شہید طالب علم کی ماں کا نوحہ

پیر 22 دسمبر 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

سکول کی کوئی بھی یونیفارم ہو اور اس پر کسی بھی رنگ کا کوٹ یا سویٹر پہنا ہو،چمکتے ہوئے سیاہ بوٹ پہنے ہوں اور ٹائی ہو یا پھر چھوٹا ڈوپٹہ لپٹا ہو، ایسے بچے بہت ہی پیارے اور دلارے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو ان کی معصومیت اس سکولوں کی یونیفارم میں اس قدر ابھر جاتی ہے کہ خواہ مخواہ کھڑے کو ہو کر ان معصوم پھولوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہنے کو دل چاہتا ہے،انسانی فطرت ہے کہ پیاری اور خوبصورت چیزیں ہر مرد و عورت کی کمزوری ہوتی ہیں خاص کر پیارے سے بچوں کو دیکھ کے چلتے قدم رک جاتے ہیں اور آنکھیں ساکت ہو جاتی ہیں دل کرتا ہے کہ ایسے بچوں کو والہانہ پیار کیا جائے۔

یہ دل میں پیار اسی ذات باری کا ہی تحفہ ہے جس نے ان پیارے پھول جیسے بچوں کو پیدا فرمایا۔

(جاری ہے)

صبح کے وقت سڑکوں پر سینکڑوں کی تعداد میں ایسے بچے اپنی ماؤں،باپوں،بہن بھائیوں کے ساتھ جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک ہاتھ میں بیگ اور اس میں علم کی بھوک مٹانے کے لئے کتابیں اور پیٹ کی بھوک کو ختم کرنے کے لئے لنچ بکس جو ان کی پیاری ماں بہت پیار سے بنا کر دیتی ہے کہ میرا بچہ یا بچی بھوکی نہ رہے۔

اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی ہوتی کہ بیٹا جب بھوک لگے تو فورا کھا لینا۔ ماں کے جزبہ کو اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ وقفہ ہتا ہے یا نہیں، اس کو بس یہی فکر ہوتی ہے کہ اس کی جان کا ٹکرا،آنکھوں کی ٹھنڈک اور گھر کا راج دلارا بھکا یا بھوکی نہ رہے۔سولہ دسمبر کی صبح ایسی ہی سینکڑوں ماؤں نے اپنے اپنے جگرگوشوں کو ،گھر کے پھولوں کو اپنے اپنے گھروں سے روانہ کیا، جانے سے پہلے بیگ اچھی طرح دیکھے بھالے کہ کوئی کتاب،پینسل یا کاپی گھر نہ رہ جائے کہ ان کے جگر کے ٹکرے کو ڈانٹ نہ سننے پڑے۔

۔ماں اس کے چمکتی پیشانی کا بوسہ لیتی ہے، باپ کو دیکھ کر بولتا ہے کہ پاپا خدا حافظ ، بہن بھائی کو دیکھ کر ہونٹوں پر مسکان کے ساتھ ہاتھ ہلا کر خدا حافظ اور سکول کی طرف اس مقصد کے لئے چلے جاتے ہیں جس بارے پیارے نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر تم کو علم کے لئے چین بھی جانا پڑے تو علم حاصل کرو،بس اپنے اس پیارے نبیﷺ کے فرمان کی تعمیل میں پشاور کے آرمی پبلک سکول کے ہونہار،پیارے بچے اور بچیاں سکول پہنچ جاتے ہیں، روز کے معمول کے مطابق سکول کا سلسلہ جاری تھا کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس سکول پر اب بس قیامت صغریٰ آنے والی ہے۔

شیطان انسانی طالبانی شکل میں اس سکول پر حملہ آور ہونے والا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ قیامت برپا ہو گئی جس بارے سنا تھا لیکن دیکھی نہ تھی۔بدقسمت آنکھوں نے وہ نظارے دیکھے کہ بس خدا کی پناہدنیا حیرت و خوف کے ساتھ دم بخود تھی۔آنکھیں ساکت ہوگئیں، دل دھڑکنے بھول گئے،کانوں کی سماعت ختم ہوگئی ایسا لگا کہ روز اعمال آپہنچا۔اور شیاطین طالبان نے بر بریت اور خون ریزی کا بازار گرم کردیا ایسا تو ہم سب نے کتابوں میں ہی پڑھا اور بڑوں سے سنا تھا کہ چنگیز خاں اور ہلاکو خاں ایسے ہی کیا کرتے تھے سینکروں برس پرانی یہ خونی حملہ آج اکیسویں صدی میں بدقسمتی سے پاکستان میں پھر اقوام عالم نے دیکھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے ماؤں کے جگر گوشے کون میں نہلا دئے گئے،معصوم سے پھول اور کلیوں کو بیدردی کے ساتھ مسل دیا گیا علم و عرفان کی جگہ ایک ایسی مقتل گاہ میں بدل گئی ۔آرمی پبلک سکول میں ہونے والے اس بدترین سانحے کی مذمت کے لئے الفاظوں کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی ایسے الفاظ ہیں جو اس درد و غم کو بیان کر سکیں۔اس کا مداوا کوئی نہیں کرسکتا اور نہ ہی ممکن ہے۔

28مئی2010کو لاہور میں بھی ایک ایسا ہی انسانی جانوں کا سانحہ ہوا تھا اسوقت ایک عبادت گاہ میں ان لوگوں کی خون کی ہولی کھیلی گئی تھی جو اللہ کی عبادت کے لئے جمع تھے اور اب سکول میں کھیلی گئی جہاں بچے علم کے حصول کے لئے جمع تھے۔لاہور سانحہ کے بعد اگر اس وقت انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کر دئے جاتے اور اس کو بھی قومی سانحہ تصور کیا جاتا تو یہ سانحہ ہر گز نہ ہوتا،اب مزید کسی تیسرے سانحہ سے بچنے کے لئے اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے،پاکستان اور اس کی پارلیمنٹ کے اندر بیٹھی ان کالی بھیڑوں کو پکڑنے اور سانپوں کے سر کچلنے کی ضرورت ہے ورنہ اب کسی کابچہ بھی محفوظ نہیں آج یہ بھی انکشاف ہوا کہ بچے بھی سانجھے ہوتے ہیں۔

ان کا کوئی مذہب،عقیدہ۔رنگ،قوم نہیں ہوتی۔بچے صرف بچے ہیں،ان سب کا دکھ سانجھا ہوتا ہے،لیکن اب اپنوں اور غیروں کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔پشاور کے بچوں کی شہادت پر نہ امہ امہ کی رٹ لگانے والے عربوں کے بچے روئے اور نہ ایرانی بچے، نہ چین کے بچے ۔صرف انڈیا کے بچوں نے بھرپور دکھ و غم کا اظہار کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عجب سی بے سروسامانیاں ہیں۔۔۔۔۔

۔میرا گھر ہے میری حیرانیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میری بیوی کی آنکھیں جم چکی ہیں۔۔۔میری امی کی نبضیں تھم چکی ہیں۔۔۔۔میرا بھائی بھی چڑھ کر بولتا ہے۔۔۔۔۔میرے نوکر کا بھی خون کھولتا ہے۔۔میرا ابو بھی شرمندہ سا ہے کچھ۔۔۔۔وہ زندہ ہے،،،یا پھر زندہ سا ہے کچھ۔۔۔۔پڑوسی خوف سے سہما ہوا ہے۔۔۔محلہ۔۔۔۔جل بھجا سا خیمہ ہوا ہے۔میری بہنیں کہیں گم سم سی پڑی ہیں
میری آنکھیں بھی ٹی وی پر گڑی ہیں۔

۔۔۔۔یہ گل بوٹے تھے،پتھر ہو گئے۔۔۔۔میرے بچے پشاور ہو گئے۔عاشق جعفری صاحب نے یہ نظم انڈیا سے بھجوائی ہے۔ ای میل کے ذریعے مجھے چند نظمیں وصول ہوئیں ہیں جن میں اس سکول کے بچوں بارے ماؤں نے ایک ماں کا غم ،دکھ،درد بیان کیا ہے،یہ وہ نوحے ہیں جو ہر اس ماں کی آواز ہیں جس نے بچوں کو جنم دیا ہوا ہے۔میں اکیلا اتنا مضبوط نہیں کہ اس کو پڑھ کر برداشت کر سکوں،آپ بھی اپنی آہیں،سسکیاں میرے ساتھ شامل کریں۔

نویں جماعت کے شہید طالب علم کی ماں کا نوحہ،،، بیٹا سوری، آج جب تو اسکول چلا گیا تو میں گھر کے باقی کاموں میں،،،،ایسی ،،الجھی،،کہ تمھاری بریک فاسٹ والی پلیٹ بھی نا دھو سکی۔۔۔۔۔بیٹا آملیٹ میں نمک زیادہ تھا نا۔۔۔بیٹا،،پتہ نہیں کیوں میں آج صبح سے ہی حواس باختہ تھی۔۔۔۔گزری شب بھی کروٹیں بدلتے گزری۔۔تمہارے ڈیڈی نے بھی موڈ آف کر رکھا تھا آج ۔

۔۔ جانے کیوں۔۔۔بیٹا اب کچھ سوج نہیں رہا۔۔ایک کمرے میں تمہاری خون آلودہ وردی میں لپٹی ٹھنڈی لاش پڑی ہے۔۔۔۔اللہ کا لاکھ شکر ہ،،،،،تیرہ چہرہ گولی سے محفوظ رہا۔۔آنگن میں محلے کی عورتوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔۔۔پسار میں۔۔۔بزرگ بیٹھے کفن کا کپڑا کاٹ رہے ہیں۔۔کچن میں تمہاری بریک فاسٹ والی ان دھلی پلیٹ یوں ہی پڑی ہوئی ہے۔۔۔۔تمارے ڈیڈی کو بھی شام سے میڈیا والوں نے گھیر رکھا ہے۔

۔۔کتنے لوگ بلانے بھیجیں،، سب کہتے ہیں بی بی۔۔۔ چپ رہو۔۔۔ شور مت کرو۔۔انٹرویو ٹی وی پر لائیو جا رہا ہے۔۔۔فارغ ہو لیں،،تو۔۔ ان کو ذرا گلے لگا لوں۔۔۔۔۔سب بہنیں،سہیلیاں اور سکھیاں کہہ رہی ہیں کہ بی بی رو لو۔۔۔۔اسی بہانے شائد یہ آنکھ نم ہو جائے۔۔کچھ سوجھ نہیں رہا۔۔تمھاری چھوٹی بہیں بھی دکھی نہیں ہونگیں، یہیں کہیں بھیڑ میں دبکی پڑی ہوں گی کہیں۔۔۔۔۔کوئی کہہ رہا تھا۔۔۔ کہ۔۔ گھنٹہ پہلے۔۔ وہ تم سے لپٹ کر خوب روئیں، چلائیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ۔۔۔ رونے سے واقعی جی ہلکان ہو جاتا ہے۔۔۔لیکن۔۔۔ میں کیوں رو پا نہیں رہی۔۔۔؟تمہارے ڈیڈی فارغ ہو لیں تو ان کو ذرا گلے لگا لوں۔کچھ بھی تو سوجھ نہیں رہا۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :