نیا پاکستان ۔۔کیسا ہوگا

منگل 2 ستمبر 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

بالآخر وہ ہو ہی گیا جس کاخطرہ کئی ہفتوں سے منڈلا رہا تھا یعنی کہ حکومتی تشدد اور طاقت کا استعمال، جس کے نتیجے میں مختلف ذرائع کے مطابق 13انقلابی مرد وخواتین ہلاک ہوئے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔اس تشدد سے پہلے بھی عجب واقعات رونما ہوئے جس سے عوامی اور حکومتی مزاج کا پتہ چلتا ہے۔چونکہ سب کچھ اسلام آباد میں ہوریا تھا اس لئے وہیں کی پولیس کا کام تھا کہ وہ کاروائی کرتی لیکن پولیس کے اعلیٰ عہدیدار کو تبدیل کر دیا گیا کہ وہ حکومت کے عزائم کی تکمیل نہیں چاہتے تھے اس کے لئے پنجاب کی پولیس بلائی گئی جو تشدداور دیگر کاروائیوں میں بہت بدنام شہرت حاصل کرچکی ہے،سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بھی پولیس کے مخصوص گروپ کو استعمال کیا گیا تھا جس کا تشدد نازیوں کے دور کی یاد دلاتا ہے،یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں احمدیوں کی عبادت گاہوں سے کلمہ طیبہ پاک کو اکھاڑنے اور مٹانے کے لئے بھی پولیس کا ایسا ہی مخصوص گروپ استعمال ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ان کی ٹریننگ کا اندازہ اس امر سے لگالیں کہ اس پولیس نے صحافیوں کی بھی تمیز نہ رکھی اور ان کی بھی دھنائی کردی۔جو ان کے سامنے آیا اس کو تن کے رکھ دیا۔پوری دنیا میں براہ راست اس پرتشدد کاروائی کا دکھا یا گیا جو غلط طریق ہے۔لیکن اس واقعہ سے حکومتی ساکھ متاثر ہوئی ہے جی ایچ کیو میں ہنگامی اجلاس میں حکومت کو واضع پیغام دیا گیا کہ وہ مزید تشدد سے باز رہے۔

پرائم منسٹر ہاؤس پر یلغار بھی دانشمندانہ فیصلہ نہیں تھا۔یہ کوئی تلواروں اور نیزوں کی لڑائی کا زمانہ نہیں کہ آپ قلعہ کو فتح کرلیں تو حکومت اور ریاست پر قبضہ ہو جائے گا۔دونوں طرفین سے سیاسی راستہ تلاش کرنے کی کوششیں بہت ہوئیں
آخری امید کے طور پر آرمی چیف کے ساتھ بھی مذاکرات ہوئے جن کو پرائم منسٹر نے قوم اسمبلی کے اندر اپنے خطاب میں داغدار کردیا۔

اوربعد ازاں آرمی کی طرف سے فوری وضاحت کے بعد پوری قوم حیرت میں ڈوبی ہوئی سوچ رہی ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔عمران خان کے مطالبات اور طاہرلقادری کے الزامات دونوں ہی نہ صرف سنگین نوعیت کے ہیں بلکہ توجہ طلب بھی ہیں۔عمران خان انصاف کے حصول اور طاہرلقادری انصاف کے ساتھ ساتھ کرپٹ ،بدکردار اور ظالم نظام کے خلاف اپنی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اس بات اور حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس وقت پاکستان میں حقیقت میں ایسی ہی صورتحال موجود ہے۔

انصاف کا حصول ایک خواب کی مانند ہے اور اس کے لئے ایک لمبی عمر اور قارون کا خزانہ درکار ہے۔اور بدکردار اور ظالم نظام کی مثالیں تو سانحہ ماڈل ٹاؤن اور وزیراعظم کے جھوٹ کی شکل میں سامنے موجود ہیں۔اب تک کی صورت حال سے واضع نہیں ہورہا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور کب۔لیکن تاریخ پاکستان ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں سب کچھ عوامی مفادات کے لئے کبھی کچھ نہیں ہوتا لیکن عوام کو استعمال ضرور کیا جاتا ہے،ان کے جذبات اور ان کی عقیدت کو حصول اقتدار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں سب کچھ بھول جانا ہی ملکی سیاست ہے
جہاں تک تعلق ہے نئے پاکستان اور انقلاب کا،تو یہ بات صد فیصد درست ہے کہ دونوں باتیں آج کی عام آدمی کا خواب ہیں اور ضرورت بھی۔لیکن اس کاحصول اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔نئے پاکستان کا مطلب سب کچھ نیا ہے۔نئی بنیادیں اور بانی قائداعظم کا تصور۔نئی جدید روشن خیال پارلیمنٹ،نئی عدالتیں اور غیرمسلم ججز کے ساتھ ۔

نیا تعلیمی نظام جس میں نفرت کی بجائے محبت،انسان دوستی،رواداری اور عدل ومساوات کا درس ملتا ہو۔عمران خان کو نئے پاکستان کے حصول کے لئے ریاست کے تصور کو سمجھنا ہوگا۔جمہوریت کے معنی سمجھنے ہونگے۔اسلام کو ریاستی نہیں ہر ایک کا انفرادی بنانا ہوگا جیسا کہ دنیا کی جدید اور ترقی یافتہ اقوام میں کروڑوں مسلمان نے اپنایا ہوا ہے۔پاکستان کو آج اس جس مقام پر جن جن باتوں اور حرکتوں نے پہنچایا ہے ان سب سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرنا ہوگی۔

المیہ یہ ہے کہ خود ان تمام سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے جو جمہوریت کا ڈھونڈ رچائے ہوئے ہیں۔ان میں سب سے بڑی لعنت شخصی نظام ہے جو سیاسی جماعتوں کے اندر موجود ہے،خاندانی نظام کی آجارہ داری کے خاتمہ کے بغیر جمہوریت کا خواب شرمندہ تعمیر نہیں ہوسکتا۔اس کے ساتھ ساتھ مذہب کو سیاست سے بھی الگ کرنا ہوگا۔ریاست اور مذہب دونوں الگ الگ ہیں۔

دونوں کو نصف صدی سے ساتھ ملاکر جو کچھ بویا تھا وہی اب تک کاٹا جارہا ہے لیکن وہ فصل اتنی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی۔اس بات سے واضع ہوچکا ہے کہ اب تک مذہب اور ریاست کے ملاپ سے خون خرابہ اور فساد ہی ہوا ہے۔امن اور رزق دونوں ختم ہوئے۔عمران خان اپنے صوبے سے ٓگاز کریں کہ نیا پاکستان ایسا ہوگا۔
جمہوریت کے خدوخال میں مساوات،رواداری،عدل و انصاف،مساوی حقوق قابل ذکر ہیں۔

اور قانون کی نظر میں مسلم وغیرمسلم دونوں مساوی ہوتے ہیں۔ایک حقیقی اور جمہوری ملک میں صدر،وزیراعظم،آرمی چیف سمیت کسی بھی اعلیٰ سرکاری عہدے کے لئے مسلمان یا عیسائی ہونا لازمی نہیں ہوتا بلکہ اہلیت و قابلیت ہی بنیاد ہوتی ہے۔کیا نئے پاکستان میں ایسا سب ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی غیر مسلمان صدر پاکستان یا وزیراعظم بن سکے۔کیا کسی مزدور یا اخبار بیچنے والے کا بیٹا وزیراعظم بن سکتا ہے جیسا کہ انگلستان میں ہوتا ہے سیاسی جماعت کا عام کارکن جو اہلیت میں نمایاں ہو وہ اعلیٰ سیاسی عہدے پر فائز ہوسکے گا۔

اتنا وصف کون اور کیسے پیدا ہوگا۔کیا عدالتیں عام آدمی کو فوری انصاف دے سکیں گی۔پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدور کو اس کی مزدوری مل جانی ممکن ہوگا۔کیا کسی بیروزگار اہل کو بغیر سفارش میرٹ پر نوکری ملنی ممکن ہوسکی گی۔عورت کو گھر کے باہر تحفظ مل سکے گا۔ تعلیمی ادارے میں ایک ہی سیٹ پر مختلف مذاہب کے طالبعلموں کا مل کر ایک ہی مساوی علم ممکن ہوگا۔

یہ سب کچھ ممکن ہے اور دنیا کے ممالک میں مثالیں موجود ہیں اور ان کے حصول کاآغاز ان کے آئین سے ہوتا ہے جس میں مساوات،عدل انصاف،اور مساوی حقوق کو بنیادی اہمیت ملی ہوتی ہے۔ترقی یافتہ اقوام کے آئین میں امتیازی قوانین کے بجائے وہاں مذہب سے بالا صرف اہلیت کو فوقیت دی جاتی ہے برطانیہ میں عام مسلمان کلیدی عہدوں پر پہنچے ہیں کہ وہاں نظام شفاف ہے۔پاکستان کے موجودہ آئین میں یہ ممکن نہیں۔تو کیا نیا پاکستان نئے آئین کے ساتھ معرض وجود میں آئے گا جس کے لئے آج کل اسلام آباد میں جدوجہد ہورہی ہے یا کہ پھر عوام کو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :