درود والے اور بارود والے!!

اتوار 18 جنوری 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

پاکستان میں” درود والے اور ” بارود والے“ بہت مشہور ہو ہے ہیں۔جہاد افغانستان سے لے کر نائن الیون تک اور نائن الیون سے لے کر سانحہ پشار تک…بارود والوں کی ایک لمبی داستان ہے۔درود والوں کی برکت تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے تاہم ”بارود“ والوں کے بارے میں بات ذرا ٹھہر کے کرتے ہیں۔ابھی کچھ تازہ تازہ ہو جائے…جنرل راحیل شریف برطانیہ گئے‘ انکی دفاعی حکام سے ملاقاتوں میں دوطرفہ تعاون‘ مشترکہ فوجی مشقوں اور دفاعی تعلقات کی مضبوطی کے حوالے سے مذاکرات وقت اور حالات کے متقاضی ہیں۔

تاہم برطانیہ میں موجود پاکستان کیخلاف تنظیموں کیخلاف کارروائی‘ دہشتگردوں کی فنڈنگ روکنے کے مطالبات جیسے امور جمہوری حکومت کے کرنے کے کام ہیں۔

(جاری ہے)

بی بی سی نے فوج کی اہمیت اور حیثیت کو ”سوفٹ کو“ سے تعبیر کیا ہے۔ ایسے میں برطانیہ اور امریکہ جیسے جمہوریت کا پرچار کرنیوالے ممالک بھی جمہوری حکومت کے بجائے عسکری قیادت سے معاملات طے کرنے کو مناسب سمجھتے ہیں۔

آرمی چیف جنرل راحیل کی ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات میں سیاسی معاملات پر مذاکرات‘ افغان صدر اشرف غنی اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی جی ایچ کیو میں فوجی قیادت سے ملاقاتیں انکی نظر میں آرمی چیف کی اہمیت کا اظہار ہیں‘ جسے جمہوریت اور جمہوری حکمرانوں کے مستقبل کیلئے خوش آئند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے اپریشن ضرب عضب کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی حکومت کو سفارتی اور خارجہ محاذ پر سرگرم ہو جانا چاہیے تھا‘ حکومت اگر کسی حد تک سرگرم ہوئی تو 16 دسمبر کی بربریت کے بعد ہوئی۔

وہ بھی اے پی سیز اور قانون سازی تک محدود رہی۔پاکستان آج حالتِ جنگ میں ہے اور شاید وطن عزیز کو آج درپیش نازک حالات کا پہلے کبھی سامنا نہیں رہا۔ افغان سرحد دہشت گردوں کی وجہ سے کسی بھی دور کے مقابلے میں زیادہ غیرمحفوظ ہے۔ ایرانی بارڈر سے بھی خیرکی خبر نہیں آرہی۔ مشرقی بارڈر پر بھارتی مہم جوئی میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی سرحدوں پر ایسی گرماگرمی کے درمیان اندرون ملک محاذ پر بھی فوج ہی دہشتگردوں کے ساتھ برسر پیکار ہے۔

بجاطور پر دہشت گردوں کے قلع قمع کیلئے آج جمہوری حکومت اور قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے۔ 16 دسمبر کو دہشت گردوں نے ملٹری پبلک سکول پشاور پر بربریت کرتے ہوئے سینکڑوں بچوں کو خون میں نہلا دیا تو پوری قوم سکتے میں آگئی۔ وزیراعظم نوازشریف عام پاکستانی کی طرح انتہائی دکھی نظر آئے۔ اس موقع پروزیراعظم نوازشریف اور فوجی قیادت نے وطن عزیز کو دہشت گردوں کے وجود سے پاک کرنے کا عزم کیا‘ اس کیلئے ایک ایکشن پلان ترتیب دیا گیا‘ فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔

سب سے بڑھ کر سزائے موت پر عائد پابندی ہٹالی گئی جس کے بعد اب تک 20 سے زائد دہشت گردوں کو تختہ دار تک پہنچا دیا گیا ہے۔دو تین ہفتے قبل وزیراعظم میاں نوازشریف نے ذرا زیادہ ہی جذباتی ہو کر کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی خود قیادت کرینگے۔ یہ کہنے کی ضرورت اس لئے نہیں تھی کہ جمہوری دور میں حکومت کے سربراہ ہونے کے ناطے تمام ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہوتے ہیں۔

دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے جاری اپریشن کا کریڈٹ اور خدانخواستہ ڈس کریڈٹ حتمی طور پر حکومت کے کھاتے میں جانا ہے۔ نوازشریف نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کی قیادت کا بے جا اعلان تو کیا لیکن اس اعلان کے بعد سے وہ منظرعام ہی سے غائب ہیں جبکہ دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے جاری اپریشن اور جنگ میں ہر طرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہی نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے کہ فوج کو اس جنگ میں آگے کرکے جمہوری حکومت نے پسپائی اختیار کرلی ہے۔

امریکہ کے طویل دورے پر جنرل راحیل گئے‘ افغانستان وہ یا ڈی جی‘ آئی ایس آئی جاتے ہیں۔ 12 جنوری کو تین چار ہفتے کے وقفے سے سکول کھلے تو دہشت گردوں کی سفاکیت کا نشانہ بننے والے ملٹری پبلک سکول میں بچوں کا استقبال جنرل راحیل شریف اور انکی اہلیہ نے کیا۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی قیادت کے دعویدار وزیراعظم اب تک وہاں نہیں گئے۔ شاید عمران خان کی درگت بننے کے بعد وزیراعظم نوازشریف کا اگر وہاں جانے کا پروگرام تھا بھی تو اس پر نظرثانی فرمالیں گے۔

دہشت گردوں کا خاتمہ قومی نصب العین ہے۔ سستے تیل کا حصول کوئی کاز نہیں۔ دہشت گردوں کیخلاف کاررائیوں کی وضاحت کیلئے بھی یہ کوئی مناسب وقت نہیں ہے۔ کالعدم تنظیموں کی فنڈنگ رکوانے اور برطانیہ سے ان لوگوں کی پناہ پر بات کرنے کیلئے اگر آرمی چیف کو بھجوایا گیا یا وہ خود گئے ہیں‘ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم یہاں ایک بار پھر زور دینگے کہ بہتر تھا کہ یہ کام منتخب جمہوری حکومت کرتی‘ بہرحال دہشت گردوں کا ہر طرف سے ناطقہ بند ہونا چاہیے۔

جیسا کہ ممکن طور پر ہوتا نظر آرہا ہے۔ اندرون ملک ان کا ہاٹ تعاقب جاری ہے‘ انکے سرپرستوں کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔اس حوالے سے پاک فوج تو فعال کردار ادا کررہی ہے‘”بارود والوں“ سے نپٹنے کے لئے حکومت کو بھی فوجی قیادت کی طرح سرگرم ہونا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :