طالبان ، پاکستان اور شریعت

پیر 22 دسمبر 2014

Atif Hussain

عاطف حسین

ویسے تو بدقسمتی سے دہشت گردانہ کاروائیاں پاکستان میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اب تک ہزاروں پاکستانی ایسی کاروائیوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ تاہم پشاور سکول پر حملہ اس لحاظ سے اب تک کا بدترین واقعہ ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر بچوں کا بہیمانہ قتل ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
دہشت گردی کی عموماً کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی بلکہ بہت ساری وجوہات مل کر اسے جنم دیتی ہیں۔

پاکستان میں جاری دہشت گردی کے پیچھے بھی معاشی، سیاسی، سماجی اور مذہبی عوامل کار فرما ہیں۔ تاہم دہشت گردوں کی جانب سے بار بار یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کیلئے انکے پیش ِ نطر صرف مذہبی وجوہات ہیں اور اس کے علاوہ وہ کوئی سیاسی یا معاشی فائدہ نہیں حاصل کرنا چاہتے۔

(جاری ہے)

انکا دعویٰ یہ ہے کہ انہوں نے ہتھیار اس لئے اٹھائے ہیں کہ پاکستانی حکومت خدا کی شریعت کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کا ساتھ دے رہی ہے۔

انکے اس دعوے سے عام لوگوں کے ذہن میں فطری طور پر الجھنوں نے جنم لیا ہے اوروہ کھل کر ان کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے تذبذب کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ اسی تذبذب کا نتیجہ ہے کہ طالبان اور ان جیسے دوسرے گروہوں کا عوامی سطح پر مکمل استراد (Rejection) نہیں ہو سکا اور دہشت گردی اب بھی جاری و ساری ہے۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک کسی گروہ یا نظریے کوعوام مکمل طور پر مسترد نہیں کردیتے اس وقت تک اس کا خاتمہ نہیں ہو سکتا ۔


اس صورتِ حالات نے عوام ہی نہیں بلکہ مذہبی خواص کو بھی الجھا دیا ہے۔ کیونکہ وہ نہ صرف اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستانی ریاست اسلامی قانون پر عمل پیرا نہیں ہے بلکہ شریعت کے نفاذ کی جد و جہد کو بھی مسلمانوں کا فریضہ سمجھتے ہیں۔ان دو حقائق کو مدِ نظر رکھا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ مذہبی لیڈران اور انکے پیروکار کیوں طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتے اور انکی غیر مشروط مذمت سے اجتناب کرتے ہیں۔

ان میں سے کچھ کھل کر کہہ بھی چکے ہیں کہ انکی اور طالبان کی سوچ ایک ہے صرف طریقہ کار کا فرق ہے۔ طالبان کے پر تشدد طریقہ کار بھی بعض اوقات یہ توجیہہ کی جاتی ہے کہ چونکہ ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنزز میں انکے بچوں، بھائیوں ، بہنوں کو ناحق قتل کیا گیا ہے اس لئے وہ انتقاماً عام لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
اگرچہ شریعت کے نفاذ کے نعرے میں مسلمانوں کیلئے بڑی کشش ہے لیکن جب اس کی عملی تفصیلات اور نفاذ کی باریکیوں کا سوال پیدا ہوتا ہے تو بہت بڑے بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

مثلاً سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شریعت کی تعریف کیا ہے؟ ہر گروہ کی شریعت اپنی ہے جو کہ اس کے بزگوں کی فقہی تشریحات اور کچھ ثقافتی روایات کا مجموعہ ہے۔ تو پھر کونسی شریعت نافذ کی جائے؟ اس کا عامیانہ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ شریعت کی تعریف میں کوئی ابہام نہیں ہے اور تمام مسالک کے نزدیک شریعت کا ایک ہی مفہوم ہے۔مگر حقائق اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔

مثلاً یہ کہ حنفی شریعت میں عدالتی فیصلوں کی بنیاد حنفی فقہاء کے فتاویٰ پر رکھی جائے گی جبکہ سلفیوں (اہلِ حدیث) کے نزدیک ایسا کرنا شرک ہے۔ اسی طرح بریلوی شریعت اس بات کا تقاضہ کرے گی کہ مزارات اور ان پہ ہونے والے عرس میلوں کی سرپرستی کی جائے جبکہ سلفی اور دیوبندی شریعت میں نہ صرف ان کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی بلکہ ان مزارات کا انہدام اور ان پر ہونے والے افعال پر پابندی ایمان کا تقاضہ سمجھی جائے گی۔

اہلِ تشیع کے سے اختلافات اس سے بڑھ کر ہوں گے۔
اب فرض کر لیں کہ حکومت طالبان کے حوالے کر دی جاتی ہے اور اپنی مرضی کی شریعت نافذ کر دیتے ہیں جس سے ظاہر ہے نہ بریلوی خوش ہوں گے نہ سلفی اور نہ ہی شیعہ۔تو کیا طالبان ان گروہوں کیلئے یہ حق تسلیم کریں گے کہ وہ طالبان کی حکومت کے خلاف انہی کی طرح ہتھیار اٹھا کر جنگ شروع کر دیں؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر وہ موجودہ حکومت کے خلاف کس بنیاد پر ہتھیار اٹھانے کو جائز تصور کرتے ہیں؟
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ جمہوریت کو تو طالبان شرک سمجھتے ہیں لہذا الیکشن وغیرہ کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تو پھر قیادت کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ’ صائب الرائے‘ لوگوں کے اتفاق سے ایسے معاملات طے ہوں گے۔

یہ ایک انتہائی عجیب وغریب تصور ہے۔ یہ کیسے طے ہوگا کہ فلاں شخص صائب الرائے ہے اور فلاں نہیں؟ کیوں کہ دیوبندیوں، بریلویوں، سلفیوں یا شیعوں کا کوئی عالم چاہے اپنی اور اپنے معتقدوں کی نظر میں کتنا ہی صائب الرائے کیوں نہ ہو باقیوں کے نزدیک وہ احمق، گمراہ اور کافر وغیرہ ہی سمجھا جائے گا۔ پھر یہ کہ یہ اختلاف صرف مختلف مسالک کے درمیان ہی نہیں ایک ہی مسلک کے لوگوں کے درمیان بھی ہوگا۔

اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ گروہ در گروہ تقسیم ہوتی چلی جائے گی اور اتحاد کا خواب دھواں ہو جائے گا۔ یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے بلکہ طالبان میں ابھی سے بہت سارے گروہ بن چکے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار بھی ہیں۔
اب تک ہونے والی بحث کے نتیجے میں واضح ہو گیا ہے کہ قیادت کون کرے گا اور کون سی بات شریعت سمجھی جائے گی ایسے دو بنیادی سوالات ہیں جن کو طے کرنے کا اگر کوئی پر امن اور پائیدار طریقہ کار وضح نہ کیا جائے جو ہر سب کیلئے قابل قبول ہو تو فساد کا رستہ کھل جاتا ہے۔

خوش قسمتی سے ایسا ایک طریقہ کار پاکستان میں پہلے ہی سے موجود ہے۔ یعنی یہ کہ تمام لوگوں کی رائے سے انکی قیادت منتخب ہوگی۔ اگر وہ قیادت کسی کو نا پسند ہے تو اسے پوری آزادی ہے کہ وہ اس پر تنقید کرے، اس کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرے، اور اگر لوگوں کی اکثریت اس کی رائے کی تائید کرے تو قیادت سبکدوش ہو جائے گی اور ایسی قیادت آئے گی جسے لوگوں کا زیادہ اعتماد حاصل ہوگا۔

تاہم جب تک پہلی قیادت موجود ہے چاہے کسی کو پسند ہو یا نہ ہو وہ اسکے حقِ فرمانروائی (Writ) کو تسلیم کرے گا۔
اسی طرح ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے پر لوگوں کی قائل کرنے کی کوشش کرے کہ کسی معاملے میں شریعت کا منشا کیا ہے۔ اس طرح سے ہر معاملے میں بہت سی مختلف آراء وجود میں آجائیں گی اور ان میں سے جس رائے کو زیادہ لوگوں کی تصویب حاصل ہو گی اسے عوام کے نمائندے قانون کی شکل دے دیں گے۔

ایک شے کے قانون بن جانے کے بعد بھی مجھے یہ حق حاصل رہے گا کہ اگر میں اسے غلط سمجھتا ہوں تو اپنے دلائل لوگوں کے سامنے پیش کروں اور انہیں اپنی رائے کا قائل کرنے کی کوشش کروں ۔ اگر لوگوں کی اکثریت میری رائے کی قائل ہو جائے تو قانون بھی عوامی نمائندوں کے ذریعے تبدیل ہو کر میری رائے کے مطابق ہو جائے گا۔ تاہم جب تک کوئی قانون موجود ہے اس وقت تک مجھے اس کی پابندی کرنی ہو گی چاہے میں اسکو غلط ہی کیوں نہ سمجھتا ہوں۔


یہ واحد ایسا نظام ہے جس میں ہر جھگڑے کا پرامن تصفیہ ہو سکتا ہے۔ ۔لہذا درست طریقہ یہی ہے کہ جو بھی شخص جس بھی طرح کا نظام ملک میں چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کو اپنے دلائل سے قائل کرے۔ اگر لوگوں کی اکثریت اسکی بات کی تائید کرتی ہے تو بالکل فطری اور پرامن طور پر اسکی خواہش کے مطابق تبدیلی آجائے گی۔ اس کے برعکس طالبان جس طرح بجائے لوگوں کو دلائل سے قائل کرنے کے بجائے قانون اور پالیسیوں میں بندوق کی نوک پر تبدیلی چاہتے ہیں اس سے سوائے فساد اور قتل وغارت کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

یہ سرتاسر گمراہی ہے جسکی نہ عقلِ سلیم توثیق کرتی ہے نہ خدا کی شریعت۔
جہاں تک تعلق ہے اس توجیہہ کا کہ طالبان ان معصوموں کے قتل کے بدلے میں عام لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز میں مارے گئے تو شاید اس سے زیادہ بری توجیہہ کوئی نہیں ہو سکتی۔ کیا شریعت اس چیز کی اجازت دیتی ہے کہ کوئی ہمارے عزیزیوں کو مار دے تو ہم دوسروں کے عزیزوں کا قتلِ عام شروع کر دیں؟ یقیناً نہیں۔

خدا کی شریعت کی اس چیز کا حکم دیتی ہے کہ ہم کبھی بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیں چاہے ہم پر کتنا ہی ظلم کیوں نہ کیا جائے۔
خلاصئہ کلام یہ کہ طالبان کے نہ صرف طریق کار بلکہ نظریے کی بھی غلطی بالکل واضح ہے لہذا ہم میں سے ہر ایک کہ ذمہ داری ہے کہ وہ بجائے کنفیوژن کا شکار ہونے کے پورے یقین کے ساتھ ان کے خلاف کھڑا ہو تاکہ اس گمراہی، ظلم اور غارت کا راستہ روکا جا سکے جو شریعت کے نام پر برپا کر دی گئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :