پتھروں کی اس نگری میں سائے کے اس شہر میں!
ہفتہ 21 فروری 2015
جہیل کا نچوڑ ہیں (اس وقت آبادی اتنی ہوگی)
(جاری ہے)
میں ابھی گدھوں کا نوح شانتی دیوی کو سنا ہی رہا تھا کہ وہ پھر پلٹی پٹری بدل کر کہنے لگی۔ تمہارے قومی ایکشن پلان کا کای ہوا۔ اب کہ میں دوبارہ گڑبڑا سا گیا۔ کسی یہ ناری ہے سکون ہی نہیں۔ میں نے بے زاری سے پوچھا تم دور درشن بیٹھ کر کیا گن سن لینا چاہتی ہو۔ وہ میری بات سے بدمزہ سی ہو گی۔ کہنے لگی عدم برداشت کا بھاشن دینے ولے تحریک نویس تم بات کرنے سے پہلے سوچتے کویں نہیں۔ مجھے بھی احساس اور شرمندگی ہوئی۔ اپنے ہاں تو ایسا چل جاتا ہے۔ مگر کسی دوست سے ایسا رویا رکھنا مناسب نہیں۔ سومجھے درخواست کرنی پڑی کہ میں ٹریک پر سے اُتر گیا تھا۔ اس کو بھی میرے مزاج کا اندازہ ہے کہنے لگی سوچنے اور لکھنے سے تم اکیلے دنیا بدلنے سے رہے۔ لوگوں میں خوش نفسی اور خوش دلی سے رہنا سیکھو ۔ اس سے اپنی ذات کا نقصان نہیں ہے۔ پھر تمہارے دین میں تو غصہ شاید حرام بھی ہے سو اسیا اچھا دین رکھنے والے حوصلہ اور برداشت نہ رکھیں تو دوسروں کو روشن نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی کبھی حالات کا جبر گردوپیش کے حالاتِ ادبی کو ضرور طپش دلاتے ہیں۔ مگر یہ تو صحت کے لئے بھی نقصان دہ ہے ۔خان صاحب آپ کو کیا ہو جاتا ہے کپتان بن جاتے ہو۔ ویسے آپس کی بات ہے اب تم سابق صدر زرداری کو دیکھ لو ۔ اس بے چارے نے پانچ سال صبر کا گھونٹ پی کر اور غصہ دبا کر گذار ہی دئیے نا یر تم ہم سب کو درس دیتے تھے کہ سوچواور پھر بولو۔ چلو مجھے بھی معاف کرنا بات لمبی ہو گئی
میں نے کمالِ فراخ دلی سے کہا چلو معاف کیا تم بھی کیا یاد کرو گی ۔ ہاں تمارا سوال کیا تھا۔ وہ چپ رہی۔ میں نے پھر کہا سوال کیا تھا۔ وہ بولی چھوڑو سوال کو تمہارے شہر میں کتب میلا لگا تھا۔ میں نے فیس بک پر تمہاری تصویر کے ساتھ ایک بڑے گرو کو بیٹھا دیکھا تھا وہ کون تھے اور بک فیر کیسا رہا۔ ہاں ہاں بک فیر تو بہت ہی اچھا رہا۔ بہت لوگ آئے۔ لوگوں میں کتابوں کا شوق اور ذوق نظر آیا۔ اب تو ہمارے شہر میں ادب میلہ بھی لگنے والا ہے۔وہاں بھی کتابوں کے سٹال لگیں گے۔ ہمارے لوگ وحشت اور دقت کے ماحول سے نکلنا شاہتے ہیں اس نے مجھے ٹوک دیا یار میں پوچھ رہی تھی تم نے کونسا گرو گانٹھ لیا ہے اس کی لمبی خوبصورت داڑھی۔ کالا چشمہ گلے میں منکا اور کیا کمال کی انگوٹھیاں اس نے پہن رکھی تھیں ایک ایک پتھر لاکوں کا لگتا تھا اور بناوٹ بھی خوب تھی تمہارے بزرگ کی سرمالگی آنکھوں میں کمال کا سرور تھا۔ تم بھی اس کی محفل میں خوب سج رہے تھے۔ پھر فوٹو گرافر نے کمال کی تصویر بنائی ایک ایک بال تراش خراش چہرے کا جمال اور تمہاری تصویر بھی خوب تھی۔ مجھے تو کوئی مہان گرو نظر آئے وہ بھی فیشن کے ساتھ اس کے ساتھ ساتھ موصوفہ ہنس بھی رہی تھی۔ پھر مجھے خیال آیا اُو تصویر تو میرے تحسن اور دوست بھائی افضال کی بیٹی نے بنائی تھی فنون لطیفہ کی طالبہ بہت ہی گن والی ہے اللہ اس کو نظرِ بد سے بچائے۔
پھر مجھے یاد آیا و ہ تو بابا بچی خان تھے کئی کتابوں کے مصنف سداکے سیلانی ایک زمانہ انہوں نے ولایت میں گذارا۔ اتنی عمر کے باوجود وہ اپنے آپ کو اردو کے منفرد مشہور مصنف اشفاق خان کا بالکا کہتے ہیں ہمارے آج کے تمام ادیب منوبھائی ، عطاالحق قاسمی، مستنصر حسین تارڑ۔ امجد اسلام امجد۔ کشور ناہید۔ ظفر اقابل کتنے نام اور ہیں وہ سب ان کے امیر ہیں بابابچی خاں انسانوں کے قبیلے کے نہیں لگے۔ وہ تو ادبی گرو اور انسانی مشکل میں جن ہیں۔ ان کی کتابوں نے تہلکہ مچا رکھا ہے ایک جادونگری ہے مشرقر کے رنگ اور مغرب کا ترنگ پڑھنے والے کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ پھر حقیقت کے لحاظ سے ان کی کتاب بہت بھاری ہے۔ لوگوں پھر بھی خریدتے ہیں پڑھتے ہیں اور سرد ہنستے ہیں۔ بابا بچی لوگوں کو مایوس بھی نہیں کرتے اور وقت بھی نہیں دیتے۔ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر وقت شکر ہی شکر کرتے رہتے ہیں۔ وہ بھی کتابوں کا میلہ دیکھنے آئے تھے۔ مگر اس دن یوں لگا کہ جیسے انہوں نے میلا لوٹ لیا ہو۔ لوگوں کا ہجوم ان سے دعا لینے اور ملنے پر بے تاب ۔ میری اتنی لمبی کھتا پر شانتی دیوی حیران سی تھی۔ تم نے پہلے کبھی ان کا ذکر نہیں کیا۔ پھر کہنے لگی ہاں وہ پیا رنگ کالا والے حضرت صاحب تو نہیں۔ اب میری حیرانی کی باری تھی تو تم نے ان کی کتاب پڑھی ہے۔ ہاں ڈیسر ان کی کتاب کا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے بھئی کمال کا لکھتے ہیں۔ ان کا اسلوب لحجہ معلوم کی جادونگری ہے۔ وہ صوفی ، درویش، قلندر، گرو کس کس روپ میں تحریر کو سجاتے ہیں تمہاری ان سے کیسی یاد اللہ ہے۔ پہلے کبھی ذکر نہیں کیا۔ ہاں شانتی تمہاری بات چیت ہے۔ ایسے درویش یا گرو اپنے آپ کو زمانے سے چھپا کر ہی رکھتے ہیں۔ مجھے توکبھی کبھی خوف بھی آتا کہ بابا کی شخصیت کسی جن کا دوسرا جنم ہی نہ ہو۔ تم نے ان کا پروگرام نہیں دیکھا جو ہمارے پیارے میزبان دوست سہیل وڑائچ نء ایک دن جیو کے ساتھ تیار کیا تھا۔ وہ اب بھی نیٹ پر دستیاب ہے سہیل نے کمال کا پروگرام تیار کیا۔ بڑے پھیکے اور مشکل سوال کیے۔بابابھی تو لوگوں کا تپیا ہے خوب ٹھوک کر جواب دئیے اور خوب میل لگایا بابابا بچی کو ملنا کہا سے ہے معلوم نہیں مگر وہ بانٹتا بہت ہے۔ ہاں بانو قدسیہ کو ماں کا درجہ دیتا ہے۔ شانتی وہ ایک نیک روح لگتی ہے اور سب سے کمال اس کی تحریر ہے جس کے اسیب میں بھی گرفتار ہوں۔ کسی دن ہماری بات بھی کروا دو۔ جب پاکستان آوٴ تو مل لینا۔ اگر ان کا کنیڈا کا چکر لگا تو تم کو اطلاع کر دوں گا۔ اچھا اچھا آگے میں خود دیکھ لوں گی۔ خیر میرا سوال قومی ایکشن پلان کے بارے میں تھا ۔ ہاں ہاں یاد آیا شانتی سرکار اور ہماری عسکری قیادیت اس پر کام کر دہی ہے۔ کہ اندازہ اور احساس ہو رہا ہے کہ اب ایکشن لے کر پلان کا میاب ہوسکے گا۔ آہستہ آہستہ دائرہ تنگ ہو رہا ہے۔ سیاسی طاقتوں کو اندازہ ہورہا ہے اگر وہ نہ رہے تو وقت آگیا کہ ان کو بدلا جا سکے۔ خوب کیا سب کے ارادے اچھے ہیں یہ تو وہ جانیں یا میرا اللہ ۔دیکوں اور خیر کا انتظار کرو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ساجد خان کے کالمز
-
بدلے کے بغیر بدلنا ہوگا ریاست کو!
پیر 17 جولائی 2023
-
سچ بولنامشکل، لکھنا بہت آسان
پیر 10 جولائی 2023
-
کیوں ڈریں زندگی میں کیاہوگا!
بدھ 7 جون 2023
-
خواب جو خیال نہیں بنتے!
پیر 11 ستمبر 2017
-
کتابیں اپنے آباء کی
اتوار 27 اگست 2017
-
طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
ہفتہ 19 اگست 2017
-
بدل رہے ہیں زمانہ کو ہم اشاروں سے
اتوار 19 مارچ 2017
-
یہ سلسلہ ٹوٹا نہیں دور کی زنجیر کا
جمعہ 27 جنوری 2017
ساجد خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.