بلوچستان کی عوام کی صدا راہداری اور وفاق

اتوار 15 فروری 2015

Badshah Khan

بادشاہ خان

سات فروری کو کوئٹہ جانا ہواکئی تبدیلیاں نظر آئی ترقیاتی کام جاری تھے اور ڈبل سواری پر بھی پابندی نہیں تھی سخت سردی کی شدت برقرار نظر آئی مگر ملنے والے گرم تھے اور اس مرتبہ اس کی وجہ چائنہ اکنامک کوروڈور تھا، جس کے بارے یہ اطلاعات عام ہیں کہ اس اقتصادی رہداری کا راستہ تبدیل کیا جاچکا ہے جو مرکزی پنجاب سے گذرے گا جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے،کوئٹہ میں ہمارے دوست علی حسن نے بتایا کہ عام افراد ہم سے پوچھتے ہیں کہ تم پاکستان،پاکستان کی رٹ لگائے رکھتے ہو پھر کیا ترقی اور روزگار پر ہمارا حق نہیں ہے ساٹھ سالوں بعد ایک روٹ اگرہمارے غریب آبادیوں سے گذررہاہے تو اسے کیوں بلوچستان کی عوام کے مشورے کے بغیر تبدیل کیا جارہا ہے ،یہ اقتصادی رہداری کا مختصر راستہ بھی ہے اور اب تک نظرانداز کئے گئے آبادیوں کی محرومیوں کا ازالہ بھی ہو سکتا ہے،راہداری میں تبدیلی خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے جنوبی اضلاع سے دشمنی کے مترادف ہے ا س منصوبے میں تبدیلی کی اطلاعات آ رہی ہیں جس کی احسن اقبال سمیت کئی وفاقی وزراء کی جانب سے تردید بھی کی جارہی ہے اور گذشتہ روزوفاقی وزیر احسن اقبال نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل رحمن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی، مگر سامنے آنے والی کہانیاں اورنیٹ پر موجودنقشوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رہداری کا روٹ تبدیل ہوچکا ہے اور عوام کو اس سے لاعلم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ،اورایسا لگتا ہے کہ کراچی میں جو بیانات اور دورں پر زور ہے اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ اس طرف سے توجہ ہٹائی جاسکے، اس کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ جناب پر ویز خٹک صاحب نے پاک چین تجارتی راہ داری روٹ میں تبدیلی پر عدالت جانے کا اعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ صوبے میں بے روز گاری کے خاتمے اور سرمایہ داروں کے واپسی کے لئے پاک چین تجارتی راہ داری میں کسی قسم کی تبدیلی برداشت نہیں کی جائیگی۔

(جاری ہے)


گذشتہ دسمبر میں بھی بلوچستان کے تین بڑے شہروں میں جانا ہوا تھا ،اس وقت قلات ،سوراب،خضدار جو کہ بلوچ آبادی والے شہر ہیں،ے ،قلات میں اس وقت سخت سردی کا آغاز اگر چہ اس طرح نہیں ہوا تھامگر اخوت کے جذبے سرد نظر آئے،کراچی سے قلات کا سفرکئی تجربات کاذریعہ بنا اور بلوچ نوجوان طبقے کے ساتھ براہ راست ملنے اور ان کے خیا لات سے آگاہی ملی،تینوں شہروں کے نوجوانوں کے خیالات ایک جیسے اور وفاق سے مایوس نظر آئے ،اب ان کا یقین صوبائی حکومت جس کے سربراہ ایک قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پر بھی اعتماد ختم ہورہا ہے۔


دوست محمد بلوچ بولان میڈیکل کا طالب علم اور مذہبی فکر رکھنے والا محب وطن نوجوان ہے اس نے کہا بلوچستان کے لوگوں میں یہ شعور اور خبریں تیزی سے فروغ پارہی ہیں کہ ان کے وسائل نہ ان کے کام آرہے ہیں نہ ہی اس کی رائلٹی مل رہی ہے جس کی وجہ سے بلوچ قوم ترقی کے فوائد سے محروم ہیں ،اور اب ان ذخائر کو رشوت کے عوض اونے پونے غیر ملکی کمپنیوں کو فروخت کیا جارہا ہے،تیل وگیس کے ذخائر کے بعد ایک بار پھرسنیڈک اور ریکورڈیک کے سونے کے کھربوں ڈالرز کے ذخائر کینیڈا کی اسی کمپنی کو نئے نام سے فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے اور اس بار وفاق کے ساتھ صوبائی حکومت بھی اس میں ملوث ہے،ٹیتیھان نامی کمپنی نے حکمرانوں کو دوسو ملین ڈالرز کے کیک بیکس کی پیشکش کی ہے جس میں سب ہی شامل ہیں،اپنے مفادات اور تجوریاں بھرنے کے لئے قومی اثاثے کو کوڑیوں کے مول نیلام کیا جارہا ہے،سب ادارے خاموش ہیں ۔

میں نے کہا کیا بلوچستان کی خراب صورت حال میں بھارت اور دیگر پڑوسی ممالک کا ہاتھ نہیں ہے ؟ کیا بلوچستان میں افغانستان کے راستے بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ کا جو مجرمانہ کردار ادا کر رہی ہے کیا وہ بھی پوشیدہ ہے؟ دیگر قومیتوں کے افراد کا قتل عام ، پاکستان کے جھنڈوں کو جلایا جانا ۔ پاکستان کے قومی ترانے پر پابندی لگائی جانا ، پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے نعرے گونجنا اور دہشت گردی کی ان کارروائیوں میں ملوث درندوں کے مراکز افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانوں میں قیام کیا سب چھپ کر ہورہا ہے ؟بلوچ نوجوان پاکستان کے حکمرانوں کے مظالم سے ناراض ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب کہاں نکلتا ہے کہ پاکستان کے دشمن ممالک کی ایجنٹی کرکے پاکستان توڑنے کی سازشیں کی جائیں ۔

اس پر کہامگر اب ہم کیا کریں ہمیں ہمارے وسائل میں سے بنیادی حقوق کی ضروریات تک نہیں دی جارہی جبکہ ہزاروں کلومیٹر دور افراد و اقوام ہمارے سونے گیس سے مستفیذ ہونے کے لئے منصوبہ بندی کرچکے ہیں اور کررہے ہیں۔اور سب سے بڑا مسئلہ ہمارے لاپتہ افراد ہے کہ جس کے بارے میں ہمیں پتہ ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں۔
اب کون بتائے حکمرانوں کہ جس قوم کی مائیں‘ بہنیں بیٹیاں اپنے پیاروں کی تلاش میں رلنے پر مجبور ہو جائیں... اس ملک کو سڑکوں یا بلڈنگوں سے مضبوط نہیں کیا جاسکتا ،اور جب صورت حال نازک ہو تو بڑے ہونے کا دعوی کرنے والے چھوٹوں کو راضی کرتے ہیں،اسی لئے وفاق کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا،دو صوبوں کی عوام کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے پاک چین اقتصادی راہد داری کو اصل شکل میں بحال کرنے سے دوریاں کم ہونگی جس سے چھوٹے صوبوں میں وفاق کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام جائیگا اور چاروں صوبوں کے عوام میں محبت اور بھائی چارگی کو فروغ ملے گا اس رہداری سے جنوبی پنجاب سندھ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے پسماندہ علاقے ترقی کے راہ پر گامزن ہونگے ایک ایسے وقت میں جب ہمیں ملک یکجہتی کی اشد ضرورت ہے اوروزیراعظم میاں نواز شریف صاحب قومی مفادات کو مدنظر رکھیں گے کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ ان کا تعلق مسلم لیگ سے ہے جس نے پاکستان بنایا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :