ورلڈ پولیو ڈے… چند قابل توجہ نکات

ہفتہ 25 اکتوبر 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

کل انسداد پولیو کا عالمی دن منایا گیا ۔ پولیو ایک وبائی ومتعدی بیماری ہے اور اس کا تدارک بنیادی طو رپر صحت کے شعبے سے متعلقہ عالمی اداروں کا مسئلہ ہے مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بعض عالمی طاقتوں کی مخصوص استعماری پالیسیوں نے انسانی صحت کے اس اہم معاملے کو بھی فکری ونظریاتی معرکہ آرائی کا ایک محاذ سابنا دیا ہے۔ اسلامی دنیا کے بعض ممالک میں پولیو وائرس کے خاتمے کی کوششیں اس جنگ کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔

راقم کو گزشتہ دنوں کراچی اور پشاور میں ”وبائی امراض اور حفظان صحت کے اصول اسلامی تعلیمات کی روشنی میں“ کے عنوان سے دو تین پروگراموں میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ ان سیمینارز میں وبائی امراض کے ماہرین، صحت سے متعلق ملکی وبین الاقوامی اداروں کے ذمہ داران اور دیگر متعلقہ افراد سے اس موضوع کے مختلف پہلووٴں پر تفصیلی سوال جواب کا موقع ملا۔

(جاری ہے)

ان پروگراموں میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ دیگر وبائی امراض کے انسداد کی کوششوں اور مہمات کی معاشرے میں کوئی مخالفت موجود نہیں ہے تاہم انسداد پولیو مہم کے حوالے سے بہت سے قومی حلقوں میں سنجیدہ خدشات اور قابل غور سوالات پائے جاتے ہیں جن کا جواب دینا اور اگر کہیں کوئی غلط فہمی ہے تو اس کو دور کرنا ازحد ضروری ہے۔
انسداد پولیو مہم کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ کیا جاتا ہے ( یہ سوال راقم نے بھی عالمی اداروں کے منتظمین کے سامنے اٹھایا )کہ پاکستان میں دیگر بیسیوں وبائی وغیروبائی امراض پائے جاتے ہیں، یہاں لوگوں کو علاج معالجے کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں، ہمارے دیہاتی علاقوں میں لوگ دس دس کلومیٹر پیدل چک کر سرکاری ڈسپنسری میں پہنچتے ہیں تو وہاں انہیں ڈسپرین کی گولی تک مفت میں نہیں ملتی، آخرکیا وجہ ہے کہ عالمی ادارے ہمارے ہاں صرف پولیو کے خاتمے پر اتنے سنجیدہ ہیں اور ان کی جانب سے اس مہم کے لیے تمام ترغیبی وترہیبی ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔

اب تو لوگوں پر پولیس کے ذریعے زبردستی کی شکایات بھی عام ہیں۔ہماری ساری سرکاری مشینری بھی اس مہم کے لیے حرکت میں آجاتی ہے۔ اس کے جواب میں عالمی اداروں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ دراصل پولیو ان وبائی امراض میں سے ہے جن کے وائرس کی شناخت کرکے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے اور پاکستان، افغانستان اور نائیجریا کے علاوہ باقی تمام ممالک میں یہ وائرس ختم کیا جاچکا ہے۔

عالمی ادارے چاہتے ہیں کہ ان ممالک سے بھی اس وائرس کا خاتمہ ہو تاکہ چیچک اور دیگر بعض امراض کی طرح اس مرض کا بھی دنیا سے خاتمہ ممکن ہو۔ پھر مغربی ممالک کو یہ خدشہ بھی ہے کہ یہ وائرس ان متاثرہ ممالک سے ان کے علاقوں میں پہنچ سکتا ہے، اس لیے وہ اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر ان ممالک پر دباوٴ بھی ڈالتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں اس کے خاتمے پر توجہ دیں۔


پولیو ویکسین کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس سے انسان کے تولیدی نظام میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور اسلامی ممالک میں اس ویکسین کو پلانے پر اصرار کا مقصد شاید مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا ہے۔ اس بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ پولیو ویکسین بھی دنیا کی دیگر تمام دواوٴں کی طرح ایک دوا ہے جس کے تمام اجزاء معلوم اور متعلقہ کاغذات میں درج ہوتے ہیں۔

ان اجزاء کو دنیا کا کوئی بھی آزاد اور غیرجانبدار ماہر صحت چیک کرسکتا ہے، اگر پولیو ویکسین کے اجزائے ترکیبی میں ایسی کوئی چیز ہوگی تو وہ دنیابھر کے مسلمان ماہرین کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔ آج تک کسی مستند ماہر نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ پولیو ویکسین میں تحدید آبادی کے لیے استعمال ہونے والے اجزاء بھی پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے انٹرنیٹ پر موجود بعض مواد کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مواد میں کہیں بھی کوئی ایسا قابل اعتماد اور ٹھوس سائنسی استدلال نہیں ہے اور بعض رپورٹوں میں مجہول اور غیرمعروف افراد اور اداروں کے حوالے دیے گئے ہیں جن کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔


انسداد پولیو مہم کے بارے میں سب سے اہم سوال اس مہم کے جاسوسی مقاصد کے لیے استعمال کا ہے۔ اس بارے میں یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او کے اعلیٰ عہدیدار یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد بعض عالمی طاقتوں کی جانب سے صحت کی مہمات کو جاسوسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے اقدام نے صحت کے شعبے کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر شکیل آفریدی جیسے افراد نے یہاں عالمی اداروں کے کام کو شدید خطرات سے دوچار کردیا۔

عالمی اداروں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے واقعے کے بعد صحت کی عالمی تنظیموں نے صحت کے منصوبوں کے سیاسی وجنگی مقاصد کے استعمال کے سدّباب کے لیے موثر اقدامات کیے ہیں۔
پولیو ویکسین کے بارے میں مذکورہ بالا تصورات اور انسداد پولیو مہم کے جاسوسی مقاصد کے لیے استعمال کے خدشات کے باعث ہمارے ہاں بعض علاقوں میں اس مہم کی مخالفت کی جاتی ہے اور بسااوقات اسے اسلام اور عالم اسلام کے خلاف سازش کا عنوان دے کر مختلف فتوے بھی دیے جاتے ہیں۔

کوئی بھی بات جب اسلام کے حوالے سے کی جائے اور اس میں فتوے کا عنوان آجائے تو اہل علم کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے کی تمام جزئیات کا احاطہ کرکے اس سے متعلق صحیح شرعی موقف عوام کے سامنے پیش کریں۔ محض قیاس آرائیوں اور خدشات کی بناء پر کسی چیز کو ناجائز اور حرام قرار دینا دینی لحاظ سے درست عمل نہیں۔اگر پولیو ویکسین میں واقعی کوئی مضر صحت اجزاء ہیں تو یہ مسلمان ماہرین صحت کی ذمہ داری ہے کہ وہ علماء کو اس سے آگاہ کریں۔

ہمیں ہمیشہ صحیح اور درست بات کی حمایت کرنی چاہیے اور ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہیے جو اسلام کی بدنامی کا باعث ہوں یا جن سے لوگوں کی صحت کے لیے خطرات پیدا ہوسکتے ہوں۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ صحت کے عالمی اداروں نے عالم اسلام کے ممتاز علمی ودینی اداروں اور اہم شخصیات سے رابطے کرکے ان کے ذریعے مسلمان معاشرے میں پائے جانے والے خدشات دور کرنے کی کوششیں کی ہیں۔

مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں دنیابھر سے آئے ہوئے علماء اور ماہرین صحت کی آراء سامنے آچکی ہیں۔ اس طرح چند ماہ قبل اسلام آباد میں پاکستان کی اعلیٰ ترین دینی شخصیات کی سہ روزہ کانفرنس میں اس موضوع کے تمام پہلووٴں پر تفصیلی گفتگو کے بعد علماء پولیو ویکسین پلانے کے حق میں بیانات دے چکے ہیں۔ اس سلسلے میں علماء کے دستخطوں پر مشتمل ایک اشتہار بھی حالیہ دنوں اخبارات میں چھپا ہے۔

کراچی میں منعقدہ حالیہ سیمینار میں ہم نے گزارش کی کہ علماء ومفتیان کرام کے ساتھ ساتھ مسلمان ماہرین صحت کی آراء واقوال کو بھی اس طرح مرتب کرکے اخبارات میں شائع کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو اس بات کا اطمینان ہوسکے کہ شرعی اور طبی دونوں نقطہٴ نظر سے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر ہمارے کسی قاری، کسی ماہر صحت کے پاس عالمی اداروں کے مذکورہ جوابات کے خلاف اور مذکورہ بالا خدشات کے حق میں واضح اور ٹھوس دلائل ہوں تو براہ کرم راقم کو ارسال کردیں۔ان کالموں میں ان دلائل کو جگہ دی جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :