پیالی میں طوفان برپا ہے

جمعہ 29 اگست 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

اردو گرائمر کی رو سے اسلام آباد میں جاری انقلاب یا احتجاج یا کنسرٹ ’مشبہ‘ ہے جبکہ چائے کی پیالی میں طوفان برپا ہے ’مشبہ بہ‘ ہے!!! بعد آٹھ بجے انقلاب کنٹینر کے سامنے شدت اختیار کرتا ہے اور گالم گلوچ، الزامات کی بوچھاڑ، دھوم دھڑکے، بڑھکیں اور ناچ گانے کے بعد گاڑیوں کی چھتوں پر چڑھی اشرافیہ کے ساتھ رخصتی لے لیتا ہے۔

پھر گل رنگ سویرے چیئر مین صاحب شبِ گزشتہ اپنی شعلہ بیانی بارے کبھی زبانی کبھی لکھ کر وضاحتیں بیان کرتے ہیں۔ کوئی ہے جو اس مردِ آہن کی گفتار کے تیروں سے بچ پایا ہو!
انقلاب کی بنیاد انتخابی اصلاحات تھیں ! وہ انتخابی اصلاحات جو تحریکِ انصاف کے چیئر مین کے مطالبات کی فہرست میں یقینا اب پہلے نمبر پر نہیں ہیں۔ پہلے نمبر پر ہے وزیر اعظم کا استعفی چاہے وہ مضحکہ خیز حد تک 30 دن پر محیط ہی کیوں نہ ہو جبکہ دلیل بھی کمزور ہے۔

(جاری ہے)

اگر وزیر اعظم اپنے عہدے پر موجود رہنے کے باعث کمیشن کے کام پر اثرانداز ہوسکتا ہے تو استعفی کی صورت میں بہر حال وزیر اعظم تو ن لیگ کا ہی رہے گا۔ نواز شریف بدستور جماعت کے کرتا دھرتا رہیں گے ۔ ن لیگ حکومت میں بھی موجود رہے گی تو اس صورت میں کیا کمیشن پر اثرانداز نہیں ہوا جا سکے گا؟ وزیر اعظم کے فوری استعفی کے منطقی طور پرلاغر سے مطالبے پر پھنس کر بیٹھ جانادانش مندانہ فیصلہ ہر گز نہیں ہے۔

ایسے کسی مطالبہ پر عقل و شعور سے زیادہ ضد کا گماں گزرتا ہے۔گلے کی اس ہڈی سے جان چھڑانا اور باعزت واپسی کا راستہ احتیار کرنا بلاشبہ تمام فریقین کے لئے وقت کی اہم ترین ضرورت بنتا جا رہا ہے۔یہی مناسب وقت ہے کہ اپنے قومی اداروں پر اعتمادظاہر کیا جائے اور معاملات عدلیہ کے کمیشن کے ہاتھ میں سونپ کر انارکی و انتشار کی صورتحال پیدا کرنے سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔

وزیر اعظم کی جانب سے عدالتی کمیشن کے ذریعے انتخابات کی انکوائری اور تمام دیگر مطالبات ماننے کے ساتھ ساتھ دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں وزیر اعظم کے مستعفی ہونے پر رضامندی جو کہ انتہائی معقول بات ہے کو تحریکِ انصاف اپنی جیت کے طور پر ابھار سکتی تھی اور اب بھی ابھار سکتی ہے لیکن فیصلہ بہر طور چیئرمین صاحب کی صوابدید ہے۔
دوسری جانب اس حقیقت سے انکار کرنا مناسب نہیں کہ حالات خراب کرنا مقصود ہوں ، انتشار و انارکی پھیلانا خواہش ہو تو چند قابل افراد ہی بہت کافی ہوتے ہیں۔

تحریکِ انصاف زمینی حقائق سے دور کھڑی جماعت دکھائی دے رہی ہے۔ فی الوقت خان صاحب کی مثال اس مچھلی کی سی ہے جو شیشے کے مرتبان میں رہتی ہے اور اسی مرتبان اور ارد گرد کے ماحول کو آخری حقیقت جانتی ہے۔خان صاحب کنٹینر میں بیٹھ کر ٹی وی چینلوں پر برپا ہیجان دیکھ دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ شاید واقعتا پاکستان میں چہار جانب انقلاب آ رہا ہے، سول نافرمانی کی تحریک زوروں پر ہے، عوام حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کر رہی، لوگ اپنے بجلی کے بل پھاڑ پھاڑ کر نذرِ آتش کیے دے رہے ہیں، اٹھارہ کروڑ عوام خان صاحب کا نام جپ رہی ہے تو حقیقتاٌ ایسی کوئی صورتحال موجود نہیں ہے۔

اپنے مرتبان سے باہر آ کر حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے معاملات کو نمٹا کر فراغت حاصل کریں۔
چند حقائق پیش خدمت ہیں کہ ہر ایک فون کال، ایس ایم ایس اور اشیائے خورد و نوش کے استعمال کے ساتھ چیئرمین صاحب بذاتِ خود سیلز ٹیکس دن میں بیسوں بار ادا کرتے ہیں۔تحریکِ انصاف اس سارے معاملے میں مخالفین کی قوت کا اندازہ کرنے میں شدید غلطی کر چکی ہے ۔

غلطی در غلطی یہ کہ حکومت اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے صبر و تحمل اور مفاہمت کے رویے کو کمزوری جان کر ممکنہ ردِ عمل کے امکانات کو نظرانداز کیا گیا۔ ان دھرنوں کے نتیجے میں معیشت پر پڑنے والے اثرات پر کوئی غور و فکر نہیں کیا جا رہا۔ اب جبکہ ڈالر کی قدر میں 14 اگست سے لے کر اب تک 4سے 4.5 روپے فی ڈالر تک کا اضافہ ہو چکا ہے تو تاجر برادری مزید نالاں دکھائی دینے لگی ہے۔

سپریم کورٹ کا دھرنے کی جگہ بدلنے کا فیصلہ آ چکا ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ریلیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔حکومت کی جانب سے سڑیٹ پاور کے دو انتہائی کامیاب شو فیصل آباد اور لاہور میں منعقد کیے جا چکے ہیں۔ تحریکِ انصاف کا یہ طرزِ سیاست ان فرقہ پرست جماعتوں کے لئے مشعلِ راہ ہے جن کو انتخابات میں ووٹ ملنے اور پارلیمان میں پہنچنے کی امید انتہائی کم ہوتی ہے۔

خدا نہ کرے کل کسی اور جماعت کے ذہن میں بھی یہی فتور گھر کر لے! مزید براں جمہوریت کے حق میں کوئی اور مارچ کل اسلام آباد کا رخ کر لے تو پھر کیا صورتحال پیداہو گی؟
اب تک امپائر کے لیے انگلی کھڑی کرنے کا جواز پیدا نہیں ہوا۔ جواز تب تک پیدا نہیں ہو گا جب تک حالات تصادم اور قتل و غارت گری کی طرف نہ دھکیلے جائیں۔ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے حالیہ رویے اور کفن و شہادت کی تقاریر دیکھ و سن کر کیا یہ سوچنا جائز معلوم ہوتا ہے کہ امپائر کے لئے انگلی کھڑی کرنے کے جواز پیدا کرنے کی خاطر حالات سازگار کیے جا رہے ہیں!!لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ حالات امپائر کے لئے ہی سازگار ہوں!عمل کا ردِ عمل ہو گا۔

سیاسی حریف آمنے سامنے ہوں گے۔ ادارے فریق بنیں گے۔ مذہبی فرقہ واریت کا عنصر اپنا رنگ پکڑے گا۔سیاسی نظام کے مخالف مذہبی سیاسی صفوں میں پہلے ہی سے موجود ہیں اور ایسی قوتوں کے لئے خانہ جنگی کا ماحول اپنا ایجنڈا بزورِ بازو نافذ کرنے کا موقع نادر ہوتا ہے۔ معیشت بیٹھے گی۔شام،مصر اور عراق کی امثال سب کے سامنے ہے۔ تب بات نہ کسی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں رہے گی اور نہ کسی امپائر کے!بھگتے گی محض عوام ۔طوفان کہیں اتنا نہ بڑھ جائے کہ چائے کی پیالی ہی الٹ جائے!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :