لمحہ ِ فکریہ

جمعرات 4 ستمبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

آج کل پاکستان کا آئین تختہ ِ دار پر ہے اور جناب حسن نثار نے اپنے حالیہ کالم کو ” آئین کا آئینہ “ عنوان دے کر اپنے عنوان ہی میں سب کچھ کہہ دیا ہے۔گویا قوزے میں سمندر بند کر دیا ہے۔لیکن نابینا شہر میں آئینے کا کیا کام ؟ جناب اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا۔الیکشن میں دھاندلی کے بارے میں عمران خان کی شکایات درست ہیں۔

دھاندلی ہوئی ہے اور بڑی سنگین دھاندلی ہوئی ہے۔جناب اعتزاز احسن نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کی کرپشن کے بارے میں شکا یات میں بھی صداقت ہے۔چند دن پہلے وہ کسی ٹی۔وی پر بھی کہہ رہے تھے کہ میں نواز شریف کا حمائتی نہیں ہوں،میں اُن کی کرپشن کے تین چار کیس عدات لے جا چکا ہوا ہوں۔لیکن دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ میں آئین ِ پاکستان اور جمہوریت کے ساتھ ہوں۔

(جاری ہے)

“جاوید ہاشمی بھی پارلیمنٹ میں آئے اور اُنہوں نے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے سے پہلے پارلیمنٹ سے خطا ب بھی کیا۔”عمران خان کو کٹہرے میں کھڑا نہ کریں۔وہ جو کچھ کہتے ہیں۔ٹھیک کہتے ہیں۔میاں صاحب ۳۱سال سے حکومت میں ہیں۔انہوں نے ایک عام آدمی کے لئے کچھ نہیں کیا۔عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔“ یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی شرمناک دھاندلی کا ذکر کیا۔

اس دوران میاں محمد نواز شریف گُم صُم بیٹھے رہے۔اُن کے چہرے کے تاثرات سے ایسے لگ رہا تھا۔جیسے دل دہی دل میں اپنی کرپشن اور بے جا ضد کہ مستعفی نہیں ہوں گا،پر شرمند ہ ہو ہو رہے ہوں۔ نارمل حالات ہوتے تو شاید وہ مستعفی ہو بھی جاتے۔لیکن اپنے اور اپنے چھوٹے بھائی کے خلا ف ۱۴ بندوں کے قتل کی ایف۔ آئی۔آر کٹنے کے بعد وہ مستعفی کیسے ہو سکتے ہیں ؟
اِِس سارے معاملے کا باعث ِ تشویش پہلو یہ ہے کہ آج الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کو ۲۳ دن ہو گئے ہیں۔

میاں نواز شریف کو پاکستان کی حالت پر رحم کیوں نہیں آ رہا ؟ وہ اتنی شرمناک دھاندلی کے بعد کس بل بوتے پر کہتے ہیں کہ میں مستعفی نہیں ہوں گا؟ کل ایک سنیئر کالم نگار ہارون الرشید کے کالم میں یہ پڑھ کر کہ ”این۔آر۔او “ کی شک نمبر ۱۷ میں واضح انداز میں لکھا ہے کہ پاکستان کسی تعصب کے بغیر بھارت اور افغانستان کے ساتھ اچھے مراسم برقرار رکھے گا۔

”تعصب“ سے مراد یہ ہے کہ وہ کچھ بھی کر گزریں۔ پاکستان ایک مسکین کا طرز عمل اختیار رکھے گا۔“ سڑک پر جاتے ہوئے کسی بھی پاکستانی سے پوچھ لیں۔اس کا جواب ایک ہی ہو گا۔سوبار لعنت ہے ایسے احکامات دینے اور ہزار بار لعنت ہے سننے والوں پر۔
میں سوچتا ہوں حالات کو افراتفری کی موجودہ ڈگر پر منجمد کر دینے کے پیچھے کسی بیرونی سازش کا ہاتھ تو نہیں ہے ؟ اب تو ایم۔

کیو۔ایم نے بھی اپنے لوگوں کو پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا حکم دے دیا ہئے۔ایک بات طے ہے کہ میاں محمد نواز شریف مستعفی نہیں ہوں گے۔اِس لئے نہیں کہ وہ مستعفی نہ ہونے کی ضد پر حق بجانب ہیں۔اِس لئے کہ وہ پاکستان میں امریکی مفادات کے سفیر ہیں اور میاں صاحب کے مُنہ میں جو آئیے ، کہہ لینے کے با وجود فوج پر ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے کے لئے بھی امریکہ ہی کا دباوٴ ہے۔

یاد رہے ”این۔آر۔او “ پر میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو (مرحومہ) اور جنرل پرویز شرف کے دستخظ ہیں۔یہ ہیں ہمارے وہ لیڈر، جن کے لئے ہم کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
عمران خان کی حب الوطنی پر میرا ایمان اتنا ہی پختہ ہے جتنا اِس بات پر کہ اللہ ایک اور حضور ﷺ اُس کے آ خری نبی ہیں۔ لیکن اب عمران خان کی حب الوطنی پر بھی میرا ایمان ڈگمگانے لگا ہے۔

وہ خود تو کسی بیرونی سازش کا حصہ نہیں بن سکتے۔لیکن ایسے لگتا ہے جیسے و ہ کسی کے ہاتھو ںUseہو رہے ہوں۔ورنہ وہ اس بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے کہ نقصان کس کا ہو رہا ہے ؟ نواز شریف کا نہیں ، پاکستان کا ہو رہا ہے۔ آ خر وہ یہ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ یہ جھگڑا صرف مذاکرات سے یا پھر سختی سے سمیٹا جا سکتا ہے اور فوج سختی کرنے کی اجازت دے رہی ہے اور نہ ہی مذاکرات میں ضامن بن کر اِس معاملے کو ختم کر نے کے لئے کچھ کر رہی ہے۔

آ خر فوج کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ؟ اور پاکستان دن بدن کمزور ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان کی سالمیت کے ساتھ کوئی ہاتھ ہو گیا تو جہاں میاں محمد نواز شریف کو قابل معاف نہیں سمجھا جائے گا۔”قابل معاف نہیں سمجھا جائے گا“ تواُن کے لئے بہت چھوٹا لفظ ہے۔وہاں عمران خان اور طاہر القادری کو بھی معاف نہیں کیا جائیگا ۔ظالمو ! اپنے ارد گرد دیکھو !کچھ سوچو کچھ سمجھو کل تمہارے پچھتاوے،ہم جو کچھ کھو چکے ہوں گے، اس کا مداوا نہیں کر سکیں گے۔


مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں۔نواز شریف مستعفی ہونے کا حق کھو چکے ہیں۔اس لئے کہ معزز پارلیمنٹ نے اُن کے مستعفی نہ ہونے کی قرار داد پاس کر دی ہے۔ سبحان اللہ ! یہ لوگ دھاندلی کو بھی مانتے ہیں اور دھاندلی کی کوکھ سے جنم لینے والی پارلیمنٹ کو بھی مانتے ہیں۔میرا ایمان ہے کہ میاں نواز شریف نے مولانا کو جو چند وزار تیں دے رکھی ہیں، اگر وہ واپس لے لی جا جائیں تو پھر دنیا اِن ہی مولانا صاحب کو اپنے اس بیان سے منکر ہوتے بھی دیکھے گی، جو لوگ مولانا کی سیا ست جانتے اور سمجھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں۔” مولانا صاحب ! جب بھی ٹی۔وی سکرین پر ابھرتے ہیں تو سکرین پر ان کی جسامت کے ڈھیر سے بھی بڑا ڈھیر اُن کی کہہ مکرنیوں کا، اُن کی سیاسی عیاریوں و مکاریوں کا لگ جاتا ہے۔
میرے عمران خان کو پسند کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ایجنڈے پر تعلیمی فروغ سر فہرست ہے۔ خدا را ،کوئی ہے ، جو میرے وطن میں تعلیم عام کر دے ، مغربی ممالک کی طرح کم از کم اٹھارہ سال کی عمر تک تعلیم لازمی قرار دے دی جائے تا کہ لوگ اپنے دین کے بارے میں کم از کم اتنا تو سمجھ سکیں کہ اسلا م میں داڑھی ہے، داڑھی میں اسلام نہیں ہے۔

عزت داڑھی یا مرتبوں میں نہیں، انسان کے کردار سے ہوتی ہے۔میرا مولانا فضل الرحمن سے ایک سوال ہے۔ وہ گزشتہ کئی سال سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مراعات سمیٹ رہے ہیں۔ سنا ہے ایک بہت بڑی رقم تو وہ اپنی سکیورٹی ہی کے نام پر اینٹھ لیتے ہیں ۔ اب جب کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ بیان دیا ہے کہ نواز شریف نے مجھ سے کشمیر پر بات نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

جنر ل حمید گل صاحب ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام میں کہہ رہے تھے۔” نواز شریف کو کشمیر کے مطا لبے سے دست بردار ہونے کا مینڈیٹ کس نے دیا ہے ؟مولانا کیا آپ نے کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے میاں نواز شر یف کے دربار میں اپنا کوئی احتجاج ریکارڈ کرایا ہے ؟ لیکن آپ کیوں کرائیں گے ؟ ایسی باتیں صاحب کردار لوگ کرتے ہیں ۔ مرعاتیں سمیٹنے والے سیاست دان نہیں کرتے۔

وہ تو صرف اپنی قیمت وصول کرتے ہیں۔
میں نے ۷۶ سالہ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات سے یہ سیکھا ہے ، جب کسی مولوی کو اپنی دین داری کی قائم کر دہ راجدھانی میں کوئی بھونچال آتا نظر آ رہا ہو تو وہ اس بھونچال کا راستہ مغربی عریانیت کے واویلے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے، عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف واک کی تو اِن ہی مولانا صا حب نے اس واک کو یہودیوں کی یلغار کا نام دیا تھا۔

اور اب عمران خان کے جلسے میں خواتین کی موجودگی کو عریانیت کا نام دے کر گلفشانیاں کرتے رہتے ہیں،لیکن ایک نامی گرامی چینل ، جو باقاعدہ طور پر ایک منصوبے کے تحت عریا نیت پھیلا رہا ہے۔اِن مولانا صاحب کو اس کے خلاف بات کرنے کی کبھی جر اء ت نہیں ہو ئی ، اس لئے کہ یہ اُس چینل کے مقابل بہت چھوٹے انسان ہیں۔ خیر انسان تو کبھی چھوٹا نہیں ہوتا۔

۔
مولانا صاحب چند دن پہلے عمران خان کے بارے میں یہ بھی بتا رہے تھے۔” پہلے تو انہوں نے سابق چیف جسٹس کی تعریف میں بہت کچھ کہا اور بعد میں اپنی عادت کے عین مطابق یو ٹرن لیتے ہوئے ان پر بھی الیکشن میں دھاندلی کے الزام لگانے شروع کر دئے۔“ سابق چیف جسٹس کی پاکدامنی کے حمائتی اور بھی بہت ہیں۔ جو بڑے چٹخارے لے لے کر عمران خان کے یو ٹرن کا قصہ بیان کرتے رہتے ہیں۔

سوال ہے سابق چیف جسٹس عمران خان کی نگاہوں سے کیسے اور کیوں گرے ؟ عمران خان ہزاروں بار بتا چکے ہیں، لیکن ہمارے ہاں ادھوری بات کر کے کسی کی بات کو اپنے مقاصد کے سانچے میں ڈھال لینے ہی کو صحافت سمجھا جاتا ہے۔ایک عزت مند انسان کا اپنے گھناونے کردار کی وجہ سے عام لوگوں کی نگاہوں میں گر جانے کے حوالے سے ایک قصہ بے محل نہیں ہو گا۔ کم و بیش پچیس تیس سال پرانی بات ہے میں مولانا ابو الکلام آزاد (مر حوم ) کی کتاب ” غبار ِ خاطر “ پڑھ رہا تھاکہ لند ن (انگلینڈ) سے میرے ایک مہربان بزرگ قاضی دعبد لباقی قدسی (مرحوم و مغفور) کا فون آ گیا۔

جو لاہور میں میرے باس تھے اور ان کی بزرگی، پنجگانہ نمازوں اور مشفقانہ کردار کی وجہ سے ہم سبھی انہیں اپنے والد جیسی عزت دیا کر تے تھے۔قاضی صاحب رحمتہ للعالمین ﷺ کے مصنف قاضی محمد سلیمان سَلمان منصور پوری کے پوتے تھے۔بہر کیف، ایک دوسرے کی خیر و عافیت معلوم کرنے کے بعد مولانا ّآزاد کی کتاب ”غبارِ خاطر “ کے حوالے سے مولانا صاحب کا ذکر چھڑ گیا۔

قاضی صاحب نے ایک کربناک خاموشی کے بعد کہا۔” عبدالرحیم ! میں تمہیں کیا بتاوں۔ مولا نا آزاد کو اللہ سبحان و تعالیٰ نے عزت و شہرت سے بہت زیادہ نواز رکھا تھا۔“ قاضی صاحب نے بڑے متاثر کن لہجے میں کہا۔” ہندوستان بھر کے عالم ان کے سامنے پانی بھرتے تھے ۔ ہم سمجھتے تھے کوئی عمر رسیدہ بزرگ ہوں گے۔ایک بار جب مولانا آزاد ایک جلسے میں شرکت کی غرض سے ہمارے شہر میں آئے تو یہ دیکھ کر ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ وہ کوئی عمر رسیدہ بزرگ نہیں ، ایک نوجوان ہیں۔

پھر جیسے جیسے وہ کانگرس کی سیاست میں مد غم ہو کر مسلمانوں سے دور ہونے لگے تو ان کی عزت و شہرت کا گراف بھی گرنے لگا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کے آبائی شہر کلکتہ میں لوگوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا۔“ مہاراشٹر کے ایڈوکیٹ جنرل ایچ۔ ایم۔ سیروا نی کی کتاب”تقسیم ہند ، افسانہ اور حقیقت “ جس کا اردو میں ترجمہ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے کیا ہے۔

اس میں مولانا آزاد کی کتاب” تقسیم ہند“ پر بحث کی گئی ہے۔جس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ مولانا مرحوم کے ہاتھ سے کانگرس کی سیات میں مدغم ہو کر غیر جانب داری کا دامن چھوٹ گیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ کانگرس کے اس الزام کو تقویت پہنچانے کے لئے کہ قائد اعظم نے ہندوستان کو توڑا ہے۔ لکھنوٴ پیکٹ ، جس میں قائد اعظم کو ہندو مسلم اتحاد کے سفر کا خطاب دیا گیا تھا، کو بھی اپنی کتاب میں شامل کرنا بھول گئے ہیں۔

مولانا آزاد ہی کی طرح سابق چیف جسٹس کو بھی اللہ نے بہت عزت دی تھی۔پاکستان بھر کے لوگ انہیں بحال کرانے سڑکوں پر نکلے تھے۔ لیکن وہ اس عزت کی حفاظت نہیں فرما سکے۔جس کی ایک ادنیٰ سی مثال اصغر خان کا کیس ہے اور ان کے خلاف صرف عمران خان ہی نہیں،کئی دوسرے لوگ بھی باتیں کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
قارئین کرام ۔عزت کے کام کرنے والوں کو عزت ملتی ہے اور ذلت کے کام کرنے والوں کو ذلت ملتی ہے اور یہ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے۔

یقین کریں کوئی بندہ کسی کو عزت دے سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو ذلت دے سکتا ہے اور عمران تو خود اپنی عوامی عزت و مقبولیت کے لئے اللہ کے گھر کا محتاج ہے۔وہ کسی کو عزت یا ذلت کیسے دے سکتا ہے؟
میں نے اپنے پچھلے کالم میں اپنی افواج پاکستان سے ایک سوال کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو بڑا مجرم تھا یا نواز شریف بڑا مجرم ہے ؟
اور اس بار یہی سوال نواز شریف صاحب کے بہت بڑے وکیل امریکہ سے کرہا ہوں کہ کیا رچرڈ نکسن( جس نے اپنی حریف جماعت کے انتخابی دفتر سے کچھ کاغذات اور ٹیپز چوری کروائی تھیں اور اپنی اس حرکت کے بارے میں جھوٹ بولا تھا) بڑا مجرم تھا یا نواز شریف بڑا مجرم ہے ؟ تمہیں ہمارے معاملات میں دخل دیتے ہوئے اپنے دوہرے معیار پر شرم کیوں نہیں آتی۔

؟ اپنے گھر میں اتنی صفائی اتنا عدل و انصاف اور ہمارے گھر میں چن چن کر کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرتے ہو۔خدا را کچھ تو شرم کرو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :