پتھروں کی اس نگری میں سائے کے اس شہر میں!

ہفتہ 21 فروری 2015

Sajid Khan

ساجد خان

ہمارے بھی مہربان کیسے کیسے ہیں وہ پڑھتے ہیں کبھی سخت نقاد اور بھی تھپکی۔ ان کے مزاج کی سمج نہیں ۔کوئی تجربہ بڑی دل جوہی اور مشقت سے لکھی۔ مگر تبصرہ ایسا کہ نہ جائے فیشن نہ پائے ماندن۔میری دوست شانتی دیوی کا ای میل آیا۔حوصلے سے لکھو۔ میں نے جواب دیا۔ بھگتے کا کون! پھر ٹیلی فون آگیا۔ گدھوں پر کیوں لکھتے ہو۔ میں پریشان اور حیران ہوا گدھوں پر۔

ہاں گدھوں پر چلو اگر بین بجانی ہے تو بھینس کے آگے بجایا کرو۔ تاز تو بہت آیا۔ مگر صبر میں شانتی ہے سو خاموش رہا ۔ تھوڑی دیر کے بعد بولااگر ہماری کسی سیاسی جماعت کا نشان گدھا ،بھینس، یا ہاتھی ہوتا تو ضرور لکھتا۔ تو فوراََ گویا ہوئی۔ تمہارے شاعر انقلاب نے بہت عرصہ پہلے لکھا تھا:
یہ جو دس کڑورہیں
جہیل کا نچوڑ ہیں (اس وقت آبادی اتنی ہوگی)
سو اب بھی فرق نہیں پڑا۔

(جاری ہے)

مجھے بھی حوصلہ ہوا اگر امریکہ جیسی تعلیم یافتہ امیر قوم گدھوں کے ووٹ دے سکتی ہے تو میں معاشرتی جبر سے پسے عوام کے لئے گدھا نہ سہی گھوڑا سمجھ کر بہتر لکھا جا سکتا ہے۔ پھر آئے دن ہماری سیاست اور ریاست میں گھوڑوں کی تجارت ہوتی رہتی ہے جس کو زبان فرنگی میں ”ہار س ٹریڈنگ “ کہتے ہیں ۔ مال مصنت کو تجارت میں نقصان کا اندیشہ کم ۔اب اپنے ہاں ہی دیکھ لو ہماری اسمبلی میں گھوڑے کی طرح مضبوط ہٹے کٹے لوگ آئے دن ٹریڈنگ کرتے نظر آتے ہیں۔

ہماری سکار تجارت کو عبادت کا درجہ دیتی ہے۔ ائی ایم ایف سے امداد بھی اس تجارت کو مضبوط و مربوط بنانے کیلئے لی جاتی ہے۔ اگر ائی ایم ایف سے قرض نہ بھی لیا جائے تو عوام کے لئے ایسی مشکلات میں اضافہ نہیں ہوگا۔ وہ قرض دے کر ہم مجبور لوگوں کو محکوم بھی بنالیتے ہیں۔ قرض کے مذاکرات پاکستان کی سرزمین پر نہیں ہوتے۔ گھوڑے گدھے، خچر، شور مچانا نہ شروع کردیں۔

کیا مان کر کیا لے رہے ہو وہ بھی اشرفیہ کے لئے۔ جس کا ناحساب ہے نہ کتاب ہاں واپسی کی قیمت آزادی اور خود مختاری کا سودا ضرور ہے ائی ایم ایف کے سپرد ھانوں کو باور کرایا گیا ہے کہ ملک میں ایسا سودا مناسب نہیں۔ میڈیا با کا تنگڑ بنانے کا ماہر ہے۔ پھر وہاں پر نوکر شاہی ہی خبر عام کرتی ہے۔ اعداد شمار کا جادو ملک سے باہر ہی چل سکتا ہے۔ ہمارے غریب نفس وزیر خزانہ بنکر ضرور ہیں بزنسی منیجر نہیں یا پھر ہو بزنس کو تجارت کے انداز میں کرنے کے ماہر ہیں ائی ایم ایف کو ان پر پھروسہ بھی خوب ہے۔

وہ واحد پاکستانی ہیں جن پر وہ تکیہ ہی نہیں بھروسہ بھی کرتے ہیں ایسے میں گدھے ،گھوڑے، خچر اپنا مقدمہ کس کے سامنے پیش کریں عوام کی جان تو مہنگائی کے جن میں پھنسی ہے۔ پڑول سستا ہوتا جا رہاہے سرکار کو کتنے کا فائدہ ہے مگر زمین پر رینگتے عوام ان نمائشی قرضوں کی وجہ سے کچلے جا رہے ہیں۔ایسے مین ہمارے پڑھنے والے اور دوست کیا خوب کہتے ہیں گدھوں پر لکھوں۔

ان کوکیا خبر گدھوں پر لکھا نہیں جاتا ہنکا جاتا ہے۔
میں ابھی گدھوں کا نوح شانتی دیوی کو سنا ہی رہا تھا کہ وہ پھر پلٹی پٹری بدل کر کہنے لگی۔ تمہارے قومی ایکشن پلان کا کای ہوا۔ اب کہ میں دوبارہ گڑبڑا سا گیا۔ کسی یہ ناری ہے سکون ہی نہیں۔ میں نے بے زاری سے پوچھا تم دور درشن بیٹھ کر کیا گن سن لینا چاہتی ہو۔ وہ میری بات سے بدمزہ سی ہو گی۔

کہنے لگی عدم برداشت کا بھاشن دینے ولے تحریک نویس تم بات کرنے سے پہلے سوچتے کویں نہیں۔ مجھے بھی احساس اور شرمندگی ہوئی۔ اپنے ہاں تو ایسا چل جاتا ہے۔ مگر کسی دوست سے ایسا رویا رکھنا مناسب نہیں۔ سومجھے درخواست کرنی پڑی کہ میں ٹریک پر سے اُتر گیا تھا۔ اس کو بھی میرے مزاج کا اندازہ ہے کہنے لگی سوچنے اور لکھنے سے تم اکیلے دنیا بدلنے سے رہے۔

لوگوں میں خوش نفسی اور خوش دلی سے رہنا سیکھو ۔ اس سے اپنی ذات کا نقصان نہیں ہے۔ پھر تمہارے دین میں تو غصہ شاید حرام بھی ہے سو اسیا اچھا دین رکھنے والے حوصلہ اور برداشت نہ رکھیں تو دوسروں کو روشن نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی کبھی حالات کا جبر گردوپیش کے حالاتِ ادبی کو ضرور طپش دلاتے ہیں۔ مگر یہ تو صحت کے لئے بھی نقصان دہ ہے ۔خان صاحب آپ کو کیا ہو جاتا ہے کپتان بن جاتے ہو۔

ویسے آپس کی بات ہے اب تم سابق صدر زرداری کو دیکھ لو ۔ اس بے چارے نے پانچ سال صبر کا گھونٹ پی کر اور غصہ دبا کر گذار ہی دئیے نا یر تم ہم سب کو درس دیتے تھے کہ سوچواور پھر بولو۔ چلو مجھے بھی معاف کرنا بات لمبی ہو گئی
میں نے کمالِ فراخ دلی سے کہا چلو معاف کیا تم بھی کیا یاد کرو گی ۔ ہاں تمارا سوال کیا تھا۔ وہ چپ رہی۔ میں نے پھر کہا سوال کیا تھا۔

وہ بولی چھوڑو سوال کو تمہارے شہر میں کتب میلا لگا تھا۔ میں نے فیس بک پر تمہاری تصویر کے ساتھ ایک بڑے گرو کو بیٹھا دیکھا تھا وہ کون تھے اور بک فیر کیسا رہا۔ ہاں ہاں بک فیر تو بہت ہی اچھا رہا۔ بہت لوگ آئے۔ لوگوں میں کتابوں کا شوق اور ذوق نظر آیا۔ اب تو ہمارے شہر میں ادب میلہ بھی لگنے والا ہے۔وہاں بھی کتابوں کے سٹال لگیں گے۔ ہمارے لوگ وحشت اور دقت کے ماحول سے نکلنا شاہتے ہیں اس نے مجھے ٹوک دیا یار میں پوچھ رہی تھی تم نے کونسا گرو گانٹھ لیا ہے اس کی لمبی خوبصورت داڑھی۔

کالا چشمہ گلے میں منکا اور کیا کمال کی انگوٹھیاں اس نے پہن رکھی تھیں ایک ایک پتھر لاکوں کا لگتا تھا اور بناوٹ بھی خوب تھی تمہارے بزرگ کی سرمالگی آنکھوں میں کمال کا سرور تھا۔ تم بھی اس کی محفل میں خوب سج رہے تھے۔ پھر فوٹو گرافر نے کمال کی تصویر بنائی ایک ایک بال تراش خراش چہرے کا جمال اور تمہاری تصویر بھی خوب تھی۔ مجھے تو کوئی مہان گرو نظر آئے وہ بھی فیشن کے ساتھ اس کے ساتھ ساتھ موصوفہ ہنس بھی رہی تھی۔

پھر مجھے خیال آیا اُو تصویر تو میرے تحسن اور دوست بھائی افضال کی بیٹی نے بنائی تھی فنون لطیفہ کی طالبہ بہت ہی گن والی ہے اللہ اس کو نظرِ بد سے بچائے۔
پھر مجھے یاد آیا و ہ تو بابا بچی خان تھے کئی کتابوں کے مصنف سداکے سیلانی ایک زمانہ انہوں نے ولایت میں گذارا۔ اتنی عمر کے باوجود وہ اپنے آپ کو اردو کے منفرد مشہور مصنف اشفاق خان کا بالکا کہتے ہیں ہمارے آج کے تمام ادیب منوبھائی ، عطاالحق قاسمی، مستنصر حسین تارڑ۔

امجد اسلام امجد۔ کشور ناہید۔ ظفر اقابل کتنے نام اور ہیں وہ سب ان کے امیر ہیں بابابچی خاں انسانوں کے قبیلے کے نہیں لگے۔ وہ تو ادبی گرو اور انسانی مشکل میں جن ہیں۔ ان کی کتابوں نے تہلکہ مچا رکھا ہے ایک جادونگری ہے مشرقر کے رنگ اور مغرب کا ترنگ پڑھنے والے کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ پھر حقیقت کے لحاظ سے ان کی کتاب بہت بھاری ہے۔ لوگوں پھر بھی خریدتے ہیں پڑھتے ہیں اور سرد ہنستے ہیں۔

بابا بچی لوگوں کو مایوس بھی نہیں کرتے اور وقت بھی نہیں دیتے۔ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر وقت شکر ہی شکر کرتے رہتے ہیں۔ وہ بھی کتابوں کا میلہ دیکھنے آئے تھے۔ مگر اس دن یوں لگا کہ جیسے انہوں نے میلا لوٹ لیا ہو۔ لوگوں کا ہجوم ان سے دعا لینے اور ملنے پر بے تاب ۔ میری اتنی لمبی کھتا پر شانتی دیوی حیران سی تھی۔ تم نے پہلے کبھی ان کا ذکر نہیں کیا۔

پھر کہنے لگی ہاں وہ پیا رنگ کالا والے حضرت صاحب تو نہیں۔ اب میری حیرانی کی باری تھی تو تم نے ان کی کتاب پڑھی ہے۔ ہاں ڈیسر ان کی کتاب کا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے بھئی کمال کا لکھتے ہیں۔ ان کا اسلوب لحجہ معلوم کی جادونگری ہے۔ وہ صوفی ، درویش، قلندر، گرو کس کس روپ میں تحریر کو سجاتے ہیں تمہاری ان سے کیسی یاد اللہ ہے۔ پہلے کبھی ذکر نہیں کیا۔

ہاں شانتی تمہاری بات چیت ہے۔ ایسے درویش یا گرو اپنے آپ کو زمانے سے چھپا کر ہی رکھتے ہیں۔ مجھے توکبھی کبھی خوف بھی آتا کہ بابا کی شخصیت کسی جن کا دوسرا جنم ہی نہ ہو۔ تم نے ان کا پروگرام نہیں دیکھا جو ہمارے پیارے میزبان دوست سہیل وڑائچ نء ایک دن جیو کے ساتھ تیار کیا تھا۔ وہ اب بھی نیٹ پر دستیاب ہے سہیل نے کمال کا پروگرام تیار کیا۔ بڑے پھیکے اور مشکل سوال کیے۔

بابابھی تو لوگوں کا تپیا ہے خوب ٹھوک کر جواب دئیے اور خوب میل لگایا بابابا بچی کو ملنا کہا سے ہے معلوم نہیں مگر وہ بانٹتا بہت ہے۔ ہاں بانو قدسیہ کو ماں کا درجہ دیتا ہے۔ شانتی وہ ایک نیک روح لگتی ہے اور سب سے کمال اس کی تحریر ہے جس کے اسیب میں بھی گرفتار ہوں۔ کسی دن ہماری بات بھی کروا دو۔ جب پاکستان آوٴ تو مل لینا۔ اگر ان کا کنیڈا کا چکر لگا تو تم کو اطلاع کر دوں گا۔

اچھا اچھا آگے میں خود دیکھ لوں گی۔ خیر میرا سوال قومی ایکشن پلان کے بارے میں تھا ۔ ہاں ہاں یاد آیا شانتی سرکار اور ہماری عسکری قیادیت اس پر کام کر دہی ہے۔ کہ اندازہ اور احساس ہو رہا ہے کہ اب ایکشن لے کر پلان کا میاب ہوسکے گا۔ آہستہ آہستہ دائرہ تنگ ہو رہا ہے۔ سیاسی طاقتوں کو اندازہ ہورہا ہے اگر وہ نہ رہے تو وقت آگیا کہ ان کو بدلا جا سکے۔ خوب کیا سب کے ارادے اچھے ہیں یہ تو وہ جانیں یا میرا اللہ ۔دیکوں اور خیر کا انتظار کرو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :