سلگتا بلوچستان

ہفتہ 4 اکتوبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

گذشتہ برس امریکی ایوان نمائندگان میں بلوچستان کی علیحدگی کی قرار داد پیش کی گئی۔ امریکی ایوان نمائندگان میں رکن کانگریس ڈینارو ہرابا نے بلوچستان کی علیحدگی سے متعلق قرار داد پیش کی۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ انیس سو اٹھاون ،انیس سو تہتر اور سال دوہزار پانچ میں ہونے والی بغاوتیں اسلام آباد پر بلوچ عوام کے عدم اطمینان کا مظہر ہیں۔

قرار داد کے متن کے مطابق بلوچستان کے قدرتی ذخائر کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ جبکہ بلوچ عوام غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان، پاکستان، افغانستان اور ایران میں تقسیم ہے اور تینوں ممالک میں بلوچ عوام کو خودمختاری حاصل نہیں۔ قرار داد میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بلوچ عوام کو اپنے لئے آزاد ملک کا حق حاصل ہے جو انہیں ملنا چاہیے،بلوچوں کو سیاسی و نسلی امتیاز اور ماورائے عدالت قتل کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

قرار داد میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بلوچ عوام پر ظلم کیا جا رہا ہے اور امریکا بلوچ عوام پر ظلم کرنے والوں کو ہی اسلحہ اور امداد فراہم کر رہاہے۔ دوسری جانب امریکی ایوان نمائندگان میں اسامہ بن لادن کی مخبری کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی شہریت دینے کا بل پیش کیاگیا تھا۔
وکٹوریہ نولینڈ کا کہنا تھا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی پاسداری کرتے ہوئے ان جماعتوں کے قائدین کی آزادانہ نقل و حرکت اور اسلحے کے حصول پر پابندیاں لگائے اور ان کے اثاثے منجمد کرے جبکہ بلوچستان کے سینئر رہنما اخترمینگل کا کہناتھا کہ امریکی کانگریس میں پیش ہونیوالی قرارداد پر شور مچانے والے سوچیں کہ یہ معاملہ کانگریس میں کیوں پہنچا۔

ان کا کہنا ہے بلوچستان نیشنل پارٹی کا شروع سے حق خود ارادیت کا مطالبہ چلاآرہاتھا جب کشمیریوں کو حق خودارادیت کی بات کی جاسکتی ہے تو بلوچستان کو کیوں نہیں؟
یہ عجیب وغریب کہانی پڑھنے کے بعد ہرذی شعور یہی سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر امریکہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں کیوں مداخلت کرتاہے خاص طورپر یہ امر تو نہایت ہی افسوسناک ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی کمزوریوں یا غلط پالیسیوں کی بدولت ہمیشہ نزلہ پاکستان پر ہی گرتاہے۔

گوکہ امریکی ترجمان وکٹوریہ نولینڈنے ایک بات تو بہرحال واضح کردی کہ امریکہ کو بلوچستان سے اتنی ہمدردی نہیں بلکہ اس کے پیچھے پاک ایران گیس منصوبہ ہے جو مسلسل درد بن کر کبھی اس کے پیٹ میں اٹھتاہے تو کبھی بخار بن کر اس کے دماغ پر چڑھ جاتاہے ۔سوچنے والے تو یہ بھی سوچتے ہونگے کہ آخر بلوچ قوم کے درد میں ہلکان ہونیوالے امریکہ کو اس وقت کیوں افغانیوں پر ترس نہ آیا جب وہ بھاری بھرکم بارود کے بل بوتے پر لاکھوں انسانوں کی بلی چڑھارہا تھا اسے تر س تو اس وقت بھی نہ آیا جب امریکہ اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں کئی عراقی شہری شہید ہوگئے ۔

سوچنے کا مقام تو یہ بھی ہے کہ گذشتہ باسٹھ تریسٹھ سالوں سے آزادی آزادی کانعرہ لگاتے وہ کشمیر ی امریکہ کو نظرنہ آئے جو جان تو دے دیتے ہیں لیکن آزادی آزادی کانعرہ نہیں چھوڑتے ۔ انسانی حقوق کے چمپئن کو وہ روتے چلاتے اور جان نچھاور کرتے فلسطینی کیوں دکھائی نہیں دیتے جن کی زندگی امریکی بغل بچے اسرائیل کے ہاتھوں اجیرن ہوچکی ہے۔ یہ تو ہرکوئی جانتاہے کہ امریکہ کبھی بھی اورکسی بھی وقت کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرسکتاہے اس کے لئے اس کے پاس من گھڑت دلائل بھی ہوتے ہیں اورمن پسند ثبوت بھی لیکن جونہی اسے مرضی کے نتائج حاصل نہیں ہوتے تووہ دم دباکربھاگتے ہوئے یہی نہیں سوچتا کہ اس کا اپنا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آنے والا ہے۔


رہی بات بلوچستان کی ‘ تو اس بارے میں امریکہ کے پیٹ کا درد تو وہ قدرتی قیمتی خزانے بھی ہیں جن کی تلاش میں امریکہ نے پہلے افغانستان اور پھر عراق پر چڑھائی کی‘ سعودی عرب کی وہ دولت ا س نے آہستہ آہستہ لوٹتے لوٹتے اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اگر اس وقت سعود ی عرب نے روش نہ بدلی تو اس کی معیشت کو بھی تباہی کا سامناہوسکتاہے۔ یہ تو خیر وہ حقائق ہیں جن سے نظریں چرانا محال ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

بعض لوگ سوچتے ہیں کہ آخر امریکہ کا نشانہ مسلمان ممالک ہی کیوں بنتے ہیں؟اس کی سیدھی سادھی وجہ تو یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسلمان کبھی بھی جہاد کو نہیں چھوڑسکتا ‘ امریکہ نے اس عمل کو بھی مسلمانوں کی کمزوری تصور کرتے ہوئے مرضی کے مطابق استعمال کیا جب روس اس کے مدمقابل دوسری بڑی عالمی قوت کے طور پر ڈٹا ہوا تھا تو گرم پانیوں کی تلاش رو س کو موت کے منہ میں لائی اورافغانستان میں پھر امریکی منشا کے مطابق ”جہاد “ کا وہ ڈرامہ رچایا گیا جس کے نتائج تاحال امت مسلمہ پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔

پھر ان جہادیوں کو امریکہ نے دہشتگرد کا روپ دینے میں بھی کمی نہ چھوڑی اور آج انہی دہشتگردوں سے دوبارہ وہ ہاتھ ملانے پر تلا ہوا ہے اور پھر کسی دوسرے مگر امریکی مخالف ملک کے خلاف جہاد کے طورپر استعمال کیاجائیگا۔ دوسری اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اسلامی ممالک کو اللہ کریم نے بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے جن میں سے ایک تیل کی دولت ہے ‘اس دولت کی فراوانی کے باوجود اسلامی بلاک کی حالت دیکھنے لائق ہے‘ حکمران گو کہ خود تو سکھی اورخوشحال ہیں لیکن عوام بدحالی ‘قحط زدگئی کاشکار ہیں۔


بات بلوچستان کی چلی ہے تو معدینات کے حوالے سے معلومات رکھنے والے بخوبی جانتے ہونگے کہ بلوچستان کے پہاڑوں میں اللہ کریم نے سونے سے زیادہ مہنگی اورقیمتی خزانے چھپارکھے ہیں اس کے بارے میں آج تک ہمارے حکمرانوں نے نہیں سوچا البتہ ریکو ڈک منصوبے جیسے اقدامات کے ذریعے انہیں برآمد کرنے کے نام پر ٹھیکہ دیکردولت کمانے کا بے ڈھنگ طریقہ ضرور اپنا یا ۔

یہ تو بھلاہوسپریم کورٹ کا کہ یہ معاملہ تاحال لٹکا ہوا ہے ۔ بہرحال بلوچستان کی پہاڑیوں میں چھپے خزانے بھی امریکہ کی آنکھوں میں ہوس بن کر جھلک رہے ہیں اور اس نے ایک بار پھر روایتی انداز میں پہلے پہل اس معاملے کو کانگریس میں اٹھایا ہے پھر وہ اپنے چند چہیتے ممالک کے ذریعے بلوچ قوم پر ہونیوالے نام نہاد مظالم کا ڈرامہ رچائے گا پھر آواز بلند ہوگی۔

پھر علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے انہیں شدت پسندانہ کاروائیوں پر مجبور کرکے علیحدگی کی باقاعدہ تحریک چلائی جائیگی(یہ عمل اب بھی جاری ہے ‘علیحدگی پسندوں کے بیانا ت یہی ظاہر کررہے ہیں جبکہ آئے روز ہونیوالی ٹارگٹ کلنگ کاسلسلہ بھی جاری ہے)خدا نہ کرے اگر امریکی عزائم کامیاب ہوگئے تو پھر․․․․․․․مزید بتانے اور سننے کی ہمت نہیں‘یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ امریکہ اس حوالے سے آج نہیں بلکہ کئی سال قبل منصوبہ ترتیب دے چکا ہے ‘بلوچستان کی محرومیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ آہستگی سے کبھی بھارت کے ذریعے اور کبھی اپنے پروردہ پاکستانی حکمرانوں کے ذریعے ان محرومیوں کوآگ کی تپش دیکر لوگوں کے جذبات کوگرماتا رہا ہے اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔


گو کہ سابقہ حکومت نے بلوچستان کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان تو کیا لیکن اس پر پیکیج کی کسی ایک شق پر عمل نہیں ہوسکا اور اب سابق وزیراعظم کہتے رہے کہ جلد ہوجائیگا مگر جلد نہ آسکی
یہ بھی ضروری ہوگا کہ ان محرومیوں کو‘ جو‘ اب انتقام کی شکل اختیار کرچکی ہیں ‘کیسے دور کرناہے ‘بلوچ قوم کے زخموں پر پھاہاکیسے رکھناہے‘ آئے روز غائب ہونیوالے بلوچ شہریوں کو کیسے بازیاب کراناہے‘ ٹارگٹ کلنگ کیسے روکنی ہے‘ گو کہ ان عوامل پر آل پارٹیز کانفرنس بلاکر اس میں سوچ بچار ہوگی لیکن خدارا جو کہاجائے اس پر عمل بھی کیا جائے محض کانفرنس بلانے یا ”نشتسن‘ گفتن‘برخاستن “ کاعمل ہی نہ رہنے پائے جس کے بعد پھر ہمارے پاس سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ باقی نہ رہ جائے۔

دوسری جانب امریکی بلیک میل کا تریاق اسی کے انداز میں کرنے کے ساتھ ساتھ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جایاجائے(فی الوقت اقوام متحدہ سے بھی کوئی خیر کی امید نہیں) ایران‘ چین سمیت دوست ممالک کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیاجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :