ایک اور غیر سیاسی کہانی

منگل 20 جنوری 2015

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

علی، کاشف ، شیری ، بلال اور ان کے دوست اب کافی بڑے ہو گئے ہیں مگر انہیں مالی شمس بابا کی کہانیاں سننے کی عادت سی ہو گئی ہے ، شمس بابا بھی جو کچھ ٹی وی پہ دیکھتا ہے اس کی کہانی بنا لیتا ہے ۔اس کا پسندیدہ موضوع "بھوتوں والی کہانیاں " ہیں کیونکہ وہ ٹی وی پر کرائم شو بہت دیکھتا ہے ، اگر کرائم شو نہ آ رہا ہو تو وہ ٹاک شو دیکھتا ہے ، بابا چلتا پھرتا مبصر ہے ۔

آج پھر علی، کاشف ، شیری ، بلال اور ان کے دوست شمس بابا کے پاس کہانی سننے آئے ۔
علی: شمس بابا آج ہمیں کوئی مختلف کہانی سنائیں ، ہم جنات کی کہانیوں سے تنگ آ گئے ہیں !
شمس بابا: اچھا بچو آج میں تمہیں ایک غیر سیاسی کہانی سناتا ہوں ، آ جاوٴ ، پاس آ کر بیٹھو ۔
تمام بچے شمس با با کے پاس آ کر بیٹھ گئے ۔

(جاری ہے)

بابا نے کہانی سنانا شروع کی " بچو!ایک دشمن ملک نے اپنی حساس ایجنسی کو ٹاسک دیا کہ وہ پاکستان کے اعلیٰ سیاسی شخصیات کی مخبری کریں اور ریکارڈنگ سنبھال کر رکھیں تاکہ مسقبل میں یہ ریکارڈنگز کام آ سکیں ۔

حساس ادارے نے اپنے سلیپر سیلز کو ایکٹیو کیا اور سرکاری احکامات پر عمل درآمد کا کہا ۔سلیپر سیل نے ریکارڈنگ کا سلسلہ شروع کر دیا ۔کافی محنت کے بعد ایک ٹیپ دشمن ملک نے انتہائی مہارت سے سرحد پار پہنچائی ۔تمام بڑے بڑے سپائی ماسٹر کمرے میں موجود تھے ، کمرے کو سیل کیا گیا تا کہ کوئی چڑیا بھی اس کمرے میں پر نہ مار سکے اور ٹیپ کو چلانے کے لیے بٹن دبایا گیا ۔


کاشف : بابا جی اس ٹیپ میں کیا تھا ؟
شمس بابا : یہ گفتگو ٹاپ سیکریٹ تھی ، وزیراعظم اپنے کسی وزیر سے بات کر رہے تھے ۔
بلال : بابا وہ گفتگو تھی کیا جو اتنی "ٹاپ سیکریٹ " تھی۔
شمس بابا : وہ گفتگو کچھ ایسے تھی پیارے بچو !
وزیر : حضور بہت پریشان ہیں ، آج آپ نے ناشتہ بھی اچھے طریقے سے نہیں کیا ، آپ کے چہرے کی فریش نیس غائب ہو گئی ہے ، لگتا ہے مالٹے کا جوس آپ نے نہیں پیا ، حکم کریں میں ابھی تازہ جوس منگواتا ہوں ؟
وزیراعظم: نہیں ، نہیں ، میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ، میں نے انہیں موٹر وے دی ، میں نے ان کے لیے ایٹمی دھماکہ کیا مگر پھر بھی جب انہیں موقع ملتا ہے یہ "گو گو " کے نعرے مارتے ہیں ، کیا پاکستان میں کوئی مسئلہ ہے ؟
وزیر: نہیں جناب پاکستان میں کوئی مسئلہ نہیں ، یہاں سب اچھا ہے۔

یہ لوگوں کی عادت ہے ، عمران نے انہیں بگاڑ دیا ہے اور پھر یہ شاہد مسعود، روف کلاسرا ، ہارون الرشید ، معید پیرزادہ اور مبشر لقمان انہیں مس گائیڈ کرتے رہتے ہیں ، آپ جیسا حکمران قومیں سات غلامیاں کاٹیں تو ملتا ہے ۔آپ سے سب جلتے ہیں ، دیکھیں یہ آپکا کمال ہے کہ آپ اتنی بار حکومت میں آئے ورنہ کوئی اور ہوتا تو کب کا کہتا " سنبھالو اپنا ملک " میرے پاس ٹائم نہیں ہے ، بس میں ابھی تازہ جوس منگواتا ہوں ۔


وزیراعظم:"او کے " تو پھر انڈیا میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، آفٹر آل ہم دونوں ملک ایک ہی عمر کے ہیں ؟
وزیر : جناب کیا بات کرتے ہیں ، انڈیا کوئی ملک ہے، کھانے کو روٹی نہیں اور پینے کو پانی نہیں ۔اس کا نام" ہندوستان" نہیں "مسائلستان" ہونا چاہیے ، انہیں بس فلمیں بنانی آتی ہیں ، جتنے دورے آپ کرتے ہیں اور جتنی بار آپ ملک سے باہر گئے ہیں ، کیا ان کا وزیراعظم ایسا کر سکتا ہے ؟ نہیں سرکار غریب لوگ ہیں ، کہاں آپ راجہ بھوج اور کہاں وہ گنگو تیلی؟ آپ کچھ زیادہ ہی سوچتے ہیں ؟ حضور اتنا سوچنا صحت کے لیے اچھا نہیں ، میں مالٹے کا جوس منگواوٴں؟
وزیراعظم: ہاں یہ تو ٹھیک کہا تم نے ، ان کا وزیراعظم ہی ایسا ہے ، کبھی سڑکیں صاف کرتا ہے اور کبھی سستی سی گاڑی میں بیٹھ کر اسمبلی میں جاتا ہے ۔

کپڑے بھی واجبی سے ہوتے ہیں اس کے اور اس کا بیک گراونڈ تو سب جانتے ہیں !
وزیر: سر آپ آرام کریں شام کو ہرن کا گوشت پکے گا ، اسے کھانے سے پہلا آرام ضروری ہے !میرے خیال سے مالٹے کا جوس سونے سے پہلے پی لیں نیند اچھی آئے گی ۔
وزیراعظم: ٹھیک کہا تم نے ، شاباش مجھے امید ہے کہ ہمارے ملک کا ہر وزیر تمھاری طرح با خبر ہو گا ، تم مجھے آٹھ بجے جگا دینا پچھلی بار بھی گوشت تھوڑا سخت ہو گیا تھا ، تمہیں اندازہ نہیں کہ جب میں انگلینڈ اور سعودی عرب میں تھا تو یہی سوچتا تھا کہ پاکستان جا کر اور کچھ نہیں روٹی تو آرام سے کھاوٴں گا ۔

جانے سے پہلے مجھے یہ بتاوٴ میری کل کی مصروفیات کیا ہیں ؟
وزیر: حضور کل صبح ناشتے میں چھوٹے پائے ، چنے ، مغز اور پتیری روٹی ہے ، اس کے بعد دوپہر کو تازہ کنڈے کے دہی کی لسی اور بٹیروں کی کراہی ہے اور شام کو آپ نے دورے پر قطر جانے کے لیے ایئر پورٹ جانا ہے اس لیے رات کا کھانا آپکا قطر کے شاہی محل میں ہے ۔
وزیراعظم: ویری گڈ اور ہاں وہ مالٹے کا جوس بھی بھجوا دینا ، مجھے لگتا ہے مجھے اب آرام کرنا چاہیے !
وزیر نے وزیراعظم کا کمرہ بند کیا ، وزیراعظم نے ٹی وی لگایا، ایم ٹی وی پر کوئی انگریزی نغمہ سنتے سنتے وزیراعظم سو گئے، جب باورچی ہرن پکا رہا تھا ، وزیراعظم خراٹے مارتے رہے جبکہ تمام وزیر خوشامد کی نئی ترکیبوں پر مشاورت میں مشغول ہو گئے ، ایسے میں ملک سے بجلی غائب ہو گئی، آٹا مہنگا ہو گیا ،گیس نا پید ہو گئی،کرپشن نے نئے عالمی ریکارڈ قائم کیے، دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ گئی ، پیٹرول ختم ہو گیا اور لوگ اسلام آباد ، لاہور ، کراچی اور پشاور میں پیٹرول کے لیے کئی کئی راتیں پیٹرول پمپوں کے باہر جاگ کر گزارنے لگ گئے اور دربان جوس کا گلاس ہاتھ میں لیے وزیراعظم کی بیداری کا انتظار کر رہا (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔


کاشف : کہانی ختم یا ٹیپ میں کچھ اور بھی تھا با با ؟
بابا شمس: باقی ٹیپ میں خراٹے تھے اور انگریزی کا وہ نغمہ جو وزیراعظم کو بھی سمجھ نہیں آ رہا ہو گا ۔
شیری : پھر دشمن ملک کے سپائی ماسٹروں نے کیا کیا ؟
شمس بابا: بیٹا !اگلی ٹیپ کو سنے بغیر دشمن ملک کے تمام سپائی ماسٹر کمرے سے نکلے اور گھر جا کر سو گئے اس اطمینان کے ساتھ کہ انہیں فی
الحال پاکستان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔کہانی ختم ہوئی اور بچے بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :