جاوید ہاشمی اور جماعت اسلامی

جمعرات 4 ستمبر 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

جناب جاوید ہاشمی سے میری پہلی ملاقات 2000ء میں ہوئی تھی تب میں ایک قومی روزنامے میں سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا کرتا تھا۔جنرل پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے ہوئے تھے ۔ نواب زادہ نصراللہ مرحوم کی سربراہی میں اے آر ڈی کے کے نام سے سیاسی اتحاد وجود میں آچکا تھا اور آئے روز جمہوریت کی بحالی کیلئے مظاہرے ہو رہے تھے ۔

محترمہ کلثوم نواز میاں نواز شریف کی رہائی کیلئے صوبائی دارالحکومت لاہور میں جلسے جلوسوں کا انعقاد کر رہی تھیں۔ یہ لاہور ہائی کورٹ بار میں منعقد ہونیو الی ایک تقریب تھی جس میں جناب جاوید ہاشمی پر جوش خطاب کررہے تھے ۔ اپنے خطاب میں جناب جاوید ہاشمی نے جنرل پرویز مشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا” اگر آمریت کی مذمت اور جمہوریت کی حمائت جرم ہے تو یہ جرم جاوید ہاشمی کرتا رہے گا ، تم مجھے آج گرفتار کر لو یا کل میں یہ کہنے سے باز نہیں آؤں گا کہ تم ایک ڈکٹیٹر ہو، آمر ہو اور حکومت پر قابض ہو “۔

(جاری ہے)

پرو گرام کے اختتام پر ہم لوگ چائے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے جب میں نے جاوید ہاشمی سے عرض کیا کہ ”آپ بہت زیادہ جذباتی انداز میں جنرل پرویز مشرف کو للکار رہے ہیں اس کے نتائج کبھی بھی آپ کے حق میں نہیں جائیں گے “۔اس پر ہاشمی صاحب مخاطب ہوئے اور کہنے لگے ”برخوددار! مجھے زندگی اور موت سے مت ڈراؤ ، یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے جہاں تک جنرل پرویز مشرف کا معاملہ ہے وہ ایک ڈکٹیٹر ہے اس نے جمہوریت کی بساط لپیٹی ہے جنرل مشرف کے اس قدام کے خلاف میں ہر سطح پر احتجاج کروں گا ۔

“دراصل جاوید ہاشمی صاحب کی یہی وہ معصوم شجاعت تھی جس کی بنیاد پر میاں نواز شریف نے انہیں پارٹی کا قائم مقام صدر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وگرنہ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ جاوید ہاشمی میاں نواز شریف کے ان پانچ پیاروں میں شامل نہ تھے جن سے ہر قدم پر مشاورت کی جاتی تھی ۔ بلکہ کابینہ کے رکن کے طور پر جاوید ہاشمی علیحدگی میں چند منٹ ملاقات کے لئے وقت مانگا کرتے تھے۔

ہاشمی صاحب کے بہنوئی اقبال ہاشمی سے جب پوچھا گیا تھا کہ میاں صاحب اچانک ہاشمی صاحب پر مہربان کیوں ہوگئے ہیں توانہوں نے دلچسپ جواب دیا تھا کہ” ہاشمی سے زیادہ سادہ لوح پارٹی میں کوئی دوسرا کہاں؟ جو بھاگ دوڑ کرے گا، مار کھائے گا، جیل جائے گا اور امانت میں خیانت نہیں کرے گا“۔
سچی بات یہ ہے کہ جناب جاوید ہاشمی نے یہی کچھ کیا ۔

لاہوراور سیالکوٹ کے”خواجے“اور راولپنڈی کے ”چودھری“سر چھپانے کو آشیانہ تلاش کر رہے تھے اور جاوید ہاشمی سڑکوں چوراہوں پر جنرل پرویز مشرف کو للکار رہے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید ہاشمی کو انتیس اکتوبر سنہ دو ہزار تین کواسلام آباد میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے نتیجے میں گرفتار کر لیا گیا۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ ان کو فوج کے مونو گرام والے لیٹر ہیڈ پر فوجی حکمرانوں کے خلاف ایک خط موصول ہوا ہے۔

آٹھ دسمبر سنہ دو ہزار تین کو جاوید ہاشمی کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی جبکہ چوبیس جنوری سنہ دو ہزار چار کو جاوید ہاشمی پر غداری اور فوج کو بغاوت پر اکسانے سمیت سات دفعات کی فرد جرم عائد کی گئی۔12 اپریل 2004ء کو عدالت نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے سات مختلف الزامات میں جاوید ہاشمی کو مجموعی طور پر 23 سال قید کی سزا سنائی۔2 اپریل 2005 کو جاوید ہاشمی کو مستقل بنیادوں پر اڈیالہ جیل راولپنڈی سے کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کردیا گیا جہاں جاوید ہاشمی اپنے خلاف غیر قانونی اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس کی سماعت کے موقع پر عدالت میں پیش ہوتے رہے۔

2006 کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے جاوید ہاشمی کی بغاوت کیس میں سزا معطل کرنے اور ضمانت پر رہائی کی درخواست مسترد کردی۔یہ وہ دن تھے جب ایک بار پھر کوٹ لکھپت جیل میں میری ملاقات جناب جاوید ہاشمی سے ہوئی ۔ اس وقت جاوید لطیف جیل کے سپریڈنٹ تھے ۔ان دنوں شدید گرمی تھی اور جاوید ہاشمی کو ائیر کولر کی سہولت سے بھی مرحوم رکھا گیا تھا ۔ حتیٰ کہ ان کی ملاقات پر ان کیلئے لایا گیا سامان وغیرہ بھی جیل اہلکار ان تک نہیں پہنچاتے تھے ۔

جاوید لطیف کے کمرے میں بیٹھے ہوئے میں نے جناب جاوید ہاشمی سے کہا ”مسلم لیگ(ق) اور مسلم لیگ(ن) ایمان اور کفر کا مسئلہ نہیں ہے ، آپ کن مصیبتوں میں گرفتار ہیں ؟ آپ کے لیڈر سعودی عرب میں پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں جبکہ آپ یہاں تازہ سبزی سے بھی مرحوم ہیں “۔ جاوید ہاشمی گویا ہوئے ”ذبیح اللہ !وہ سامنے جیل سپرینڈنٹ کے ناموں والے بورڈ کو دیکھو،اس بورڈ پر جو سب سے پہلا نام لکھا ہے ، اس سپرینڈنٹ کا جب کوٹ لکھپت جیل میں تقرر ہوا تھا میں تب بھی اس جیل میں قید تھا اور آج جو تم آخری نام دیکھ رہے ہو اس کا تقرر بھی میرے سامنے ہی ہوا ہے ۔

مسئلہ ایمان اور کفر کا ہے اور نہ زندگی و موت کا ،یہ اصولوں کی بات ہے اور اصولوں کی خاطر قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔“جناب جاوید ہاشمی نے انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہامیں نے جاوید ہاشمی کو کئی بار یہاں مرا ہوا دیکھا ہے ، میں کس زندگی کی خاطر اپنے اصول بیچ دوں جس کی بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ اگلے سانس کی خبر نہیں ۔ ان لوگوں نے مجھے 23سال قید کی سزا سنائی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ میں تئیس سال زندہ بھی رہوں ۔

میرے لیے 23سال اور 230سال برابر ہیں ،مگر میں اصولوں کے ساتھ زندہ رہنا پسند کروں گا میں بزدلوں اور کم ہمتوں کی طرح اپنے نظریات تبدیل نہیں کروں گا۔“
2006میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد میری ان سے آخری ملاقات ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک جناب میاں نواز شریف کے گھر میں ہوئی ۔اس کے بعد میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوسکی ۔جناب جاوید ہاشمی اور عمران خان کے راستے جدا ہوچکے ہیں۔

جاوید ہاشمی اب کہاں جائیں گے ؟ ۔ان کی سیاسی ترجیحات اور پلیٹ فارم کیا ہوگا؟ اس بابت جاوید ہاشمی سے بہتر کوئی نہیں جانتا تاہم میں جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق کے کان میں سرگوشی کرنا چاہتا ہوں کہ جاوید ہاشمی کو جماعت اسلامی میں شمولیت کی دعوت دے ڈالیں ۔ انکار یا اقرار کی فکر نہ کیجئے ہو سکتا ہے جماعت اسلامی کی دعوت کے بدلے میں جاوید ہاشمی اپنے آخری ایام جماعت اسلامی میں گزارنا پسند کریں اور ہمارے جیسے ان پر پھبتی کسیں
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :