نوبل

پیر 13 اکتوبر 2014

Azmat Ali Rehmani

عظمت علی رحمانی

پاکستان میں بڑی سمجھی جانے والی شخصیات کے پیچھے کوئی نہ کوئی ”راز“ضرور پنہاں ہوتا ہے ،جس کو عیاں ہونے میں دیر تو لگتی ہے مگر ان پردوں کا سرکنا ہوتا ہے کہ اختلافات کا پنڈورا بکس کھلتا ہے تو چینلز ،اخبارات اور شوز میں گرماگرم بحثیں چھڑ جاتی ہیں ۔اسی طرح کی ایک بحث ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام ملنے پر چھڑگئی ،اکثریت نے اپنا کام دکھایا مگر اقلیت پھر اپنے ہی موقف پر کھڑی نظری آتی ہے ۔

کئی کالموں کے پیٹ تعریفوں میں لکھ کر بھرے جارہے ہیں ۔جن جن ممالک کے بیچ یہ ایوارڈ پاکستان کی ایک بچی کے نام کیا گیا اس پر ،ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی مگر کچھ ”بیچاروں “کو یہ خوشی ہضم ہی نہیں ہوئی ،ہمیں خوشی اس لیے ہوئی کہ نوبل اور وجہ نوبل دونوں ہی ہماری سرزمین کا حصہ ہیں ِاختلاف ہر نظریاتی شخص کا حق ہے جس میں ہر کوئی حق بجانب ہے ،بعض دوستوں کو اس بات پر بھی افسوس ہے کہ سنجیدہ حلقوں کی جانب سے نوبل کے لئے عبدالستار ایدھی کا نام کیوں لیا گیا۔

(جاری ہے)

اس کا بہتر جواب تو وہی دے سکتے ہیں جن نے ملالہ کو نوبل ایوارڈ ملنے کے بجائے ایدھی صاحب کے حق میں اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔
ملالہ یوسف زئی کیسی ہے ،اس کے نظریات کیسے ہیں ،وہ کس کو اپنا کس کو غیر کہتی ہے پاکستان کے اچھے خاصے طبقے کو اس کی چنداں پروا نہیں ہے ،ان کو اگر سروکار ہے تو صرف اس چیز کہ ملالہ بھی پاکستان کی ہے اور پاکستان کے دشمنوں کے سامنے جب یہ خبر آئی کہ ”عالمی نوبل انعام پاکستان کی کم سن ملالہ یوسف زئی کے نام کردیا گیا “تو دشمن کے گھر کا سکون بھی غارت ہو چکا ہو گا ۔

پاکستان جس کو بیرون ممالک میں ایک عیب ،درد ،خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے اس کے نام کے ساتھ اس طرح کا انعام منسوب ہونا یقینا ایک خوش آئند بات ہے ۔
انعام کی خبریں ابھی گردش ہی کررہی تھیں کہ کراچی کی تپتی دھوپ میں گزشتہ روز ایک صاحب نے فون کیا کہ ملالہ یوسف زئی کو انعام ملنا بھی غلط ہے اور نوبل کا حق دار عبدالستار ایدھی بھی نہیں ہوسکتا ،عرض کیا جناب آپ پرائی جنگ مجھ پہ مسلط کیوں کرنے لگے مگرمجموعی طو رپر ”ٹھیکیداران “کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ حْبِ علی (رضی اللہ عنہ )میں نہ سہی مگربغضِ معاویہ(رضی اللہ عنہ) میں اپنی بات ضرورلے آتے ہیں ،فرمانے لگے اگر ایدھی نے خدمت کی ہے تو کیا ہوا فلاں ٹرسٹ اور فلاں بن فلاں صاحب نے کیا کم خدمت کی ہے یا کررہے ہیں۔

ان کو توآپ کا میڈیا کوریج نہیں دیتا ورنہ سب کو اْن کی خدمت پر رشک آتا۔سو عرض کیا بھائی میڈیا دیکھاتا ہے یا نہیں الگ بحث ہے مگر جن فلاں ٹرسٹ و فلاں بن فلاں صاحب کے ذکر آپ کررہے ہیں اور آنجناب کی زبان مبارک بھی اس کارخیر میں حصہ لے رہی ہے وہاں تو کسی دوسرے مسلک کے شخص کو اللہ کے نام پربھی بیٹی کے جہیز کے لئے مدد نہیں جاتی ،وہاں تو مسلک پرستی اتنی ہے اپنے ٹرسٹ کی گاڑیاں (صاحبان کے زیر استعمال )بھی اپنے ہی مسلک کے مکینک و مستری کے پاس جاتی ہیں ،کجا خدمت ،مجھے انسانیت کی خدمت دکھاؤ کہاں کی ہے،ہمیں تونیند کے خواب کے بجائے جاگتی آنکھ کا خواب عذیز تر رہتا ہے جب کہ آپ اس پہر کی ”گرمی “میں دکھائے جارہے ہو ‘ہم تو افسانے پڑھنے سے مشکلات کے پردوں میں چھپی حقیقی داستانیں تلاش کرنے کو ترجیع دیتے ہیں‘آپ کو بلا ٓخر یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ دنیا بھر کے سامنے پاکستان کو نوبل انعام ملناایک اچھا اقدام ہے ، لہذا تم بھی تو خوش ہو جاؤ کہ یہ نوبل جن کی وجہ سے ملا ہے وہ بھی تو اس ملک کے ہی ہیں ، کیا ہوا جو اب ”پرہیزی “نسخے استعمال کرنے لگے ہیں مگر” حکیم صاحب“جب چاہیں گے‘ ان کے ”برانڈ “کی ادویات نہ صرف پینی بلکہ ان کے ”منجھن “تک فروخت کرنے پڑیں گے۔


ہمارے ہاں کا ایک عجیب رحجان ہے جو یہاں کھل کر اول فول بکے اس کو اہمیت بھی حاصل ہوتی ہے اس کی ہزیمت کو بھی عزیمت سمجھا جاتا ہے ‘اسی فارمولا ”غیبی “کے تحت یہ نوبل انعام ملا ہے ‘ورنہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘عبدالستار ایدھی سمیت دیگر بے شمار شخصیات ہیں کہ ان کے نام نوبل انعام ہونا چاہیے تھا ‘یہاں درجن بھر اُدھر اِدھر سے مواداُٹھا کر کتابیں لکھ ڈالنے والوں کے نام گنیزبک میں نہ آسکے ‘اشتیاق احمد نے آج تک جتنا بچوں کے لئے لکھ اب تک ان کا نام اس کتاب کاحصہ بن چکا ہوتا ۔

مگر یہاں اس کو انعامات سے نوازاجاتا ہے جس کی پاکستانیت مشکوک ہو تی ہے جس کا نظریہ ”ضرورت “کے کاسے میں ہر وقت میسر ہوتا ہے ‘اس کاسے کو آگے کیا جاتا ہے اور بس نظریہ بھی بدل گیا وفاداریاں بھی گہری نیند سو جاتی ہیں اور اس کے بدلے شہریت ‘سیاسی پناہ‘ سفیر ‘آسکر ‘نوبل ایوارڈ میسر آجاتے ہیں ۔ملالہ کو نوبل انعام ملنا تھا مل چکا ،کسی کا رونا ‘روٹھا‘بگڑنااورتلملانا کسی فائدے کا ہے نہ ہی فریاد سے اِس نے واپس ہوناہے ،پاکستان کے نام اس خوشی کو تسلیم کرنے کے کیوں نہ ایک بار دشمن کو یہ پیغام دے دیا جائے کہNO BILL کے باوجود نوبل تو پاکستان کے نام ہی ٹھہرا اور اس سے بڑھ کر کیا خوشی کہ نوبل اور وجہ نوبل دونوں پاکستان میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :