ملالہ اور خود اعتمادی

جمعہ 12 دسمبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسف زئی نے کل جب امن کا نوبیل انعام حاصل کیا تو پاکستانی قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ملالہ نے اپنی تقریر میں برملا اعتراف کیا کہ اس کے اساتذہ نے اُسے خود پر اعتماد کرنے کا ہنر سکھایا۔کسی قوم کی مضبوطی کا بنیادی نقطہ اُس قوم کے لوگوں کا خود اعتماد ہونا ہے۔ہٹلر نے اپنی الیکشن کمیپن میں کہا تھا کہ عوام سب طرح کا علم و ہنر چاہتے ہوئے بھی کمزور دل کم ہمت ڈرپوک اور عملی طور پر ناکارہ بنتے چلے جارہے ہیں۔

یہاں تک کہ دنیا بھر کی آزاد قوموں نے جرمنوں کے متعلق یہی رائے قائم کر لی تھی کہ ایک جرمن کسی چیز کواپنے لئے مفید و کارآمد سمجھ کر اُس کے پانے کی خواہش تو ضرور کر سکتا ہے لیکن اس کی قوتِ ارادی اتنی کمزور ہے کہ اُسے حاصل کرنے کے لئے کوئی سرگرم کوشش نہیں کر سکتا اور کرتا بھی ہے تو اسے جاری رکھ کر آخر میں پوری پوری کامیابی حاصل کرنے کی ہمت نہیں دکھا سکتا۔

(جاری ہے)

سامان جنگ کی کسی کمی نے نہیں بلکہ قوتِ ارادی کی اس کمی نے ہی آج ہمیں اس حالت کو پہنچایا ہے کہ ہم کہیں بھی مضبوطی اور مستقل مزاجی کے ساتھ مقابلہ نہیں سکتے۔ یہ کمزوری ہماری قوم میں بہت گہرائی تک اثر کرچکی ہے اور یہی ہمیں کسی خطرے کے وقت کوئی زبردست فیصلہ کرنے سے روکے رکھتی ہے اور طرح طرح کے اندیشے ہمارے دلوں میں پیدا کرتی رہتی ہے۔اُس نے مزید کہا کہ آج کل ہر طرح کی ذمہ داریوں کی انجام دہی سے ہمیں جو خوف آتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اس کی تمام ذمہ داری اس تعلیم پر ہے جو ہمارے نوجوانوں کو دی جاتی ہے اور جو ہماری زندگی کے ہر صیغے میں ایک پرانی بیماری کے طور پر گھر کر گئی ہے۔

اس لئے جیسے کہ ایک قومی حکومت کو قوم کے ہر فرد بشر کے دل میں ارادے اور فیصلے کی طاقت پیدا کرکے اسے نشو و نما دینا چاہیے بالکل ویسے ہی اسے بچپن کے ابتدائی زمانے سے نوجوانوں کے دلوں میں پورے پورے جوش مسرت کے ساتھ ذمہ داریوں کا بار اپنے سر لینے نیز اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا کھلے دل سے اعتراف کرنے کی ہمت و جرات بھی پیدا کرنی چاہیے۔سکولوں میں گھوٹا بازی سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی کسی میں طاقت ایجاد پیدا نہیں کر سکتا۔

اس کا تعلق تو اندرونی ذہانت و قابلیت سے ہوتا ہے مگر آج جرمنی میں اس کی کچھ بھی قدروقیمت نہیں۔اس لئے اس پہلو میں سخت احتیاط اور جدوجہد سے کام لینا ہوگا۔ حکومت کو ہمیشہ اس اصول کو مد نظر رکھ کر کام کرنا ہوگا کہ ایک معمولی سا تعلیم یافتہ اور تندرست جسم نیز پختہ پاکیزہ چال چالن والا نوجوان جو پرمسرت اور خود اعتمادی اور قوتِ ارادی سے بھر پور ہو ،ملک و قوم کے لئے بدرجہا بہتر اور کارآمد ہے بہ نسبت ایک کمزور اور دائم المریض شخص کے خواہ اس کے پاس یونیورسٹی کی اعلٰی ڈگریاں کیوں نہ ہوں ۔

اس لئے ایک قومی حکومت کے زیرِ سایہ جسمانی نشو ونما اور تربیت کا کام پرائیویٹ اشخاص کے سپرد نہیں ہونا چاہیے اور اس قومی ضرورت میں دوسرا یا تیسرا درجہ دے کر بچوں اور نوجوانوں کے والدین کے لئے ہی چھوڑ دینا چاہیے بلکہ اسے نسل کی برقراری و مضبوطی کے لئے سب سے زیادہ ضرور سمجھ کر سب سے اول درجہ دیا جانا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر پورے پورے غورو خوض سے دیکھا جائے تو حکومت کی ہستی ہی صرف اس کی حمایت اور حفاظت کے لئے ہوتی ہے اور حکمرانوں کی کسی ملک و قوم کو ضرورت ہی کیا ہے۔

لہٰذا ہر ایک قومی حکومت کو اپنی تعلیمی کام کو اس طرح تقسیم کرنا چاہیے کہ بچوں کے جسم اپنے بچپن کے ابتدائی زمانے سے ہی آئندہ زندگی کی سختیوں کو برداشت کرنے اور جھیلنے کے قابل بنائے جا سکیں۔ اس امر کی خاص احتیاط رکھنا چاہیے کہ کہیں ڈرپوک اور آرام طلب گھر گھسوؤں کی نسل نہ پیدا ہو جائے۔ ہمارا درمیانہ طبقہ اپنی خرابیوں کے لحاظ سے اب اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے اور اس میں انسانیت کی بہتری و بہبودی کے لئے کوئی زبردست جدوجہد کرنے تک کی طاقت بھی بالکل نہیں رہی۔

یہ حالت بے حد بری ہے اور میری رائے میں اس کا باعث کوئی دیدہ دانستہ عیب نہیں۔سامان جنگ کی کسی کمی نے نہیں بلکہ قوتِ ارادی کی اس کمی نے ہی آج ہمیں اس حالت کو پہنچایا ہے کہ ہم کہیں بھی مضبوطی اور مستقل مزاجی کے ساتھ مقابلہ نہیں سکتے۔ یہ کمزوری ہماری قوم میں بہت گہرائی تک اثر کرچکی ہے اور یہی ہمیں کسی خطرے کے وقت کوئی زبردست فیصلہ کرنے سے روکے رکھتی ہے اور طرح طرح کے اندیشے ہمارے دلوں میں پیدا کرتی رہتی ہے۔

ہٹلر نے پچاسی سال قبل قوتِ ارادی کی اہمیت کو سمجھ لیا تھالیکن ہم نے آ ج بھی قوتِ ارادی کو سنجیدگی پوری سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شخصی نشونما (Personality Development) کی تربیت کو ہر سطح پر عام کیا جائے۔سکولوں میں اسے تعلیم کا حصہ سمجھا جائے اور تقاریر و تقاریب کے ذریعے خود اعتمادی پیدا کرنے کا احتمام کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :