روش روش ہے وہی انتظار کا موسم

پیر 8 دسمبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

غنڈوں کی غنڈہ فورس(پولیس فورس ) کے ہاتھوں اندھوں کی پٹائی ، اے،آر،وائی کے دو نمائندوں کے ساتھ ریاستی طاقت کا شرمناک مظاہرہ
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
گزشتہ پچیس تیس سال کا تجربہ اس بات کا گواہ ہے کہ سنگلاخ پتھروں سے ٹھنڈے میٹھے چشموں کی توقع
فقط خوش فہم لوگ ہی کر سکتے ہیں۔

ورنہ حاصل ِتجربہ تو یہی ہے کہ ِ
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم ، بہار کا موسم
اگر موجودہ نظام ِحکومت کوئی خالصتاً جمہوری ہوتا ، جس میں کوئی اپوزیشن بھی ہوتی تو یہ سوا ل پارلیمنٹ میں بھی اُٹھایا جا سکتا تھا کہ اگر اے۔

(جاری ہے)

آر۔وائی کے نمائندے سمگلر ہیں تو انہیں ریلوے پولیس کو اکٹھا کر کے اُن گانٹھوں کو ان کے سامنے کھولنے کی کیا ضرورت تھی ، جس میں اسلحہ اور نہ جانے کیا کیا تھا ؟ لیکن یہ سوال پارلیمنٹ میں کون اٹھائے ؟ پارلیمنٹ پر پہلے زرداری بابا اور ان کے چالیس چوروں کا راج تھا اور فرینڈلی اپوزیشن نے اُن کی لگام ڈھیلی چھوڑ رکھی تھی اور آج زرداری صاحب موجودہ حکومت کو اپنی فرینڈلی اپوزیشن واپس لوٹا رہے ہیں ِ یعنی مک مکاوٴ کا رشتہ نبھا رہے ہیں، اور زرداری کا تازہ تریں بیان کہ الیکشن ۲۰۱۳ ء ء میں شکست ہماری کرپشن کی وجہ سے ہوئی ہے۔

نہ صرف اُن کی بیڈ گورننس کے مُنہ پر طمانچہ ہے۔اُس دور کی اپوزیشن کے خاموش تماشائی ہونے کے مُنہ پر بھی ایک زناٹے دار طمانچہ ہے۔ اگر اسی کو جمہوریت کہتے ہیں تو سو بار لعنت ہے ۔
سچ یہ ہے کہ جمہوریت نہ صرف ایک بھاری پتھر ہے ، شیشے کا گھر بھی ہے۔اپنے اپنے علاقے کے مسلم لیگی نمائندوں کے ساتھ ذات برادری کی ڈوریوں میں جھکڑے اور کئی دوسرے حوالوں سے اپنے اپنے مفادا ت کے شکار لوگوں کے سوا پاکستانیوں ، بالخصوص نوجوانوں ، جن کی تعداد ملک کی آبادی کے اکثریتی حصے میں بتائی جاتی ہے، کی اکثریت موجودہ نظام ،( جس نے غریبوں پر جینا حرام کر دیا ہے ) سے تنگ آ کر عمران خان کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

ویسے سچ تو یہ ہے کہ جمہوری مزاج کے حوالے سے عمران خان کی غلطیوں کی نشاندہی بھی ابھی سے ہونے لگی ہے۔ مثلاً دنیا نیوز کے کالم نگار ہارون الرشید جو کہ قوم و ملت کے لئے عمران خان کے نیک جذبات کے لئے نرم گوشہ رکھنے کے داعی بھی ہیں۔ ۴ دسمبر کے کالم ’معجزے کا انتظار ‘ میں لکھتے ہیں۔”اپنی پارٹی کے بے پناہ تحرّک اور عوامی پذیرائی کے با وجود عمران خان بھی بعض سنگین مسائل سے دو چار ہیں۔

“ انہوں نے جن مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔اُن میں سے چند انتہائی وزنی ہیں ، لیکن کچھ مسائل کو جب قریبی دوستی کے اخلاقی تقاضوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ حیران کن ہیں۔جن سے عمران خان کو یہ سبق لینا چاہیے کہ اُنہیں جمہوریت کا علمبردار ہونے کے رشتے سے اپنی پارٹی کے ممبران کو اتنی ہی اہمیت دینی پڑے گی، جتنی وہ کرکٹ ٹیم کی کپتانی کے زمانے میں اپنی ٹیم کے ہر ممبر کو دیتے تھے کہ کامیاب سیا ست بھی ایک ٹیم ورک ہی سے تعلق رکھتی ہے ۔

جس میں عزت اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے ٹیم ممبران پر اعتماد اور مشاورت سب سے پہلی شرط ہے ۔ اپنے زمانے کے سٹار بیٹس مین انضمام الحق چند برس پہلے اپنے ایک ٹی۔وی انٹر ویو میں بتا رہے تھے۔” ورلڈ کپ ۹۲ ءء کے ابتدائی میچوں میں میری کار گزاری بہت ناقص رہی تھی، جس وجہ سے میں شدید قسم کی مایوسی کا شکار ہو رہا تھا۔ ہم فائنل کھیلنے جا رہے تھے اور میں عمران خان سے چھپتا پھر رہا تھا،جو جہاز میں میرے ساتھ والی سیٹ پر آ بیٹھے ۔

اِس صورت حال سے میں بہت نروس ہوا۔عمران خان کہنے لگے۔’انضمام ! تم نے جوفلاں چوکا مارا تھا۔ اُس مشکل بال پر کمال کا چوکا تھا ۔“ عمران بھائی کے اس ایک جملے نے میرا حوصلہ بڑھا دیا اور میں اپنی مایوس کن کار گزاری کے سبب خود پر چھائے ہوئے مایوسی کے دھندلکوں سے باہر نکل آیا۔ اُس کے بعدفائنل میں میری بہترین کار گزاری کی بنیاد عمران بھائی کا وہ جملہ ہی تھا۔


عمران خان صاحب ! جو عزت و فضیلت آپ کو اللہ نے کرکٹ میں دی تھی۔ قوم و ملت کے لئے آپ کے سماجی کام اور نیک جذبات کے طفیل اللہ سبحان و تعالیٰ نے آپ کو وہی عزت و فضیلت سیاست میں بھی دے دی ہے۔جس کی حفاظت آپ صرف خالصتاً جمہوری اصولوں پرسچائی کے ساتھ کار بند ہو کر ہی کر سکتے ہیں۔جس کا پہلا اصول ہر کام پارٹی ممبران کے ساتھ مشارت سے کرنے میں ہے۔

جو ممبر آپ کے اعتماد کی کسوٹی پر کھرا ثابت نہ ہو رہا ہو۔اس کے بارے میں ، اُس کی غیر موجودگی میں اور دوسروں کے سامنے بات کرنے کے بجائے اپنی شکایت کا اظہار برائہ راست اُس سے کریں۔اگر وہ پھر بھی آپ کے اعتماد کی کسوٹی پر کھرا ثابت نہیں ہوتا تو اُس سے چھٹکارہ حاصل کر لیں۔کسی کے ساتھ بیک وقت اعتماد اور بے اعتمادی کا رشتہ نہ رکھیں۔ ایسے لوگ پارٹی کی ساکھ کے لئے نقصان دے ثابت ہو سکتے ہیں اور سیات میں ساکھ ہی سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔


آج بے شمار لوگ آپ کی پارٹی میں شامل ہونے کے لئے تیار ہیں۔با اصول اور کھرے لوگوں کا انتخاب آپ کے لئے ایک کڑا امتحان ہے۔ اس کے علاوہ خالصتا ً جمہوری نظام کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اب آپ ایک عوامی نمائندے بن چکے ہیں اور آپ عوام کی پراپرٹی ہیں۔آپ کو جہاں عوام سے پیار ملے گا وہاں کچھ لوگ آپ پر تنقید بھی کریں گے۔ دوسروں کی تنقید کو غور سے سنیں اور پڑھیں۔

صحت مند تنقید پر نہ صرف تنقید کرنے والے کا شکریہ ادا کریں ،اُس تنقید کے مطابق اپنی اصلاح بھی کریں اور بے ڈول دانشوروں کی بے سرو پا تنقید اور مزاحیہ جملوں پر رنجیدہ خاطر ہونے کے بجائے ایک کان سے سنیں اور دوسرے کان سے اسے د ف ع کر دیں۔زبان پر کبھی حرف شکایت نہ لائیں۔کتا بندے کو کاٹ لے تو اس کی خبر نہیں بنتی،ہاں بندہ کتے کو کاٹ لے تو اس کی خبر ضرور بن جاتی ہے۔


حمید اختر (مرحوم ) میرے انتہائی مہربان دوستوں میں سے تھے۔جنہوں نے مجھے سختی کے ساتھ کسی کے کالم کے جواب میں کالم لکھنے سے منع کیا تھا۔لیکن دوسری طرف بے شمار صحافی ہیں جن کے اوٹ پٹانگ کالم پڑھتے ہوئے مجھے ساٹھ کی دھائی کا ایک واقعہ یاد آجاتا ہے۔ اُردو ڈائجسٹ کے مدیر جناب الطاف حسن قریشی نے ترکی کے وزیر اعظم ویمرل (ان کا پوارا نام یاد نہیں رہا ) کا انٹر ویو لیتے ہوئے پوچھا۔

”صحافت کے بارے میں آپ کا خیال ہے ؟“ ویمرل کا جواب تھا۔”صحافت کو بالکل آزاد ہونا چاہیے۔“ جنرل محمد ایوب خان ( مرحوم ) کو آزاد صحافت سے یہ شکایت تھی کہ کچھ غیر ذمہ دار صحافی سوسائٹی میں غلط فہمیاں پیدا کرتے رہتے ہیں۔بس تو ایوب خان مرحوم کی اسی شکایت کے پیش نظر الطاف حسن قریشی صاحب نے دوسرا سوال کیا۔” صحافت کو آزاد چھوڑنے کی شکل میں اُن صحافیوں کا کیا بنے گا، جو اپنی غیر ذمہ دارانہ صحافت سے معاشرے میں غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں ؟“
ویمرل کا جواب تھا۔

”ایسے غیرذمہ دار صحافیوں کے خلاف جب ریاستی طاقت استعمال نہیں کی جائے گی تو اُنہیں دوسرے صحافی پکڑ لیں گے۔لیکن اگر آپ اپنے خلاف لکھنے والے صحافیوں کے خلاف اپنی ریاستی طاقت کا استعمال کریں گے تو اس صورت میں دوسرے صحافی بھی ریاستی طاقت کے خلاف ہو جائیں گے ‘ ‘ کم و بیش پچاس برس سے بھی زیادہ پرانی بات ہے۔من و عن تو یاد نہیں لیکن اُس انٹر ویو کا پیغام یہی تھا۔

ُٓلیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں صحافیوں کی اکثریت کسی صحافی کے خلاف لکھنے کو شجر ممنوعہ قرار دیتی ہے۔جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ صحافیوں میں نظریاتی جنگ ضرور رہنی چاہیے۔لیکن نظریاتی جنگ اسی صورت ہو سکتی ہے جب کہ شاعر، ادیب اور صحافی سب سے پہلے یہ فیصلہ کریں کہ وہ اپنے معاشرے کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔اگر وہ اپنے معاشرے کو عدل و انصاف اور انسانی حقوق میں مساوات کا حامل معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے تو پھر انہیں اپنے نظریات کو عدل و انصاف اور مساوات کے ساتھ وابستہ کر لینا چاہیے اور کبھی اور کسی بھی مصلحت کے تحت اپنی کسی تحریر میں اپنے نظریات کی نفی نہیں کرنا چا ہیے ۔

لیکن اِس جہاد میں بھی توازن کا خیال ضرور رکھنا چاہیے ،یعنی جسے پسند کرو ، اُس کی حمایت اور جسے برا سمجھو ، اُس کی مخالفت میں حد سے نہیں بڑھنا چاہیے۔“
میں نے ایک افسانہ ”ماں “ لکھا تھا جوفیض صاحب کی فلسطینی بچے کے لئے نظم
مت رو بچے
رو رو کے تیری ماں کی آنکھ لگی ہے۔
سے ماخوذ تھا۔پرانی بات ہے ،1980 کی دھائی میں اُردو ڈائجسٹ میں شائع ہو چکا ہے۔

اشاعت سے پہلے میں نے وہ افسانہ فراز# صاحب کو پڑھ کر سنایا اور پوچھا۔”آپ کو یہ افسانہ کیسا لگا ہے ؟“
اُن کا جواب تھا۔ ”لکھنے کے اسلوب کا دامن بڑا وسیع ہے۔لیکن اسلوب سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ نے لکھا کیا ہے ؟ دلوں پر اثر صرف سچی بات ہی کا ہوتا ہے۔“
بس تو میری کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ سچ لکھ سکوں۔ کم علمی کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے تو کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مکمل ذات صرف اللہ سبحان و تعالی کی ہے۔

ہاں ایک بات کی قسم کھا سکتا ہوں کہ میں نے لکھنے میں کبھی بھی کسی intellectual dishonesty سے کام نہیں لیا۔دوسری بات یہ کہ ْ عدل و انصاف اور مساواتی حقوق کی دھجیاں اڑانے والے ظالموں کی مخالفت میں بھی کوشش یہی ہوتی ہے کہ حد سے نہ بڑھا جائے۔اُن کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر ان کا مذاق نہ اڑایا جائے کہ ایسی اوچھی حرکتوں سے انسان لکھاڑی سے زیادہ مسخرہ لگتا ہے۔

ویسے بھی صنف ِنثر نگاری میں سب سے مشکل مزاح نگاری کی صنف ہے۔جگت کو مزاح نہیں کہتے،لیکن پاکستان میں لوگ کسی سے مخالفت میں ساری حدیں پھلاند جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے جلسے کراچی میں شرمیلا فاروقی کو ”جیوے جیوے بھٹو “ پر با قاعدہ ٹھمکے لگا کر ناچتے اور گاتے دکھایا گیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کے قبیلے کے لوگوں کو وہ ٹھمکے نظر نہیں آئے۔

لیکن عمران خان کے جلسوں میں ابرار حسن اور عیسیٰ خیلوی کے گانوں اور عمران خان کی تقریروں کے جواب میں جوش و خروش کے ساتھ فضا میں ہاتھ لہرا لہرا کر نعرے لگاتے ہوئے بچے اور بچیوں کے ناچ ضرور نظر آ جاتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کی پریشانی تو سمجھ میں آتی ہے۔عمران خان کی عدل و انصاف اور مساوی حقوق کی پالیسی پر قربان ہونے والے پاکستانیوں کا ہجوم دیکھ کر انہیں اپنی مولویت کا مستقبل خطرے میں نظر آ رہا ہے۔

خیر چھوڑیں مولانا فضل الرحمن دو چار وزارتیں جن کی قیمت ہے۔کا ذکر وقت کا زیاں ہے۔کوئی اس سے پوچھے ،جس پاکستان کو بنانے کی غلطی میں تم شریک نہیں تھے۔اس پاکستان میں تم لوگوں نے آنے کی ہمت ہی کیوں کی تھی ؟ اس لئے کہ ہندوستان میں اِن کی مولویت کا چراغ نہیں جل سکتا تھا، ہندوستان میں وہ اپنی داڑھی میں چھپی ہوئی خوشامدی اور عیار مسکراہٹ سے وزارت نہیں لے سکتے تھے۔

لیکن اس سے یہ سوال پوچھے گا کون ؟ یہاں پاکستان کے ساتھ سب کا رشتہ لوٹ کھسوٹ کا اور پاکستانی عوام کے ساتھ ووٹس لینے کے لئے جھوٹے وعدوں کا اور اُن کے حقوق کو مفلوج کرنے کے سوا کوئی رشتہ نہیں ہے۔یہاں تک کہ اگر کوئی مظلوم اپنے حق کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اُس مظلوم پر ظلم و بربریت سے باز بھی نہیں آتے۔
ہاں عمران خان کا 30 نومبر بھی گزر گیا ہے۔

لیکن کوئی حکمرانوں سے پوچھے کہ ان کے دلوں پر خوف و حراس کے کیسے نقوش چھوڑ کر گیا ہے ؟ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف اختیارات کی طاقت کے نشے میں بد مست ہاتھی بنے ہوئے ہیں اور عمران خان بظاہر ُان کے سامنے چوہئے سے بھی چھوٹے نظر آتے ہیں۔لیکن صرف بصیرت سے محروم لوگوں کو،لیکن جو لوگ سچائی اور حق کی طاقت پر ایمان رکھتے ہیں۔انہیں عزم و استقلال کا پہاڑ عمران خان ہی نظر آتے ہیں اور انشا اللہ جیت سچائی ہی کی ہو گی۔جب جنرل محمد ایوب خان کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو(شہید) نے اپنی تحریک چلائی تھی تو وہ بھی چند دنوں یا ہفتوں میں کامیاب نہیں ہو گئی تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :