آزادی مارچ سے سول نافرمانی تک

منگل 19 اگست 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

آزادی مارچ سے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان تک کا یہ سفرپاکستان تحریک انصاف کے لئے گلے کی ہڈی بنتا جا رہا ہے جو اگلی جائے نہ نگلی جائے۔چیئر مین صاحب کی زندگی کی اہم ترین تقریر سماعت فرما کر حاضرین و سامعین آٹھ آٹھ آنسو رو رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل لکھے ہوئے الفاظ دہرانے پر مجبور ہوں کہ خدا تعالی خان صاحب کو صحت و تندرستی عطا فرمائے کہ ابھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو مکمل بروئے کار لاتے ہوئے بہت انتشار اور انارکی پیدا کر نی ہے!!! جو کچھ یہ اب تک کرتے رہے وہ اپنی جگہ لیکن سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر کے انہوں نے باقاعدہ ثابت کر دیا ہے کہ سیاسی معاملہ فہمی اور دور اندیشی سے حضرت بلاشبہ بے بہرہ ہیں!وفاق اور صوبوں کے درمیاں پیچیدہ مالی معاملات اپنی جگہ پر کیا خان صاحب اور ان کے رتن اتنا بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کل محصولات کا قریباٌ75% بلا واسطہ محصولات کے زمرے میں اکھٹا کیا جاتا ہے جس کی ایک مثال سیلز ٹیکس ہے۔

(جاری ہے)

خان صاحب کے احکامات پر عمل در آمد کرنے کا مطلب ہے کہ لوگ ضروریاتِ زندگی مثلاٌ اشیائے خورد و نوش، طب میں مستعمل مریضوں کے استعمال کی اشیاء ، پیٹرول، ڈیزل، سی این جی وغیرہ کی خرید و فروخت ترک کر کے پتھر کے زمانے کی زندگی، بیماری اور فاقہ کشی اختیار کر لیں؟ کیا نابغہ روزگار حقیقی آزادی کابینہ یہ علم رکھتی ہے کہ پاکستان میں نوکری پیشہ افراد جو کہ 33,333 روپے ماہوارآمدنی رکھتے ہیں اپنی آمدنی پر بالواسطہ محصول سے استثنی ہیں۔

اس آمدنی سے اوپر کے افراد کو محصول کاٹ کر ادائیگی کرنا کمپنی کی ذمہ داری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس حکم کی تعمیل کے نتیجہ میں عوام الناس اپنی نوکریاں داؤ پر لگا دیں؟ کمپنیوں کے محصولات وصولی کے وقت خاص تناسب سے پیشگی کٹ جاتے ہیں۔ اب کاروباری حضرات اسی صورت میں سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں اگر وہ اپنی وصولیاں چھوڑ کر کاروبار بند کئے جانے پر اکتفا کر لیں۔

کاروبار سے منسلک ملازمین گھروں کو جا کر بیٹھ جائیں پھر انقلاب کھائیں اور حقیقی آزادی پیئیں؟کیا حضرت واقعی حقیقی آزادی کے داعی بیس تیس ہزار افراد کے مجمع کو پورا پاکستان گردانتے ہیں؟ میں ان کے لئے یہ حساب بھی آسان کر دیتا ہوں۔ بیس سے تیس ہزار افراد پاکستان کی کل آبادی کا 0.011% سے 0.016%بنتے ہیں۔ عشاریہ صفر دو فیصد سے بھی کم!!!آنکھیں اور دماغ کھول کر معاملات اور حقائق پر نظر ثانی فرمائیں۔

نظروں سے شیخ صاحب کی سیاست کا چشمہ اتار کر حالات کی درست سمت کا اندازہ لگانے اور منظر تسلیم کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ سیاسی رہنما کی طرح سوچ کے باد بان کھولیں! قائد اعظم کے ساتھ اپنی تصویر چپکا دینے سے کوئی قائداعظم نہیں بن جاتا! قائد اعظم انتہائی لچکدار سیاسی رویے کے حامل شخص تھے۔ سیاست فاسٹ باؤلر کی طرح کھیلیں گے تو حالات اسی رو منتج ہوں گے۔

ہایڈروجن اور آکسیجن ملا کر یہ خواہش رکھنا کہ سلفیورک ایسڈ تخلیق پا کر سامنے آجائے گا خارج الامکان حد تک حماقت پر مبنی سوچ کہی جا سکتی ہے!
اس حقیقت کو مان لیا جائے تو تحریکِ انصاف کے لئے فیصلہ سازی کا عمل کسی قدر آسان ہو جائے گا کہ 12 اگست 2014 رات 8 بجے کے بعد سے حکومت نے اپنی تمام غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے درست فیصلے لینے کا عمل شروع کر دیا تھا۔

چیئرمین صاحب کے پاس اپنا سیاسی قد کاٹھ اونچا کرنے کا سنہری موقع موجود تھاکہ سپریم کورٹ کے کمیشن کے قیام کے فیصلے کو اپنی جیت قرار دیتے ہوئے آزادی مارچ کو منسوخ کر دینے کا فیصلہ لیتے لیکن شاید ان کا مسئلہ کچھ اور ہی تھا جبکہ سیاسی طور پر پٹ چکے برجوں نے انقلابیوں کے غبارے میں ہوا کچھ زیادہ ہی بھر دی تھی۔سیاست زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے اور صحیح وقت پر سیاسی نفع حاصل کیا جاتا ہے۔

اب سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر کے اس کے مثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع رکھنا یوں ہی ہے جیسے سپریم کورٹ کے کمیشن کی تجویز کو رد کر کے منتخب وزیرِ اعظم سے ہر صورت پر امن احتجاج کے ذریعے استعفی لینے کا مطالبہ کرنا پھرنا مرادی حصہ میں آنے کے بعدغیر جمہوری اورپر تشدد رویے اختیار کرلینا ! سول نافرمانی کی تحریک میں عوام الناس کا بڑی تعدادا میں بلواسطہ تحریک انصاف کا ساتھ دینے کے امکانات حد درجہ معدوم ہیں تو ایسی صورتحال میں ایک اور ناکامی سے دوچار ہونے کے خدشہ کے پیش نظر صوبائی حکومتوں و اداروں کے مابین تعلقات خراب کرنا اور عوام کو بلا واسطہ اس سول نافرمانی میں شامل کر لینے کی کوشش کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ دوسری طرف یقینا یہ بات بھی حقیقی آزادی کی قیادت کو سمجھ آ چکی ہے کہ پر امن دھرنوں سے بنیادی طور پر غیر جمہوری مطالبات نہ تسلیم ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور نہ عوامی سطح پر پذیرائی میسر آئی ہے تو تصادم اور انارکی پیدا کر کے مطالبات میں شدت پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے!
تحریکِ انصاف کے انتخابی عمل سے جڑے بنیادی مطالبات 33 کمیٹی کے قیام اور سپریم کورٹ کے کمیشن کی تشکیل کی تجویز کے ساتھ ہی مانے جا چکے تھے لیکن حقیقی آزادی کے لبادے میں ڈھکا چھپا حقیقی ایجنڈا اسلام آباد میں عمران خان کی تقاریر میں اپنے آپ کو وزیر اعظم عمران خان پکارنے کے بعد عیاں ہو چکا۔

تحریکِ انصاف اس آزادی مارچ میں اب تک اخلاقی طور پر بہت کچھ ہار چکی ہے ! اب کچھ حاصل کرنے چکر میں عوام، اداروں اور صوبوں کے مابین تصادم کی صورتحال پیدا کرنا مناسب اقدام نہیں۔ حکومت جو مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دے رہی ہے اسی کو عافیت جان کر گلے میں پھنسی اس ہڈی سے جان چھڑا کر اپنے انتخابی عمل سے متعلق جائز مطالبات منوائیں اور گھروں کی راہ لیں۔ خیبر پختونخوا کی عوام مسائل میں گھری حکومت کی راہ تک رہی ہے! ان کا خیال کیجئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :