مورچہ میں بیٹھا سپاہی !!!

اتوار 7 ستمبر 2014

Syed Badar Saeed

سید بدر سعید

بات کچھ پرانی ہی سہی لیکن دل و دماغ سے نہیں اترتی ۔ یہ سرحدی علاقہ تھا ۔ دھرتی کے سینے سے لپٹا ایک مضبوط مورچہ نظر آیا تو قدم رکنے لگے۔ میں نے اجازت لی اور مورچے میں اتر گیا ۔رسمی سلام دعا کے بعد میں نے مورچہ میں بیٹھے سپاہی سے کہا : تم کتنا کما لیتے ہو؟ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور بولا: صاحب کیا میں یہاں ہتھیار تھامے کمائی کرنے بیٹھا ہوں ؟؟سنو! میرا دادا سپاہی تھا اور دشمن سے لڑتا ہوا مارا گیا۔

میرا باپ بھی سپاہی تھا اور ایک دن اس کی لاش بھی گھر آ گئی۔اب میں نے یہ مورچہ سنبھال لیا ہے۔ ایک دن کوئی گولی اس مورچے کو میرے خون سے سرخ کر دے گی اور پھر میرا بیٹا یہاں آکر میری جگہ سنبھال لے گا۔ سر !ہم وطن کے لیے سر کٹانے آتے ہیں کوئی دھندہ کرنے نہیں آتے۔

(جاری ہے)

کاروبار کرنے والے توجھوٹے وعدے اور سبز باغ دکھا کر ووٹ کی بھیک مانگا کرتے ہیں ۔

ان سے پہلے یہ کام ان کے باپ دادا کرتے تھے اور بعد ان کی اولاد بھی یہی کام کرے گی۔ ہم نے کام بانٹ رکھا ہے ۔ وہ تخت پر بیٹھتے ہیں اور ہم مورچہ میں ۔ یہ نسلوں کے سودے ہیں ۔سپاہی دم لینے کو رکا اور پھر کہنے لگا: صاحب ! نیچے ہو کر بیٹھو ، کہیں میرے نام کی کوئی گولی تمہیں اپنا شکار نہ سمجھ لے ۔ ابھی تو تم نے جا کر یہ بھی سوچنا ہے کہ شہید کون ہوتا ہے ۔

ہماری تین نسلیں مورچوں میں وطن کی حفاظت کرتے ہوئے ماری گئیں اور تم مہنگی گاڑیوں والے یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ شہید کی تعریف کیا ہے ۔ اسے کفن پہنایا بھی جاتا ہے یا نہیں !!
سپاہی کی یہ باتیں تلخ سہی لیکن یہ سچ ہے کہ پاک فوج کا سپاہی پیسے کمانے کی نیت سے اس فوج میں شامل نہیں ہوتا۔ ہمارے نوجوانوں کو پاکستان کی حفاظت کا جذبہ پاک فوج میں کھینچ لاتا ہے ۔

یہ نوجوان شوق شہادت میں یہاں آتے ہیں اور پھر کسی مورچے میں بیٹھے اپنے نام کی گولی کا انتظار کرتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو 6 ستمبر کا نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ ہم بھارت کے مقابلے میں کئی گنا کم طاقت رکھتے تھے۔ ہمارے پاس نہ تو اس مقابلے کے ہتھیار تھے اور نہ ہی عددی قوت اس جتنی تھی ۔ لیکن جب میدان سجا تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ چونڈہ پر ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی ہوئی ۔

دشمن کے مست ٹینکوں نے پیش قدمی کی تو دھرتی کا سینہ کانپ اٹھا ۔ ہمارے پاس ٹینک تو اتنے نہ تھے لیکن مورچہ میں گولی کا انتظار کرنے والے جانباز ضرور تھے ۔ یہ سپاہی اٹھے اوراپنی موت کی جانب بڑھنے لگے۔ایک پیسہ ایک ٹینک سے شروع ہونے والی کہانی ایک ٹینک ایک سپاہی تک پہنچی تو آسمان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ نہ وہاں سپاہی رہا اور نہ ٹینک ۔

ٹینکوں کی یہ بڑی لڑائی انڈین ٹینکوں کی بجائے پاک فوج کے سپاہیوں نے جیت لی ۔ کون کہاں کس ٹینک سے لپٹ کر مرا ،یہ دیکھنے کا وقت ہی نہ تھا ۔ ایک کے بعد ایک جوان اٹھتا رہا اور دشمن کا ٹینک تباہ ہوتا رہا ۔ دوسری جانب ایم ایم عالم نے عالمی ریکارڈ بنا ڈالا۔ پاک فوج کے سپاہیوں کا یہ جذبہ آج بھی قائم ہے ۔
ایک طرف مورچے میں بیٹھے ان سپاہیوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ان کا یہ قرض ہم کبھی نہیں اتار سکتے ۔

دوسری جانب دشمن کے پراپیگنڈے سے متاثر ہونے والے اسی پاک فوج کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ہم ایسے جب بحث کریں یا مورچے میں بیٹھے سپاہیوں کی داستانیں سنائیں تو جواب ملتا ہے ہم سپاہیوں کی نہیں جرنیلوں کی بات کر رہے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ پاک فوج کے کچھ جرنیلوں نے ملکی سیاست میں قدم رکھا اور مارشل لا لگایا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ چند افراد کے اقدامات کے پس منظر میں پورے ادارے کی ساکھ کو نہیں پرکھا جاتا ۔

یہ بھی سچ ہے کہ مارشل لا کی وجہ ہمیشہ سیاست دان ہی بنے ہیں۔ خدا لگتی کہیں تو یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ہمارے جرنیل اگلے محاذوں پر نہیں ہوتے ۔ یہ بات اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ 1965 کی جنگ میں پاک فوج کے اعلی افسروں نے اگلے محاذوں پر قربانیاں دیں ۔ کارگل کی جنگ میں پاک فوج کے چیف نے پوری رات اپنے جوانوں کے ہمراہ دشمن کے علاقے میں گزاری تھی ۔

تب وہ صرف پاک فوج کے چیف تھے ۔ ان میں کمزوری ملکی سیاست میں آنے کے بعدآئی۔ یہ عسکری تاریخ کی ناقابل فراموش داستان ہے۔بھارت کو جب اس بات کا علم ہوا تو ان کی فوج کا چیف چلا اٹھا کہ اگر مجھے علم ہو جاتا تو میں پوری فوج اس ایک محاذ پر جھونک دیتا جہاں پاکستانی فوج کا سربراہ موجود تھا۔ شدت پسندی کے خلاف جنگ ہوئی تو بھی پاک فوج کے جرنیل سب سے آگے نظر آئے ۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی اکثر اگلے مورچوں میں پائے جاتے تھے۔ میجر جنرل ثنا اللہ نیازی اگلے محاذ پر شہید ہوئے ۔ سوات آپریشن میں جنرل ہارون ہر اول دستوں کے ہمراہ تھے ۔ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے بھی عید اگلے محاذوں پر شدت پسندی کے خلاف جنگ میں مصروف اپنے جوانوں کے ہمراہ منائی ۔ وہ 6 ستمبر2014 ء کو بھی میران شاہ میں اپنے جوانوں کے ہمراہ تھے ۔

یہ پاک فوج کی روایت ہے جو 1965ء میں بھی زندہ تھی اور آج بھی قائم دائم ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاسی صورت حال اچھی نہیں ۔ اس پس منظر میں ہمارے بعض دوستوں کو ہر قدم پر مارشل لاء کی نوید سنائی دیتی ہے لیکن اگر جائزہ لیں تو موجودہ حالات میں سب سے مثبت رول پاک فوج کے سربراہ نے ادا کیا ہے۔ جب مذاکرات کے دروازے مکمل طور پر بند کرنے کے اعلانات ہو چکے تھے، تب آرمی چیف نے ہی طاہر القادری اور عمران خان سے ملاقات کی اور مذاکرات کے دروازے دوبارہ کھل گئے ۔

جنرل راحیل شریف کا تعلق مارشل خاندان سے ہے ۔ اس گھرانے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دس میں سے دو نشان حیدر اسی گھرانے کے پاس ہیں ۔ان کے والد اور بھائیوں سمیت خاندان کے دیگر افراد فوج میں رہے ہیں ۔ ان کا ننھیال اور دودھیال دونوں مارشل خاندان کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ یہ مارشل خاندان سیاست دان نہیں بلکہ محافظ ہے۔ اس پس منظر میں یہ ممکن ہی نہیں کہ پاک فوج کے چیف سیاست کے اس کیچڑ میں قدم رکھیں جو پارسا کے دامن پر بھی چند نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے ۔


میں نے ایک بار ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب سے بھی یہی عرض کیا تھا کہ وہ سیاست میں قدم نہ رکھیں ۔ پوری قوم کے ہیرو کو سیاسی گروہ یا جماعت میں آنا ہی نہیں چاہیے۔ یہ سب کے ہیرو ہوتے ہیں ۔ جنرل راحیل شریف بخوبی جانتے ہیں کہ آج بھی کچے راستے سے محافظوں کا ٹرک گزرے تو گاؤں کے بچے ٹائروں تلے آنے والی مٹی تبرک سمجھ کر گھر لے جاتے ہیں ۔ پاک فوج کو متنازعہ بنانے کی بجائے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اسی لیے محفوظ ہیں کہ ہمارے محافظ آج بھی ایک خوفناک جنگ میں مصروف ہیں ۔

1965 ء میں وطن کی حفاظت کے لیے مورچہ سے باہر نکل کر دشمن کے گولے کا نشانہ بنے والے محافظوں کے وارث آج بھی وہی فرض نبھا رہے ہیں ۔یہ صدیوں کے سودے ہیں کہ کون کہاں فرض نبھائے گا ۔ مورچہ میں بیٹھا سپاہی نہ کمائی کرنے آتا ہے اور نہ سیاست کا گند سمیٹنے ۔ وہ محافظ ہونے کا اعزاز پاتا ہے اور وطن پر قربان ہو جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :