کپتان کی شکست، قوم کی شکست ہے

ہفتہ 24 جنوری 2015

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

جسے آج کپتان کی شکست کہا جا رہا ہے وہ در اصل ایک محاذ سے پیچھے ہٹنے اور آنے والے وقت میں ایک عظیم فتح کا پیغام ہے،لیکن لوٹ کھسوٹ کی موج مستیوں میں گم حکمراں نہ صرف یہ سمجھنے سے قاصر ہیں رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان سے بھی غافل ہیں کہ ۔” تم سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ وہ طاقت ور لوگوں کے جرائم سے چشم پوشی کر جاتی تھیں ،لیکن بے اختیار لوگوں کے ساتھ انصاف کے نام پر ظلم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی تھیں۔

“ ( معاف کیجئے ! میں رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا فقط متن لکھ رہا ہوں آپ کے من و عن الفاظ یاد کی گرفت میں نہیں آ رہے )
کپتان کی شکست ، جسے میں شکست نہیں ،تین ریاستی طاقتوں کے مقابل کپتان کے اختیارات کی کمزور ی سے تعبیر کرتا ہوں۔ وہ قوم کی شکست ہے۔

(جاری ہے)

طاقت کا سر چشمہ عوام ہوتے ہیں۔اور عوام سمجھ چکے ہیں کہ کس کی کیا حقیقت ہے ؟جب عوام سڑکوں پر نکل آئے تو ان کئے سامنے کوئی بھی ریاستی طاقت ٹھہر نہیں سکے گی۔

ایوب خاں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔دھرنوں اور احتجاجی جلسوں سے وقتی طور پر پسپائی کے پس پردہ جو اصل کہانی ہے۔ اُس کہانی سے پہلے کپتان کی چند ایسی غلطیوں کا ذکر ضروری ہے۔جن میں آ خری دو غلطیاں پاکستانی سیاست کے ماحول کے مطابق عام غلطیاں ہیں لیکن اُن کی توقع عمران خان سے نہیں کی جا رہی تھی۔
(1) سب سے پہلی غلطی کپتان سے یہ ہوئی کہ جب جنرل راحیل شریف میاں نواز شریف کے مستعفی ہونے کے علاوہ عمران خان کے باقی مطالبوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری لے رہے تھے تو کپتان کو فوراً مان جانا چاہیے تھا کہ وہ مطالبے پورے ہونے کے بعد میاں نوااز شریف خود ہی اپنی دھاندلی کے عبرت ناک انجام پر پہنچ جاتے۔


(2) 16 دسمبر کے سانحہ عظیم کے فوراً بعد کپتان کو وزیر اعلیٰ پختون خوا ،آئی۔جی پولیس اور جس علاقے میں اسکول تھا ،اس علاقے کے ڈی۔ایس۔پی کو فوراً معطل کر دینا چا ہیے تھا،سیاست میں سیای مصلحتوں کے قاتل یہ کڑوے گھونٹ ہی انسان کو ایک بڑا لیڈر بناتے ہیں۔ لیڈر اور سیا ست دان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ سیاست دان مُنہ سے بات نکالتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ کل وہ اپنی باتوں کو پورا بھی کرسکیں گے یا نہیں ۔

جیسا کہ آج کل میاں برداران کے الیکشن کے دوران کئے ہوئے وعدوں اور نعروں کو حوالہ بنا بنا کر اُن کی بیڈ گورننس کا مذاق اڑیا جا رہا ہے۔
(3) عمران خان کی تیسری غلطی اُن کی شادی ہے، میاں نواز شریف ہر بات کے جواب میں خاموش رہنے کی جتنی اچھی اور عزت مندانہ شہرت رکھتے ہیں۔اُن کے نمائندے ، بالخصوص وزیر اطلاعات رشید ، وزیر ریلوے سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ اول خول بولنے کے حوالے سے اتنی ہی بری شہرت رکھتے ہیں۔

جن کا کہنا ہے کہ عمران خان نے شادی بہت پہلے، کوئی اگست میں اور کوئی نومبر میں کہتا ہے، اپنے وزیر اعلیٰ کے گھر پختونخوا میں کر لی تھی ۔ لیکن اس کا اعلان اب دسمبر میں آ کر کیا ہے۔ سچ کیا ہے ؟ جھوٹ کیا ہے ؟ سچائی کا سب سے معتبر پیمانہ تو نکاح پڑھانے والے مولانا صاحب کی گواہی ہے۔جن کا کہنا ہے کہ میں نے یہ نکاح ابھی دسمبر ہی میں پڑھایا ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر عمران خان نے اگست یا نومبر میں شادی کر لی تھی تو اسے چھپانے کی کیا ضرورت تھی ؟ وہ دھرنے پر تھے کوئی اعتکاف میں نہیں بیٹھے ہوئے تھے۔مولا نا صاحب کے بیان کے مطابق انہوں نے نکاح دسمبر ہی میں پڑھایا ہے ، اُن کی معتبر گواہی کے بعد عمران خان کے اپنے بیان کہ میں لندن اپنے بچوں سے اجازت لینے گیا تھا۔جس کی سچا ئی کا ثبوت جمیما خان کا یہ اعلان بھی ہے کہ انہوں نے اپنے نام سے ”خان “ ہٹا دیا ہے۔

یاد رہے کہ جمیما نے عمران خان کو ہنی مون کے لئے انگلینڈ آنے کی دعوت بھی دی تھی۔یہ ساری باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگست دسمبر میں شادی کی باتیں، محض عمران خان کے خلاف تہمتیں تراشنے کی بری عادت کی تسکین کے لئے کی جا رہی ہیں ۔ سچ وہی ہے جو عمران خان کہہ رہے ہیں اور اگر یہی سچ ہے تو پھر اُنہوں نے شادی کے لئے غلط وقت کا تعین کرکے شادی جیسے پُر مسرت فریضے کو نا خوشگوار بنا دیا ہے،سانحہ پشاور کے چالیسو یں کا انتظار کر لیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا۔

بہر کیف، کپتان نے اپنی اس غلطی کی تلافی سانحہ پشاور کے چالیسویں کے موقعہ پر زخمی بچوں کے علاج کا وعدہ کر کے ، کر دی ہے۔
پاکستانی سیاست میں ایک چیز کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی ہے اور وہ ت ہے تھنک ٹینکس کی کمی۔کسی بھی پارٹی کے پاس کوئی تھینک ٹینکس نظر نہیں آتا۔بس پارٹی لیڈر اپنے خوشامدیوں کی ایک ٹیم اپنی کچن کیبنٹ کے طور پر بنا لیتے ہیں اور یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی ناکامی کی پہلی سیڑھی یہ خوشامدی ہی ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے حضرت عمر  کا ایک قول سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے لائق ہے۔”میرا بہترین دوست وہ ہے جو میرے عیب مجھے تحفے میں بھیجتا ہے “ عمران خان بابائے قو م کو اپنا آئیڈئل لیڈر مانتے ہیں۔عمران خان اپنی پارٹی میں کچھ ایسے صاحب فکر لوگ لے کر آئیں ، جو سیاست میں حصہ لینے کے خواہش مند نہ ہوں اور جنہیں رسول اللہ ﷺ کے فرمودات اور قائد اعظم  کی زندگی کے نشیب و فراز پر عبور حاصل ہو۔

اور ایسے لوگوں کی ایک مجلس مشاورت تیار کریں اور اپنی مجلس مشاورت کے مشوروں کے ساتھ سیاست کریں۔اُن کی اپنی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔اللہ انہیں بڑی کامیابی دے گا۔
اب کپتان کی دھرنوں اور احتجاجی جلسوں سے پسپائی کی اصل کہانی۔اسلام آباد کے بارے میں ایک بات مشہور ہے کہ وہاں ہمیشہ دو طاقتوں کی حکمرانی رہی ہے۔امریکی سفیر اور چیف آف پاک آرمی سٹاف کی۔

امریکہ کی پشت پناہی تو میاں نواز شریف کو شروع ہی سے رہی ہے۔جس پشت پناہی کی قیمت چکا نے کے لئے وہ قوم کو ہندوستان کے قدموں میں بٹھانے کے لئے بھی تیار تھے۔ لیکن ہماری غیرت مند فوج ان کے آڑھے آ تی رہی ہے ۔اس کے علاوہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی پارلیمنٹ میں افواج پاکستان کے خلاف زہر فشانی اور کچھ حامد میر پر حملے کے حوالے سے جیو ٹی۔وی پر سابق ڈی۔

جی ۔آئی ۔ ایس ۔ آئی کے خلاف جارحا نہ اور صحافت کے حوالے سے مجرمانہ روّیے کے موقعہ پر موجودہ حکو مت کا اپنے دفاعی ادارے کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے جیو ٹی۔وی کے ساتھ کھڑا ہونے کی مجرمانہ غلطی نے فوج اور موجودہ حکومت کے درمیاں میں کھچاوٴ کی پوزیشن پیدا کر دی تھی۔اُدھر عمران خان الیکشن میں دھاندلی کے خلاف اپنے سبھی مطالبے رد کر دینے کے نتیجے میں سڑکوں پر نکل آئے ، جس نے موجودہ حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیں۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا الیکشن ہے جسے سبھی دھاندلی شدہ الیکشن کہتے ہیں۔کل ۲۱ جنوری کے ”آف دی ریکارڈ “ پروگرام میں جناب اعتزاز احسن کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلیوں کے تصدیق شدہ ثبوتوں پر مشتمل وائٹ پیپر کی تفصیل سن کر میں مسلم لیگی قیادت اور نمائندوں کی ہمت پر عش عش کر اٹھا ہوں۔ اُسی پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے طلال چوہدر ی بھی بیٹھے تھے۔

اُن کا یہ حال تھا کہ پوچھو ماں کا نام تو بتا باپ کا نام رہے تھے۔الغرض اس الیکشن کو دھاندلی شدہ تو سبھی کہتے تھے۔لیکن سب متحد تھے کہ ہم جمہوریت کو ڈیریل نہیں ہونے دیں گے۔
اُن ہی دنوں ” سیاست ہے یا سازش“ کے ڈاکٹر معید الدین پیر سزادہ نے اپنا ایک تجزیہ دیا کہ میاں نواز شریف صاحب کے سامنے دو راستے ہیں۔ ”عمران خان کے مطالبے مان کرجمہوریت کو بچا لیں لیں یا اپنی انا کی تسکین کے لئے فوج کو منا لیں۔

“ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ان کا یہ تجزیہ انتہائی بے وزن لگا تھا۔ بھلا سار ی پارلیمنٹ جو بضد تھی کہ ہم جمہوریت کو ڈیرل نہیں ہونے دیں گے،وہ فوج کے ساتھ کیا تصفیہ کریں گے۔؟لیکن آج جس طرح موجودہ حکومت عمران خان کے سبھی مطالبوں کے سامنے ڈھٹائی کے حوالے سے ہمالیہ کی چوٹی بنی ہوئی ہے اور جمہوریت کو ڈیریل نہیں ہونے دیں گے کے داعی ہمارے سبھی لیڈران کرام نے سب کچھ فوج کے حوالے کر دیا ہے، اپنے پاس صرف موٹر ویز کی تعمیر کے ٹھیکے اور دوسرے بزنس ادارے رکھ لئے ہیں۔

یہاں تک فوجی عدالتیں بنانے کی اجازت بھی دے دی ہے۔اس دوران سابق صدر پاکستان جناب زرداری صاحب کی ایک آواز سنائی دی تھی کہ میاں صاحب دیکھ لیں کہ کہیں میں اور وہ جیل میں نہ بیٹھیں ہوں۔دونوں حکومتوں کے ادوار میں اتنی ڈھیر ساری کرپشن کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ اربوں روپیوں کی کرپشن کرنے والوں کو اپنی لوٹ کھسوٹ کے مال کو کھانے کا موقعہ بھی دیا جانا چاہیے تھا۔

میاں صاحب نے اپنے ساتھی کے مشورے پر لبیک کہتے ہوئے فوجی عدالتوں پر یہ شرط بھی لگا دی کہ فوجی عدالتوں میں صرف وہی مقدامات سنے جائیں گے جو حکومت ان کے حوالے کرے گی۔ جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی کرپشن چھپانے کی شرط کے ساتھ مارشل لاء کے لئے دروازہ کھول دیا ہے۔
میاں صاحب جو چیز اپنی اہلیت یا جائز حق سے حاصل نہ کر سکیں، اسے کسی بھی قیمت پر خرید لیتے ہیں،
سا نحہ ماڈل ٹاوٴن ہو ، اصغر خان کیس ، نا دھندگی کے پھندے ہوں یا موجودہ دور کی کرپشن کے ڈھیروں مقد ما ت عدلیہ تو شرو ع ہی سے ان کے ساتھ ہے۔

فوج نے ان کی یہ شرائط کیسے مان لیں ہیں کہ فوجی عدالتیں وہی مقدمات سن سکیں گی۔جو حکومت انہیں بھیجے گی ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ آج دہشت گردی کے بعد دوسرا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کاہے۔کیا ہم اربوں روپیوں کی کرپشن کرنے والے لٹیروں کو چھوڑ دیں گے ؟ اگر ان لٹیروں کو چھوڑ دیا گیا تو پھر میں یہی کہوں گا کہ ہم وہ بد نصیب قوم ہیں جنہیں خالص جمہوریت اور نہ ہی با مقصد طاقت ور اور کھرامارشل لاء نصیب ہوتا ہے۔

مارشل لاء کا مطلب تو یہ لیا جاتا ہے کہ قوم کے وسائل کو لوٹنے والوں کو لیمو کی طرح نچوڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس کرائی جائے۔لیکن ہمارے ہاں مارشل لاء لگانے والے بھی قومی لٹیروں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔جنرل راحیل شریف کے خاندانی پس منظر کے سبب ان سے بڑی توقعات تھیں کہ وہ ایسے برے لوگوں کو بالکل معاف نہیں کریں گے۔لیکن جو حالات نظر آ رہے ہیں۔اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ ِ تیغ ِ ستم نکلے
بہادر شاہ ظفر تو انگریزوں کے شکنجے میں پھنس گئے تھے۔ہمارے جنرل راحیل شریف کس کے شکنجے میں کس مجبوری کے تحت آ گئے ہیں ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :