کیا یہ پہلا سیلاب ہے؟

جمعہ 12 ستمبر 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

اس بار مون سون کی بارشیں کچھ تاخیر سے برسیں مگر جب برسیں تو پورے پاکستان کو پانی پانی کر گئیں اور حسب معمول حکومت کی نااہلی کھل کر سامنے آئی لاہور جیسا شہر جس کی پیرس جیسے ترقی یافتہ اور مہذب ملک کے ساتھ مماثلت کی جارہی تھی کے شہری تین دن کی بارشوں کے نتیجے میں نہ صرف گھروں میں میں محصور ہو کر رہ گئے بلکہ ہر روز کنواں کھود کر روٹی تلاش کرنے والے روٹی روزی سے بھی محروم ہونے کے ساتھ کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا خستہ حال عمارتوں کے گرنے بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ آنے اور سڑکوں پر گھڑئے پڑنے کے افسوس ناک سانحات اور واقعات کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئینں جن میں سب سے اندوہ ناک واقعہ لاہور کے علاقہ دروغہ والہ میں مسجد کے انہدام کا تھا جس میں چوبیس نمازی جاں بحق ہو گئے جو اپنے پیچھے یتیموں ،بیواوں اور عزیز قارب کو روتا چھوڑ گئے اس واقعے کا افسوس ناک پہلو یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مسجد تعمیر کرتے وقت بلڈنگ قوانین کا بلکل خیال نہیں رکھا گیا ،یہاں بھی حکومت کی نااہلی ہی طشت از بام ہوتی ہے جس کے ادارئے سکون کی نیند سوتے رہتے ہیں جب کوئی افسوس ناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو تاویلیں پیش کرنا شروع ہو جاتے ہیں،حکومت کوتمام شہری اداروں میں سے نااہل افراد کو بنا نوٹس دئے ملازمت سے برخواست کر دیا جانا چاہیے تا کہ دوسرئے ملازم اس طرح کی کوتاہی کے مرتکب نہ ہوں جس سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیائع ہوتا ہو۔

(جاری ہے)

کاش حکومتی اعمال کے موثر احتساب کا بندوبست ہوتا تو حکمرانوں کو نہ ہی قوم کے آگے شرمندہ ہونا پڑتا اور نہ کسی کوامداد دینی پڑتی حکومتی اکابرین شخصی حکومت کے طریقہ کار پر چل رہے ہیں جبکہ نظام کی مظبوطی ان کی ترجیح نہیں جس کے بغیر ملک نہیں چلتے نظام کو بہتر کیا گیا ہوتا ،اور بلدیاتی حکومتوں کا نظام موجود ہوتا تو حاکمان وقت کو یوں ”گوڈے گوڈے“ پانی میں نہ جانا پڑتا جدید معلوماتی موصالاتی نظام ہمیں بتا دیتا ہے کہ مون سون کے دوران بارشیں کتنی کب ا ور کہاں ہوں گی اور ہوائیں کہاں سے آئیں گی اور کہاں کتنی دیر برسیں گی مگر نہ جانے کیوں ہم ان معلومات سے فائدہ نہیں اٹھاتے دوسری جانب شہروں کا ڈرینج سسٹم اس قدر ناکارہ اور بوسیدہ ہے کہ وہ معمولی بارشوں کا پانی نکاس نہیں کر سکتا تو معمول سے زیادہ ہونے والی بارشوں کا پانی کیسے ہضم کرے گا ،یہاں بھی شہروں میں تعمیرات پر نظر رکھنے والے اور سیورئیج سسٹم کو رواں دواں رکھنے والے اداروں کی نااہلی کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ آانکھیں بند کر کے سوئے رہتے ہیں اور جب کوئی آفت آجاتی ہے تو ہڑ بڑا کر اٹھتے ہیں اور ہڑبونگ مچا دیتے ہیں ۔


یہ صرف ایک شہر کا حال نہیں پورے ملک میں سرکاری ملازمین کی کارکردگی ایسی ہی ہے، بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے اب تک کم از کم 256 افراد ہلاک اور دس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس ضمن میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا میڈیا کو کہنا ہے کہ سیلاب سے صوبے پنجاب میں کم از کم 1,091,807 افراد متاثر ہوئے ہیں، اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 31,800 ہے۔

حکام کے مطابق متاثرہ لوگوں میں اپنے گھروں یا اپنے علاقوں میں پھنسے ہوئے افراد اور وہ لوگ جو سیلابی ریلے کے بعد اپنے گھر بار چھوڑ گئے ہیں شامل ہیں۔حکام نے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔اتھارٹی کی ویب سائٹ پر کشمیر سے شروع ہونے والے اور اب پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد کے بارے میں تصدیق کی گئی ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ سیلابی ریلے میں سینکڑوں مکانات منہدم ہو گئے اور سڑکیں تباہ ہو گئی ہیں، اور کئی ایکڑ رقبے پر مشتمل کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی موجودہ سیلاب نے دو ہزار دس کے سیلاب کی یاد تازہ کر دی جو ملک کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور 18 ملین متاثر ہوئے تھے۔
پاکستان کی68 سالہ تاریخ میں 1956، 1976، 1986 اور 1992 اور 2010 میں بڑے سیلاب آئے تھے جنہوں نے تباہی مچائی تھی۔

پاکستان کی تاریخ میں حالیہ سیلاب کو بھی انتہائی غیر معمولی سیلاب قرار دیا جا رہا ہے ،پاکستان میں ریاستی تاریخ کے ان انتہائی غیر معمولی سیلابوں کے نتیجے میں غیر معمولی تباہ کاریاں دیکھنے میں آ تی رہی ہیں۔ حالیہ سیلاب سے کتنا نقصاں ہوا کتنی جانیں ضائع ہوئیں اور زخمیوں کی تعداد کتنی تھی اس کا اندازہ تو پانی کے اپنے محور پر جانے کے بعد ہو گا لیکن یہاں سوال پھر وہی ہے کہ حکومتیں کیا کر رہی ہیں کیا انہوں نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے قدرتی آفتوں سے بچنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے نئے ڈیم تعمیر کئے دریاں اور نہروں کی صفائی کی یا نئی نہریں کھودی گئیں ، شہروں میں پانی کے زخیرئے بنائے، جس طرح ماضی میں پبلک پارک کو بارشوں کی پانی کے زخیرے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا؟ ،یعنی پبلک پارک اتنے گہرے بنائے جاتے تھے کہ جب بارشیں ہوں تو پانی ان پاروکوں کے اندر چلا جاتا جس سے ایک طرف زیر زمین پانی کا لیول اونچا ہو جاتا تھا تھا تو دوسری جانب شہروں میں نقصان کم سے کم ہوتا تھا۔

حکومت کو شہروں کے پبلک پارکوں کا سروئے کروانا چاہیے کہ لاہور جیسے شہر میں کتنے پارک اور کس حالت میں ، پارکوں میں تعمیرات ، ڈسپنسریاں، دفاتر ،مسجدیں، اور دیگر تعمیرات کس نے کس کی اجازت سے کیں وغیرہ۔کہا تو یہ ہی جاتا ہے کہ تاریخ سے سبق کوئی نہیں سیکھتا مگر بار بار تاریخ کو دہرائے بھی نہیں جانا چاہیے۔ اس لئے ماضی کے سیلابوں کی تاریخ کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ان سے بچاو کے لئے موثر اقدمات اٹھانے کی طرف توجہ دینی چاہیے تا کہ پاکستان کے شہری بھی سکھ کا سانس لے سکیں اور آبرو مندانہ زندگی گزار سکیں یہ حکومتوں کا ہی کام ہے کہ وہ بہتر پلاننگ کی زریعے موسمی آفتوں سے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :