بے ضمیر اِسے نہ پڑھیں

جمعرات 4 دسمبر 2014

Akram Kamboh

اکرم کمبوہ

کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم کسی آسیب کی زد میں ہیں ،ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں ۔صحن ِوطن کے درودیوارپرایک عجیب سے بے چینی اور وحشت چھائی ہوئی ہے ،مکروہ آوازوں کا ایک شور ہے ،کان رسیلے اور سجیلے الفاظ کو ترس گئے ہیں ،اب تویوں محسوس ہوتا ہے کہ بے حسوں کی بستی میں جی رہے ہیں ،جہاں بصارتیں اندھی ، سماعتیں گونگی اور بصیرتیں بہری ہوچکی ہیں ،جس کے پاس جتنی بڑی ذمہ داری ہے وہ اتنا ہی بڑا فرعون ہے ۔

جنہیں دودھ پلاوٴ وہی ناگ بن کر ڈسنے لگتے ہیں ،یہاں کوئی معقول بات سننے کو تیار نہیں ،عوام ریوڑ ہیں اور اس کے نگہبان بھیڑیے بنے ہوئے ہیں ،نہ کسی کا پاس لحاظ ہے اورنہ ہی مروت و شرم ۔کسی بھی دروازے پر دستک دیں سب نے اپنی عقلوں کے زنگ آلودہ آہنی کواڑ بند کر رکھے ہیں ،بے چینی اور بے حسی بڑھتی جارہی ہے ۔

(جاری ہے)

سماج نے ملک سے محبت کرنے والوں اور حساس لوگوں کی عزت نفس ٹھوکروں پررکھا ہوا ہے ،اب تو لگتا ہے کہ لفظ اپنی حدت اورشدت کھوچکے ہیں ،اس ملک میں دو ہی ادارے ایسے ہیں جنہیں اگر صراط مستقیم پر ڈال دیا جائے توبگڑے اور بکھرے مسائل آہستہ آہستہ حل ہونا شروع ہوجائیں گے ،مساجد اور درسگاہیں ،بدقسمتی سے دونوں مقدس ادارے بے حس اور بے برکت لوگوں کے شکنجے میں ہیں،کوئی پوچھتا ہی نہیں،کسی کو کچھ سوجھتا ہی نہیں ،جو ان اداروں میں صاحبِ کردار اور صاحبِ افکار ہیں معاشرہ ان سے کٹ گیا ہے، مہذب دنیا میں لوگوں کو اپنے علاقے کے ممبر پارلیمنٹ کے بارے میں معلوم ہو یانہ ہو لیکن وہ اپنے اساتذہ کا علم ضروررکھتے ہیں ۔

وہ دن خواب ہوئے.... جب اساتذہ کے سامنے معاشرے کا ہر طبقہ گردن جھکاتا تھا ،اسے غیر معمولی تعظیم دیتا تھا ،جس کے نتیجے میں ایسی تہذہب پروان چڑھ رہی تھی کہ معاشرے کے ہرشعبے میں عالی دماغ قائد آرہے تھے ،جب سے ہم نے ایک معمولی کانسٹیبل ،پٹواری اور کلرک کو اساتذہ سے زیادہ اہمیت دینا شروع کی تو تہذیب بانجھ ہونا شروع ہوگئی،مادرِ رحم نے غیور لوگ جننا چھوڑ دیا ہے ، اب شرم و لحاظ کے پیمانے بدل گئے ہیں،وہ لوگ جنہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھاوہ اب پروٹوکول کے نام پر ہماری عزت نفس سے کھیلتے ہیں ،آج ہم نقطہ زوال کے عروج پر ہیں،اب کرنے کو کچھ نہیں رہا، تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں پاتال تک،جو معاشرہ اساتذہ کی تکریم نہیں کرتا وہ تعفن زدہ ہوجاتا ہے ،وہاں دم گھٹنے لگتا ہے،گذشتہ دنوں پیارے دوست ...استاد .....بھائیوں کی طرح مہربان جناب ڈاکٹر طاہر مسعود پر کیا بیتی ؟کس طرح ان کا دل ٹوٹا ؟کیسے ان کی توہین ہوئی؟ لکھتے ہوئے قلم کو بھی شرم آرہی ہے،یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں ہوا جن کی راہوں میں ہم آنکھیں بچھاتے ہیں،جن کے لیے ہم بھوک کی ذلت سہتے ہیں ، صاحبو! جانے دیجئے ،کیا لکھوں،کیسے لکھوں اور کہاں تک لکھوں ،یہاں انصاف ،اخلاق اور احترام کے سانچے ٹوٹ چکے ہیں ،یہاں کمین اور زمین کے نرخ بھاوٴ اوپر ہی اوپر جارہے ہیں اور سماج ذلتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ، استاد محترم کا گذشتہ دنوں ایک خط میرے نام آیا ،وہ خط میں آپ کی خدمت میں بلا تبصرہ پیش کررہا ہوں،کیا ہونا چاہیے ؟کس سے گلہ کریں؟اہل درد کے سامنے یہ سوال ہے ؟میں اس مسئلے کا حل جاننا چاہتا ہوں ،خدارا بے ضمیر لوگ اسے نہ پڑھیں،استادِ محترم لکھتے ہیں
برادرِمحترم اکرم کمبوہ صاحب، سلامت رہیئے!
اس وقت آدھی رات بیت چکی ہے اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔

توہین اور اذّیت کا ایک شدید احساس ہے جس نے آنکھوں اور ذہن کو بے خواب کردیا ہے۔ تفصیل اس کیفیت کی یہ ہے کہ کل یعنی ۹۲ نومبر کو سوا بجے دوپہر میں اپنی فیملی کے ساتھ ملیر کینٹ چھاوٴنی ایک دعوت میں شرکت کے لیے روانہ ہوا۔ چھاوٴنی میں میری اہلیہ کی ماموں زاد بہن رہتی ہیں جن کے میاں ایئر فورس میں کمانڈر ہیں۔ ملیر کینٹ چھاوٴنی کے گیٹ نمبر ۶ میں جیسا کہ طریقہ رائج ہے کہ چھاوٴنی میں داخلے کے ہر خواہش مند کو ایک فار م پر کرنا پڑتاہے، اور اپنا ڈرائیونگ لائسنس یا شناختی کارڈ جمع کرانا پڑتاہے۔

چناں چہ میں نے بھی یہ تفصیلی کوائف والا فارم پر کرکے اور لائسنس جمع کراکے گیٹ پر پہنچا تو باوردی گارڈ نے مجھے اندر جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا، اس نے مجھے ہدایت کی کہ میں جاکر گاڑی میں موجود تمام افراد کا الگ الگ فارم پر کراکر لاوٴں۔ واضح رہے کہ فارم میں شناختی کارڈ کا نمبر درج کرنا لازمی تھا۔ میں نے گارڈ کو بتایا کہ میرے ہمراہ میری خوش دامن اور میری بڑی سالی ہیں، جو کینیڈا کی شہری ہیں اور ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔

اس پر گارڈ نے چھاوٴنی میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس پرمیں نے چھاوٴنی کے انچارج نائب صوبے دار ذوالفقار سے رابطہ کیا۔ میں نے اس سے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ میں کراچی یونی ورسٹی میں استاد ہوں ، شعبہٴ ابلاغ عامہ کا چیئر مین ہوں اور میرے ہمراہ میری خوش دامن محترمہ شکیلہ رفیق خود بھی ایک ممتاز افسانہ نگار ہیں اور متعدد کتابوں کی مصّنفہ ہیں۔

چوں کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ چھاوٴنی میں داخلے کے لیے ہر فرد کے پاس شناختی کارڈ ہونا ضروری ہے اور پھر یہ کہ کینیڈا کی شہری ہونے کی وجہ سے میری خوش دامن اور سالی ناہید خان کے پاس ویسے بھی شناختی کارڈ نہیں ہیں اور ہم اپنے عزیز کمانڈر شاہد کے گھر مدعو ہیں۔ لہٰذا ٓپ ازراہ کرم ہم لوگوں کو جانے کی اجازت دیجئے۔ نائب صوبیدار ذوالفقار نے میری ساری گزارشات سننے کے بعد نہایت رعونت سے کہا کہ جو قانون ہے، آپ کو اس کی پابندی کرنی پڑے گی اور یہ کہ شناختی کارڈ کے بغیر چھاوٴنی میں جانے کی اجازت نہیں مل سکتی ۔

میں نے کہا کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ پہلے بھی چھاوٴنی آچکا ہوں ، پہلے تو یہ پابندی نہیں تھی۔ نائب صوبیدار نے کہاکہ پہلے ایسا ہی تھا، لیکن اب ہمیں شناختی کارڈ کے بغیر کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت دینے کا آرڈر نہیں ہے۔ میں نے ان سے نہایت تہذیب سے عرض کیا کہ دیکھیے ہم لنچ پر مدعو ہیں۔ ہم ایک محب وطن شہری ہیں اور میں تو ایک استاد بھی ہوں آپ لوگوں نے اپنے نئے طریقے کو مشتہر تو کیا نہیں ہے لہٰذا آپ کی یہ پابندی میرے اپنے ہی شہر میں آزادانہ نقل و حرکت کے حق کی نفی ہے۔

آپ مجھے کسی قانون کے تحت چھاوٴنی میں داخل ہونے سے روک نہیں سکتے۔ یہ بات نائب صوبے دار ذوالفقار کو بری لگی اور اس نے ایک بار پھر نہایت اکھڑ انداز میں کہا کہ میں نے کہہ دیا ہے کہ آپ چھاوٴنی میں داخل نہیں ہوسکتے اور آرمی اپنے فیصلے کی پبلسٹی کرنے کی پابند نہیں ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ تو کیا آپ لوگ ہمBloody Civiliansکو صرف اذّیت دینے کے لیے ہیں۔

یہ جملہ نائب صوبے دار صاحب کو گراں گذرا اور اچھی خاصی تلخی کا ماحول پیدا ہوگیا۔ جس کے بعد میں باہر نکل آیا۔ ایک صاحب جو سامنے سے آرہے تھے، میں نے انھیں روکا اور پوچھا کہ کیوں صاحب کیا آپ کے تمام اہل خانہ کا شناختی کارڈ آپ کے پاس ہے؟ اور کیا آپ نے ہر فرد کے لیے الگ سے فارم پر کرلیا ہے۔ اس نوجوان نے کسی قدر ناراضگی سے کہا میں خود فورسز کا آفیسر ہوں۔

لیکن میرا تعلق نیوی سے ہے اور یہاں کا طریقہ خودمیری سمجھ سے بالاتر ہے۔
اکرم کمبوہ صاحب! میں دعوت میں شرکت کیے بغیر آنے کو تو واپس آگیا۔ لیکن ذلّت ، توہین اور تحقیر کے اذّیت ناک احساسات سے میری نیند اڑ چکی ہے۔ میں ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جس کی دو نسلوں نے اس ملک کے لیے قربانی دی ہے۔ صوبہ بہار میں 1946ء میں جو فسادات ہوئے اس میں میری دادی، میرے چھوٹے چچا کا خون اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہوا۔

گھر بار لٹا اور پھر اس خاندان نے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان کے شہر راج شاہی میں پناہ لی۔ 1971ء میں ملٹری آپریشن کے بعد پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں میرا گھر ایک بار پھر مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوا اور ہم بہ مشکل اپنی جانیں بچا کر فرار ہوئے اور جب شہر پر قانون نافذ کرنے والوں کی عمل داری ہوئی تو ان ہی سے خوف زدہ ہو کر ہمارے گھر انے نے کراچی ہجرت کی۔

یہاں میں نے گنّے کی مشین پر کام کیا ، فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کھلونے بیچے اور کسی طرح اپنی تعلیم مکمّل کرکے پہلے صحافت اور پھر درس و تدریس کا پیشہ اختیارکیا۔ میری تمام سسرال کینیڈا میں ہے، میرے چچا اور میرے بھائی بھی امریکا اور مشرق وسطیٰ میں ہیں، دباوٴ اور ترغیب کے باجود میں نے اپنے "روشن مستقبل"کے لیے اپنا وطن چھوڑنا قومی حمیت اور جذبہٴ حب الوطنی کے خلاف سمجھا۔

پچھلے تیس برسوں میں میرے تیار کردہ طلبہ میڈیا میں اہم عہدوں پر ہیں۔ میں نے خود دس کتابیں تصنیف کی ہیں۔اپنی یہ "خدمات"میں احسان جتلانے کی غرض سے نہیں گنوارہا۔ صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا ایک گہرا دوست جو اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں تھا، اسے کمیشن ملا اور وہ آج فوج میں بریگیڈیئر ہے۔ اس کے پاس ڈیفنس میں بنگلہ ہے، پلاٹ ہے۔ بچے اس کے مہنگے ترین اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔

اس کی زندگی کی تمام آسائشیں نوکرچاکر ہر طرح کا آرام میسّر ہے۔ اور میرا حال یہ ہے کہ2016ء میں جب میں ریٹائر ہوں گا تو میرے پاس اپنا اور اپنے بچّوں کا سر چھپانے کے لیے ذاتی مکان نہیں ہے۔ لے دے کہ میرا سرمایہ میری وہ لائبریری ہے جس میں ہزارہا کتابیں میں نے اپنے بچّوں کا پیٹ کاٹ کر خریدی اور اس لیے پڑھی ہیں تاکہ اپنی قوم کے بچّوں کو وہ علم منتقل کرسکوں۔

دوسری طرف میرے بریگڈیئر دوست کو اب تک کسی جنگ میں داد شجاعت دینے کا موقع نہیں ملا۔ ملک ہمارا دو لخت ہوچکا، سیاچین اور کارگل ہاتھوں سے نکل چکے ہیں۔ ہمیں قانون کی پابندی کا درس وہ دیتے ہیں جو دو مرتبہ 1956ء اور1962ء کے دستور کو منسوخ کرچکے ہیں اور 1973ء کے دستور کو تین مرتبہ معطل کرچکے ہیں۔ جو یہ کہہ کر دستور کی توہین کے مرتکب ہوچکے ہیں کہ دستور کیا ہے؟ کاغذ کا ایک ٹکڑا جسے پھاڑ کر میں اپنے ڈسٹ بن میں پھینک سکتا ہوں۔


وہ جو ہمارے محافظ ہیں، خود ان چھاوٴنیوں میں حفاظت سے رہتے ہیں، جہاں پرندہ پر نہیں مارسکتا اور مجھ جیسے شہری بھّتہ مافیا، ڈرگ مافیا، دہشت گردوں اور کرایے کے قاتلوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہم اتنے غیر محفوظ اور بے پناہ ہیں کہ صبح گھر سے نکلتے ہیں تو یہ یقین نہیں ہوتا کہ شام کو زندہ سلامت گھر لوٹ آئیں گے بھی یا نہیں۔ حالاں کہ بجٹ کا ساٹھ فی صد اسی لیے ہمارے محافظوں کو دیا جاتا ہے کہ ہم چین کی نیند سوئیں۔

لیکن ہمارے دن بے آرام اور ہماری راتیں بے خواب ہیں۔ کراچی میں ایک اعداد و شمار کے مطابق اوسطاً ہر سال بارہ ہزار شہری قتل کردیے جاتے ہیں۔ آج تک کوئی قاتل ، کوئی دہشت گرد پکڑا گیا؟ اور پکڑا گیا تو اسے سزا ملی؟
اپنی تمام خدمات اور جذبہٴ الوطنی کے ساتھ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ آزادانہ ملیر کینٹ چھاوٴنی میں داخل نہیں ہوسکتا۔ وہ چھاوٴنی جو اس پاکستان کا حصہ ہے جس کی بنیادوں میں میرے خاندان کا خون شامل ہے۔

کوشش صرف اس بات کی ہے کہ وہ استاد جس نے اپنی زبان اور اپنے قلم سے صرف پاکستان کی خدمت کی، دل سے اس مملکت عزیز سے محبت کی۔ اسے پاکستان سے اور اس کے محافظوں سے متنّفر کردیا جائے۔ اور بیزاری پیدا کرنے کی یہ کوشش دشمنان پاکستان کی جانب سے نہیں، بلکہ ان کی طرف سے ہے جن کے لیے ہمارے شاعروں نے نغمے لکھے ہیں اور گائیکوں نے گیت گائے ہیں، اکرم کمبوہ صاحب! میرا آپ اور آپ کے قارئین سے فقط ایک ہی سوال ہے کہ مجھے بتائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟
ڈاکٹر طاہر مسعود

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :