اسلام اور دور جدید کے شبہات و مغالطے

پیر 25 اگست 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

ویسے تو ہر دور میں دنیا میں روحانیت اور مادیت کی کشمکش جاری رہی ہے تاہم آج کی دنیا میں یہ کشمکش ایک انتہائی دل چسپ مر حلے میں داخل ہوچکی ہے۔ آج ایک جانب حضرت انسان کی مادی و جسمانی آسائشوں کے لیے ہر طرح کا سامان میسر ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کی خیرہ کن ترقی نے زمان و مکان کے بہت سے پیمانے تبدیل کر کے رکھ دیے ہیں تو دوسری جانب جدید ترقی یافتہ دنیا کی اس چکاچوند میں روحانی قدروں اور اخلاقی معیارات کی گم شدگی وکمیابی عالم انسانیت کے لیے ایک المیہ بن چکی ہے۔

کیونکہ بقول زکی کیفی مرحوم
جس قدر تسخیر خور شید قمر ہوتی گئی
زندگی تاریک سے تاریک تر ہوتی گئی
چنانچہ آج ہر سلیم الفطرت انسان کا ضمیر روحانیت کی روشنی کا متلاشی ہے۔ اس وقت دنیا میں جتنے بھی دیگر مذاہب اور مکاتب فکر ہیں، ان کے پاس کوئی ایسا روحانی نظام اور پیغام نہیں ہے جو آج کے انتہائی ترقی یافتہ ذہن کو موٴثر انداز میں اپیل کر سکے۔

(جاری ہے)

اسلام وہ واحد دین ہے جو آج کے اس دور میں بھی اپنی بے پناہ روحانی قوت و تاثیر کا شاندار مظاہرہ کر رہا ہے۔ یورپ اور مغرب کے ترقی وعروج کے اوج کمال پر پہنچے ہوئے معاشروں میں بہت سے لوگ آزادی، بے باکی، عیاشی اور فحاشی کی تمام حدود کوپار کرنے کے بعد روحانی سکون کی تلاش میں مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں، ان میں سے بہت سے خوش قسمت افراداسلام کے دامن رحمت میں پناہ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کو ابھی درست رہنمائی اور تبلیغ و تفہیم کی ضرورت ہے۔

آج کی ضروریات، ذہن، زبان اور ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کی درست ترجمانی اور مستند و معتدل تعبیر و تشریح پر مبنی لٹریچر کی دنیا کی ہر زبان اور ہر خطے میں فراہمی کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی نہ رہی ہو۔
آج کے انسان کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اسلام رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتا، اسلام قبول کرنے یا اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کا مطلب دنیا کی مادی نعمتوں سے محرومی یا انسانی سو سائٹی سے الگ تھلگ کسی گوشے میں جاکر رہنا نہیں ہے۔

ایک اچھا مسلمان معاشرے کا ایک مفید، کار آمد اور متحرک فرد ہوتا ہے اور اسلام کا رنگ چڑھنے کے بعدانسان زندگی کو زیادہ بامقصد انداز میں انجوائے کر سکتا ہے۔ اسلام پر عمل کرنے سے انسان کی د نیا ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اور خوبصورت ہوجاتی ہے اور مادی و روحانی زندگی میں توازن رکھ کر انسان ایک بھر پور زندگی گزار سکتا ہے۔ آج کے انسان بالخصوص نوجوان نسل کو مذہب، عقائد، معاملات، معاشرت اور ذاتی و اجتماعی حیات سے متعلق بہت سی الجھنیں، سوالات اور اشکالات درپیش ہیں۔

اسلام میں ہر سوال کا جواب اور ہر الجھن کا حل موجود ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حل کو ذہنوں کے قریب لاکر پیش کرنے کے لیے کام کیا جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں کام تو ہورہا ہے مگر شاید اس کی رفتار اور معیار وہ نہیں ہے جو وقت کا تقاضا ہے۔ ہمارے مخصوص ماحول اور تاریخی پس منظر میں مختلف فرقہ وارانہ اور مسلکی موضوعات پر داد تحقیق دینے میں جتنی توانائیاں صرف ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں، اگر اتنی توانائیاں اسلام کی اخلاقی، روحانی، معاشرتی اور معاشی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت میں صرف ہوتیں تو شاید آج ہمارے معاشرے کا مقام کچھ اور ہوتا۔

بر صغیر میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات کو سب سے زیادہ عوامی پذیرائی اسی لیے ملی کہ انہوں نے کسی معاصر فرقے، گروہ، یا شخص کو ہدف بنائے بغیر معاشرے کی حقیقی ضروریات کو سامنے رکھ کر کام کیا۔ آج بھی ایک دنیا ان کے علوم اور کتابوں سے استفادہ کر رہی ہے۔
ہمارے آج کے دور میں جن علماء کرام کی علمی خدمات کو عالمی سطح پر شرف قبول حاصل ہوا، ان میں شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا نام سب سے نمایاں ہے۔

مولانا کی کتابوں اور علمی خدمات سے آج کا کوئی صاحب علم مستغنی نہیں ہوسکتا۔ مستقبل کا مورخ آج کے علمی دور کو یقینا مولانا تقی عثمانی جیسے چند علماء سے منسوب کر کے لکھے گا۔ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ اور معیشت سمیت کوئی ایسا اہم علمی شعبہ نہیں ہے جہاں مولانا کی کوئی شاہکار کاوش موجود نہ ہو۔ اردو، عربی اور انگریزی تینوں بڑی زبانوں میں مولانا کی بیسیوں گرانقدر تصنیفات موجود ہیں۔

ہم نے جب علمی دنیا میں اپنا سفر شروع کیا تو سب سے پہلے مولانا کا شاندار سفرنامہ ”جہان دیدہ“ ہمارا”ہم سفر“ بنا، تھوڑا سا آگے بڑھے تو”فقہی مقالات“، ”اسلام اور جدید معیشت و تجارت“ اور ” علوم القرآن“ نے اپنی طرف کھینچا اور جب دورہٴ حدیث میں پہنچے تو صحیح مسلم شریف کے مسائل مباحث کے حل کے لیے ”تکملہ فتح الملہم“ اٹھانے پر مجبور ہوئے۔

اب کہیں بیان کرنا یا جمعہ پڑھانا ہوتا ہے تو نگاہ سب سے پہلے”اصلاحی خطبات“ کی طرف ہی اٹھتی ہے۔
مولانا محمد تقی عثمانی کی تحریر اور فکر کی سب سے بڑی خوبی ان کا وہ سلیس اور عام فہم انداز ہے جو وہ مشکل سے مشکل مسائل اور پیچیدہ مباحث کو حل کرنے میں اختیار کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں کی مقبولیت کی بڑی وجہ فکری پختگی اور علمی رسوخ کے علاوہ اعتدال اور احتیاط کا وہ امتزاج بھی ہے جو مولانا کے مزاج، تربیت اور مشرب کا حصہ ہے۔

مولانا آج کے ذہن اور ماحول کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں، قدیم اور جدید دونوں علوم پر دسترس رکھنے کی وجہ سے جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے ان کی تفہیم بہت آسان ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا” آسان ترجمہ قرآن“ بہت مقبول ہوا ہے۔ مولانا کی تصنیفات علماء و عوام دونوں میں یکساں مقبول ہیں اور گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ایک سروے رپورٹ میں مولانا کی شمار عالم اسلام کی ممتاز اور با اثر ترین شخصیات میں کیا گیا۔


مولانا کی تمام تصنیفات سے مکمل استفادہ تو تمام کتابوں کے مطالعے سے ہی ممکن ہے تاہم ظاہر ہے کہ ہر کسی کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔ اس مشکل کو دور کرنے کے لیے ہمارے فاضل دوست مولانا محمد عمر انور بدخشانی استاذ جامعة العلوم اسلامیہ بنوری ٹاون نے ایک اہم کام یہ کیا ہے کہ مولانا محمد تقی عثمانی کی متعدد تصنیفات سے ان منتخب مسائل، مباحث اور نکات کو، جن کا تعلق آج کے دور کے مخصوص مسائل، فکری الجھنوں، اعتراضات اور عملی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کے حل سے ہے، جمع کر کے سلیقے سے مختلف ابواب میں مرتب کر کے” اسلام اور دور حاضر کے شبھات و مغالطے “کے نام سے پیش کیا ہے۔

اس کتاب میں ایمان و عقیدے، قرآن و حدیث، انسانی حقوق کے جدید تصورات، اجتہاد و تقلید، تصوف و تزکیہ، عملیات و تعویذات، خواب و تعبیر، حجاب و پردہ، نکاح، شادی، طلاق، لباس، امانت وخیانت، سیاست، اسلامی تحریکات، معیشت و تجارت جیسے درجنوں موضوعات پر عام طور پر پوچھے جانے سوالات، فکری الجھنوں اور بعض مغالطوں کے جوابات اور حل آسان اور دل نشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اہل علم اور عوام دونوں کے لیے ایک لاجواب تحفہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :