام پراسلام آبادبنایا، اس طرح قیام ِ پاکستان کے مقصدکی تکمیل کردی گئی۔اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ اُن کی عزت اور جان ومال بھی محفوظ ہے! پورے ملک میں فرقہ پرستی کا نام ونشان نہیں!اس ملک کے حکمران،سیاسی ومذہبی راہنما ہر طرف محبت کا پیغام پھیلانے میں مصروف ہیں۔

پورا ملک خوشحال ہے کہ حکمران اورعوام کشکول کا نام تک لیناگوارا نہیں کرتے۔مہنگائی پر مکمل کنٹرول ہے ۔عوام اورخواص کے معیار زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ خاندانی حکومت توخاندان ِ مغلیہ کے بعدسے ختم ہوگئی ۔تمام سیاستدان ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا حد درجہ احترام کرتے ہیں، بجز اُصولی اختلاف کے، ان کا آپس میں کوئی ذاتی اختلاف نہیں۔اس ملک کے سیاستدان جانتے ہیں کہ تما م شاہراہیں عوام کی آمدورفت اور سہولت کے لئے ہیں،لہٰذا افراتفری اورپہیہ جام کا توسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔

اس ملک کے سیاستدان وسیع ترملکی مفادمیں تمام اصولی اختلافات پراحتجاج کے لئے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے، پارلیمنٹ کے اندر بحث کے ذریعہء مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔یہ کبھی بھی آخری حدتک نہیں جاتے۔احتجاج یا لانگ مارچ کس شے کا نام ہے، ملک کے عوام اورسیاسی راہنمااس سے ناآشنا ہیں۔ ہمارے جوان ابھی تعلیمی اداروں سے فارغ نہیں ہوتے کہ اُنہیں ملازمت کاتقررنامہ امتحانات سے قبل مل جاتا ہے۔

پورے ملک میں کوئی شخص بے روزگار اور بے گھر نہیں۔پینے کا صاف پانی ، تعلیم ،صحت ، خالص ادویات ،بجلی، گیس، صاف ستھرا ماحول جیسی بنیادی سہولیات عوام کی دہلیز پرہیں۔ ہرحکمران کی زنجیرعدل کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کاہر شہری سکون کی نیندسوتاہے بلکہ دُنیا بھرکے انسان ہمارے دم سے ہی محفوظ اورسلامت ہیں!
تما م سرکاری ادارے عوام کی خدمت کے لئے دن رات کوشاں ہیں الیکشن کمیشن سے لیکرپولیس اور پٹوار تک تما م ادارے رشوت، سفارش ، اقربا پروری سے مکمل طور پر پاک ہیں۔

ہرجگہ میرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے۔خوشحالی اور اتفاق کی برکت سے آپس میں کوئی اختلاف اور جھگڑا نہیں،جس وجہ سے ملک کے تھانہ، کچہری،عدالتیں ویران ہیں۔ہمارے سیاستدانوں کی حب الوطنی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ جو پروجیکٹ اور منصوبے سوسال بعد شروع کرنے تھے ، ابھی سے سارے کے سارے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔کالاباغ ڈیم سمیت ہر دریا اور برساتی ندی نالوں پر ہزاروں کی تعداد میں ڈیم تعمیر ہونے کی وجہ سے بجلی کی پیدواراتنی زیادہ ہے کہ عوام کو بجلی کی مفت فراہمی کے ساتھ زراعت کے لئے بھی پانی وافر مقدار میں ہے۔

زرعی اجناس کے بیج اور ادویات کے دام نہ ہونے کے برابر ہیں۔یہی وجہ کہ ہرطبقہ اور پیشہ سے تعلق رکھنے والے عوام کی طرح کسان بھی جھولی پھیلا کر حکمرانوں کو دعائیں دیتے ہیں۔کسانوں کو فصلیں سمیٹنے کے لئے جگہ کم پڑجاتی ہے اور غذائی قلت کا تو سوال ہی پید انہیں ہوتا۔زراعت ، صنعت اور کاروباراپنے عروج پر ہیں۔ ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی کہ امریکہ جیسا ملک ہمارا محتاج اورمقروض ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہمارے دم سے آباد ہیں۔اگر پاکستان بیرون ممالک کی امداد بند کردے تو سب منہ کے بل آگریں۔
پاکستان کی اِس آئیڈیل صورت ِ حال کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا گیا، جس کی وجہ سے پاکستان کی ہر اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کی ۔ اس ملک میں کسی فوجی نے شب خون نہیں مارا ، مارشل لاء لگا،نہ ایمرجنسی اور نہ ہی کبھی پاکستان کے آئین کو معطل کرکے غداری جیسے مکروہ فعل کا ارتکاب کیا گیا۔

پاکستان کی دُنیا بھر میں نیک نامی اور خودمختاری کا سبب ہمارے موجودہ اورسابقہ محب ِوطن حکمران ہی تو ہیں۔ اس لئے"کیامیں آپ کی نظر میں غدارہوں" جیسے سوال کی قطعاََ ضرورت نہیں۔جناب والا !بیشک آپ محب ِ وطن ، سچے پاکستانی ہیں اوراسی اخلاص کی بنا پر چنددنوں میں ہمیشہ کے لئے برطانیہ منتقل ہونے کے بعدآپ حب الوطنی کے موضوع پر لیکچر دیتے نظر آئیں گے۔احسان فراموش ،ناشکرے اور غدار تو اُنیس کروڑ عوام ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :