”رونگ نمبر“

جمعہ 16 جنوری 2015

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

بہت سالوں بعد ایک بہت شاندار فلم دیکھی ، نام " پی کے " ہے ۔بہت سالوں بعد اس لیے نہیں کہ اس کے پیچھے کوئی مذہبی وجوہات ہیں بلکہ اس لیے کہ پچھلے دو تین سال سے میرے پاس تین گھنٹے ایک جگہ بیٹھ کر ایک فلم دیکھنے کا حوصلہ نہیں تھا ۔
"پی کے " کو دیکھنے کی ایک وجہ اس پر لگنے والے الزامات بھی تھے ، انڈین میڈیا یہ دعوی کر رہا تھا کہ اس فلم پر آئی ایس آئی نے خرچہ کیا ہے ۔

فلم اچھی تھی مگر فلم میں کیا تھا جس نے مجھے اسے ایک شاندار فلم کہنے پہ مجبور کیا ؟ ایک ننگا آدمی جو ایک سپیس شپ سے زمین پر اترتا ہے ؟ ایک ہندو مسلم رومانوی داستان جو یورپ سے شروع ہوتی ہے اور دہلی اور لاہور میں تمام ہوتی ہے ؟ ہلتی ہوئی گاڑیاں یا چمکیلی ساڑھیاں ؟ مذہب کے نام پر خوف بانٹنے والے ڈھونگیوں پر تنقید جو دنیا کا سب سے زیادہ بکنے والا پروڈکٹ ہے ؟ میں تنقید کی بات نہیں کر رہا بلکہ مذہب کی بات کر رہا ہوں جو میرے خیال سے سب سے زیادہ بکنے والا کمرشل پروڈکٹ ہے ؟ نہیں ان میں سے کسی بھی چیز نے مجھے متاثر نہیں کیا ۔

(جاری ہے)

بس ایک لفظ پر میرا ذہن پچھلے آٹھ گھنٹوں سے اٹکا ہوا ہے اور بار بار میں سوچ رہا ہوں کہ یہ چھوٹی سی بات اگر اس فلم کی بدولت ہی اس کا حوالہ دے کر سمجھائی جا سکتی ہے تو کیوں نہیں ۔
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہماری سوسائٹی ، ہمارے نظام اور پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ؟ "رونگ نمبر " جی ہاں "رونگ نمبر "؛ اب آپ پوچھیں گے کیسے ؟ تو اس کا جواب آپ سب خود ہیں اور شائد میں بھی ، شائد نہیں یقینی طور پر میں بھی ۔


ایک شخص سے لیکر ملک میں بسنے والی تمام لوگوں پر اور ایک ادارے سے لیکر تمام نظام پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔سب کے سب رونگ نمبر لگائے جا رہے ہیں ، سب کالیں یا تو ڈراپ ہو رہی ہیں یا کہیں اور مل رہی ہیں ۔جو کوئی کال اپنے اصل نمبر پر مل جاتی ہے اس کا کنیکشن اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ لائن پھر سے ڈراپ ہو جاتی ہے ۔
میں مواصلاتی نظام کی بات نہیں کر رہا ، اس رونگ نمبر والے نظام کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آپ کسی کو کچھ سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ اس بات کا مطلب اپنی مرضی سے نکالتا ہے ۔

اس سے قطع نظر کہ کون کس پوزیشن پر بیٹھا ہے ، سب ہی رونگ نمبر ڈائل کر رہے ہیں ۔
اب آپ حکومت کو لے لیں ، پاکستان میں جہاں بہت سے رونگ نمبر ہیں وہیں ایک رونگ نمبر والا ٹولہ پارلیمنٹ میں ہے ۔یہ خوف بھی بیچتے ہیں اور مذہب بھی ، یہ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور قسمیں بھی کھاتے ہیں ، یہ نظام بدلنے اور ملک سنوارنے کا حلف بھی لیتے ہیں اور ملک کو لوٹتے بھی ہیں ، یہ بیک وقت ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی ، یہ خود ہی منصف ہیں اور مجرم بھی ۔

اگر آپ ایک ہی چھت کے نیچے ہر اس کردار کو دیکھنے کے خواہش مند ہیں کہ جن سے آپ نفرت یا کبھی کبھار پیار کرتے ہیں تو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ، بس اسلام آباد میں جہاں عمران خان کا دھرنا تھا وہیں آس پاس آپکو یہ کردار مل جائیں گے ۔
کیا یہ سب رونگ نمبر ہیں ؟ اگر یہ سچ ہے تو رائٹ نمبر کون تھے ؟ کیا کوئی رائٹ نمبر تھے ؟
یہ سوچتے سوچتے میں اپنے کمرے سے باہر آ کر اپنے گھر کی سٹڈی میں بیٹھ گیا ۔

میں یہی سوچ رہا تھا کہ اگر یہ سب کے سب رونگ نمبر ہیں تو رائٹ نمبر کون تھا ۔میرے آس پاس سالوں کی محنت سے جمع شدہ وہ سینکڑوں کتابیں تھیں جن میں شامل کتب میں سے ایک سیکشن میں میرے سوال کا جواب تھا ۔یہ میرے والد صاحب کا کتب خانہ ہے ، مجھ کند ذہن کے اتنے اچھے شوق نہیں کہ میں اپنے لیے ایک کتب خانہ ترتیب دے سکوں ۔
اس کتب خانے میں ایک سیکشن قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی ، ان کے افکار ، ان کی پاکستان بنانے کی جدوجہد اور ان کے حوالے سے لکھی جانی والی تصانیف پر مبنی ہے ۔

میں نے اپنے سوال کا جواب ان کتابوں میں ڈھونڈا ، اب پتہ نہیں کہ یہ جواب کتنا درست ہے مگر میرا کامل یقین ہے کہ اس جواب میں ہمارے کافی سارے مسائل کا حل موجود ہے ، سب سے پہلے ایک مختصر سوال اور مختصر جواب ؛ سوال: رائٹ نمبر کون تھا ؟ جواب: محمد علی جناح اور وہ تمام جو با کردار لوگ جو سچ بولتے تھے اور جن کی آنکھوں میں ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کے خواب تھے ، جو نہ سنی تھے اور نہ وہابی ، جن کا مسلک پاکستان تھا اور جن کا مذہب امن کا مذہب تھا ، وہ سچے لوگ تھے اور وہی رائٹ نمبر تھے ۔

ان کی کال کی ڈائل ٹون کچھ ایسے تھی :
"کسی کا احسان کیوں اٹھائیں کسی کو حالات کیوں بتائیں
تمہی سے ،ما نگیں گے تم ہی دو گے، تمھارے در سے ہی لو لگی ہے"
سچا آدمی با کردار بھی ہوتا ہے اور آزاد بھی ، وہ جب پالیسی بناتا ہے تو اس کا ہر لفظ سنا جاتا ہے اور اس کی قدر کی جاتی ہے ۔سچا آدمی ڈر پوک نہیں ہوتا ، سچے آدمی کی غیرت اس کا سرمایہ ہوتی ہے اور وہ کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا ، سچا آدمی اگر حکمران بھی ہو تو قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں ۔

افسوس سب ہی رونگ نمبر ہیں کیونکہ سب جھوٹے ہیں ، نا اہل اور بے ایمان ہیں ۔بڑے بڑے حصاروں میں بسنے وا لے یہ چھوٹے چھوٹے لوگ درحقیقت کمزور اور ڈرپوک ہیں اسی لیے اکثر شہروں میں روٹ لگے رہتے ہیں اور یہ کمزور لوگ اس ملک کی گلیوں میں سینہ تانے بندوقوں کے سائے میں اس چوہے کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرتے ہیں کہ جسے ہمیشہ بلی کے جھپٹنے کا خوف رہتا ہے ۔


یہ سب کے سب رونگ نمبر ہیں ، کمزور اور ٹوٹی ہوئی لائنیں ، نہ ڈائل ٹون اور نہ کنیکشن ، بس ڈیڈ لائن والے رونگ نمبر ۔ہر روز ہماری پارلیمان میں بیٹھے یہ رونگ نمبر غلط جگہ کال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کوئی رائٹ نمبر ڈائل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ان سب پر مسلک ، فرقے ، بے ایمانی اور اقربا پروری کا وہ خلاف چڑھا ہوا ہے کہ اگر اسے یہ اتارنے کی کوشش بھی کریں تو اتار نہیں سکتے ۔


پاکستان کی پچھلی آدھ صدی کا غم مفلسی ، بے روز گاری اور بے سکونی ہی نہیں بلکہ نا انصافی اور ان رونگ نمبروں کی اجارہ داری ہے جو جرم کرتے ہیں ، عدا لت لگاتے ہیں ، خود اپنے حق میں فیصلہ دیتے ہیں اور معصوم بن کر پھر سے رونگ نمبر ہی ڈائل کرتے ہیں ۔پاکستان میں اس قدر بد امنی اور اتنے بڑے پیمانے کی بد نظمی کو ختم کرنے کا حل کیا ہے؟ اس کا جواب کوئی رونگ نمبر نہیں دے گا کیونکہ اس کا درست جواب پاکستان کے حق میں ہے مگر ان کے حق میں نہیں جو اس لاشوں کی سوداگری میں مال کما رہے ہیں ۔

یہ رونگ نمبر ہر محکمے میں ہیں ، یہ رونگ نمبر کہیں مذہب کے چوغے میں اور کہیں کسی ٹی وی شو کے ہوسٹ کے طور پر پاکستان سے نفرت کے بیج بوتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کی لائینیں کہیں اور ملی ہوئی ہے ، کنیکشن کسی اور ساکٹ میں لگا ہوا ہے ۔
پاکستان کے مسائل کا حل بہت آسان ہے ۔
پاکستان کے سکیورٹی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے پہلا قدم پاکستان میں رہنے والے افغانوں کو جلال آباد اور قندھار کی سرحد پہ چھوڑنا ہے ۔

اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ وہ دہشت گرد عناصر جو پاکستان میں افغان مہاجر بن کر لوٹ مار ، چوری چکاری اور ہتھیاروں و منشیات کے غیر قانونی کام میں مصروف ہیں ان سے جان چھوٹ جائے گی ۔بہت بار سناہے کہ یہ لوگ انسانی سمگلنگ کرتے ہیں اور نہ جانے کتنے انڈین دہشت گرد انہوں نے پاکستان میں سمگل کیے ہونگے ۔سننے میں آیا تھا کہ شیر پاوٴ اور عبدل رحمان ملک نے افغانوں کو پاسپورٹ دینے اور شناختی کارڈ جاری کرنے میں بہت مال کمایا مگر اس وقت میرے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے اس لیے بغیر کسی پر الزام لگائے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقامی پولیس کو حکم دے کہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے وہ تمام افغانوں کا پتہ کریں، ان کے کاغذات کی پڑتال کریں اور اگر وہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر آباد ہیں تو انھیں باعزت کرزائی( کارزائی) تک پہنچا دیں شائد اس کا منہ بند ہو جائے ۔


پاکستان نے افغانوں کو گھر دیا ، عزت اور احترام کی زندگی دی اور آج وہ پاکستان کو گالیاں دینے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ۔آپ ایک افغان سے پوچھیں کہ
کیا اسے پاکستان میں آنے کا حق ہے تو وہ بولے گا کہ پاکستان تو خالہ جی کا گھر ہے یہاں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ مل جاتا ہے ۔ان افغان بھائیوں نے نہ صرف پاکستان کی داخلی خود مختاری کو نقصان پہنچایا بلکہ ان کی وجہ سے پاکستان دنیا میں بہت رسوا ہو ا ۔

ان کا انخلا ضروری ہے کیونکہ یہ پاکستان کے عوام کو ہی نہیں بلکہ مقامی صنعت اور تجارت کے لیے بھی ایک بہت بڑا چیلنج بن گئے ہیں ۔
دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ حکومت کو فوری طور پر فاٹا کی حیثیت پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔باجوڑ ، مہمند ،خیبر ، اورکزئی ، کرم ، مالاکنڈ، شمالی وزیرستان ، جنوبی وزیرستان کے علاوہ کوہاٹ، پشاور ، بنوں ، لکی مروت ، ٹانک اور درہ آدم خیل کے کچھ علاقے فاٹا اور پاٹاکے حصے ہیں ۔

حقیقت میں فاٹا / پاٹا ایک قابل بحث موضوع ہے مگر مزید دہشت گردی سے بچنے کے لیے ان تمام علاقوں کو "سیٹیلڈ ایریا ز " کا درجہ دیا جائے ماسوائے شمالی و جنوبی وزیرستان اور کرم ایجنسی کے ۔ایجنسی کا درجہ رکھنے والے علاقے صرف دہشت گردوں کے "بریڈنگ گراونڈ " بن رہے ہیں ۔میں نے شمالی و جنوبی وزیرستان اور کرم ایجنسی کو ایجنسی کے درجے پر بحال رہنے کی تجویز اس لیے دی کہ جب باقی فاٹا عام شہری علاقہ بن جائے گا تو آہستہ آہستہ ان علاقوں پر بھی کام کیا جائے اور سارا پاکستان ایک جیسا ہوجا نا چاہیے ۔

اس سے نہ صرف عام پاکستانی کی زندگی میں بہتری آئے گی بلکہ بیرونی عناصر کی ان علاقوں میں مداخلت کو بھی روکا جا سکتا ہے اور اگر دیکھا جائے تو یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے بھی یہ ایک مثبت بہتری ہو گی ۔
تیسرا اہم قدم اور انتہائی ضروری خانہ شماری یا مردم شماری کا فوری حکم ہے ۔پاکستان میں آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی تب سے اب تک کسی کو علم نہیں کہ پاکستان میں کون کہاں آباد ہے ، ایک محدود تخمینے کے مطابق پچھلی مردم شماری سے اب تک پاکستان کی آبادی میں سینتالیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔

اب اس سینتالیس فیصد میں کتنے تیتر ہیں اور کتنے بٹیر کسی کو پتہ نہیں ، جب تک مردم شماری نہیں ہو گی رونگ نمبر ملتے رہیں گے اور ہر دو جانب سے پاکستان میں دہشت گرد داخل ہوتے رہیں گے اور پاکستان کو کمزور بناتے رہیں گے ۔
آخری اور چوتھا قدم پاکستان میں ایک بلدیاتی انتخاب کا انعقاد ہے تا کہ محلہ اور علاقہ کمیٹیوں کی بحالی سے پاکستان کے ہر علاقے میں ان کمیٹیوں کے چیرمین مقامی طور پر مسائل کے حل کو یقینی بنا سکیں ، وسائل کو گراس روٹ لیول تک پہنچانے اور کچھ سیاستدانوں کی اجارہ داری سے جان چھڑانے کا اس سے آسان طریقہ کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔

بلدیاتی الیکشن کرپشن کے خاتمے کا ایک آسان ترین طریقہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
اگر یہ لائن مل گئی تو کافی سارے رونگ نمبر خود ہی بند ہو جائیں گے ، سب کی ڈائل ٹون بدل جائے گی اور پھر کسی دھرنے ، کسی نئے پاکستان یا کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :