بلاول بھٹو زرداری سبق نہیں سیکھیں گے !

پیر 27 اکتوبر 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

بلاول بھٹو عمران خان سے سبق سیکھ سکتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے وہ نہیں سیکھیں گے۔عمران خان بلاول بھٹو کے لیئے بہترین مثال ہیں ،عمران خان نے 25اپریل 1996میں سیاست کاآغاز کیا ،آپ کو عمران خان کی سیاست اور تحریک انصاف کے پس منظر کو سمجھنے کے لیئے 1996کی سیاسی صورتحال کو سمجھنا ہو گا۔ نوے کی دہائی پاکستانی سیاست میں انتہائی ہنگامہ خیز رہی ہے، 1988کے انتخابات کے نتیجے میں بھٹو حکومت قائم ہوئی اور صرف دو سال بعد صدر اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات لگا کر اسے برطرف کر دیا ،الیکشن ہوئے اور نواز شریف وزیر اعظم بن گے،صرف اڑھائی سال بعد اسی اسحاق خان نے 58-2-Bکا سہارا لے کرنواز شریف کو بھی چلتا کیا ،1993میں بینظیر دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن صرف تین سال بعد 58-2-B کا اژدھا اس حکومت کو بھی نگل گیا۔

(جاری ہے)

یہ ساری صورتحال اسٹبلشمنٹ اور ایجنسیوں کے لیئے نا قابل قبول تھی،ملک عدم استحکام کا شکار ہو چکا تھا ،بیرونی سرمایہ کاری رک گئی تھی، فوج پر تول رہی تھی، قرضے بڑھ رہے تھے اور سفارتکار چھٹیوں پے چلے گئے تھے۔خفیہ ایجنسیاں آگے بڑھیں اور سارا کھیل اپنے ہاتھ میں لے لیا ،اسٹبلشمنٹ اور ایجنسیوں کو ایسے بندے کی تلاش تھی جو سیاسی سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہواور وہ عوام میں مقبول بھی ہو،عمران خان نے ابھی تازہ تازہ ورلڈ کپ جیتا تھی لہٰذا عمران خان سے موزوں کو ئی شخصیت نہیں تھی،چناچہ عمران خان اسٹبلشمنٹ کی بیساکھیوں اور ایجنسیوں کے کندھوں پر بیٹھ کر سیاست کے میدان میں کو د پڑے۔

آج عمران خان اپنے جلسوں میں بڑی جرائت کے ساتھ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے سوا تمام پارٹیاں آمروں کی پیداوار ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی انہی ایجنسیوں کی گود میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔1997کے عام انتخابات ہوئے اور عمران خان اسٹبلشمنٹ کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے،2002کے الیکشن میں عمران خان کو 0.8فیصد ووٹ ملے ،ایک نشست قومی اور ایک صوبائی اسمبلی میں ،2002سے 2007کا عرصہ بدترین آمریت کا دورتھا لیکن عمران خان ڈٹا رہا،لندن اے پی سی میں تمام پارٹیوں نے مشرف کے زیر نگرانی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا لیکن عین وقت پر تمام سیاست پنڈتوں نے ہاتھ جوڑ دیئے،عمران خان کا فیصلہ اٹل تھا چناچہ اس نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ،2008کی زرداری حکومت نے عمران خان کی مقبولیت کے بند دروازے کھول دیئے اور عمران کی سوکھی بیلوں پر پھر سے امید کے پھل لگنے شروع ہو گئے ۔

2011میں مینار پاکستان پر جلسے کے بعد عمران خان نے واپس پلٹ کر نہیں دیکھااور یوں عمران خان سیاست کی مین اسٹریم میں آ گئے۔لگتا یوں تھا کہ اگلا وزیر اعظم عمران خان ہو گا لیکن سیاست کے سینے میں دل کے ساتھ ساتھ دماغ میں عقل بھی نہیں ہوتی چناچہ عمران وزیراعظم نہ بن سکا۔اگر ہم عمران کی اس اٹھارہ سالہ سیاست کا تجزیہ کریں تو ہمیں عمران خان کی جھولی میں سوائے ناکامیوں کے اور کچھ نہیں دکھتا،عمران خان نے ان اٹھارہ سالوں میں ہر طرح کی سیاست کی لیکن بظاہر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔

اگر عمران خان ان اٹھارہ سالوں میں اٹھارہ اسکول ،اٹھارہ کالج اور اٹھارہ یونیورسٹیاں بنا دیتا تو شاید یہ اس کا سیاست سے ذیادہ کنٹریبیوشن ہوتا ۔اگر عمران خان نے ان اٹھارہ سالوں میں تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری کی ہوتی،محنتی اور قابل افراد تیار کر کے اسٹبلشمنٹ اور بیورو کریسی میں بھیجے ہو تے تو شاید آج پاکستان کا آدھا گند صاف ہو چکا ہوتا۔

انقلاب اور تبدیلی جب بھی آتی ہے تو اس کے چشمے تعلیمی اداروں سے پھوٹتے ہیں۔آپ طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنوں کا تجزیہ کریں ،ساری دنیا کہہ رہی ہے اصل دھرنا قادری کا تھا اور قادری کے جیالے کٹنے مرنے کے لیئے تیار تھے ،کیوں ؟ اس کیوں کا جواب منہا ج القرآن کے سینکڑوں اسکول اور منہاج یونیورسٹی ہے ۔ آج لوگ عمران خان کو تحریک انصاف کی وجہ سے کم اور شوکت خانم کی وجہ سے ذیادہ جانتے ہیں اور اگر عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے ساتھ سو دو سو اسکول ،چالیس پچاس کالجز اور آٹھ دس یونیورسٹیاں بھی قائم کی ہوتی تو شاید عمران خان وہ تبدیلی لے آتے جس کے لیئے وہ دردربھیک مانگ رہے ہیں۔


اب ہم بلاول کی طرف آتے ہیں ۔بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے چیئر مین ہیں ،وہ 21ستمبر1988میں پید ا ہوئے،ابتدائی تعلیم کراچی گرائمر اسکول اور فوربلز انٹرنیشنل اسکول اسلام آباد سے حاصل کی ،بینظیر بھٹو کی خود ساختہ جلاوطنی اور دبئی میں قیام کے دوران بلاول بھی دبئی چلے گئے اور راشد پبلک اسکول دبئی میں زیر تعلیم رہے ،یہ اسکول دبئی کے شہزادوں اور امراء کے لیئے خاص تھا،بینظیر بھٹو کی وفات کے بعد وہ 30دسمبر2007میں پارٹی کے چیئر مین منتخب ہوئے اور اب 18اکتوبر کے جلسے میں انہوں نے باقاعدہ سیاست میں آنے کا اعلان کر دیاہے۔

اب بلاول ہمارے مستقبل کے وزیر اعظم ہوں گے اور ہمیں جمہوریت اور بھٹو ازم کا سبق پڑھائیں گے۔وہ جمہوریت جس میں دو سابق وزراء اعظم ،وفاقی وزراء اور سینئر ترین سیاستدانوں کی موجودگی میں ایک ناتجربہ کا ر اور نا سمجھ نوجوان کو پارٹی کا سربراہ اور مستقبل کا وزیراعظم منتخب کیا گیا ہے ۔میرے خیال میں اب گیلانی ،پرویز اشرف اور امین فہیم کو اپنی خوش فہمی دور کر لینی چایئے کہ وہ کبھی وزیر اعظم بن سکیں گے ،آپ کا کام بس اتنا ہی تھا اور اب آپ لوگ آزاد ہیں ،اب آپ پارٹی تبدیل بھی کرلیں تو پی پی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ۔

پی پی کو ایک شہزادہ مل گیا ہے اور ایسے شہزادے پر سینکڑوں جمہوریتیں قربان کی جاسکتی ہیں ، پی پی نے بڑے پیار پوس سے پالا ہے اس شہزادے کو اور اب ہر چھوٹا بڑا اس کے گرد طواف کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔
بلاول بھٹو صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں ،آپ آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور یہ سیاسی ڈرامے بازی آپ کو زیب دیتی ہے اور نہ ہی یہ آپ کے بس کا کھیل ہے ،آپ عمران خا ن کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور عمران خان سے سبق سیکھیں۔

آپ کے پاوٴں ابھی تک سیاست کی دلدل سے پاک ہیں ،آپ نے ابھی تک مفادات کی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے ،آپ کا وجود ابھی تک گندی سیاست سے پاک ہے ،آپ ابھی تک سیاست کی غلاظت سے دور ہیں اور آپ کا لباس ابھی تک سیاست کی بدبودار چھینٹو سے پاک ہے ،آپ دنیا کی صف اول کی یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور آپ کے پاس وقت ،پیسہ ،عزت ،دولت ،شہرت ،وسائل اور اختیارات سب کچھ موجود ہے ،آپ سیاست کے گندے اور غلیظ جو ہڑ سے باہر نکلیں اور تعلیم پر سرمایہ کاری کریں ،آپ پورے ملک میں اسکولو ں اور کالجوں کے جال بچھا دیں ،آپ پاکستان میں دنیا کی صف اول کی یونیورسٹی قائم کردیں ،یقین کریں یہ آپ کا اس قوم پر بہت بڑا احسان ہو گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :