ہارس ٹریڈنگ کی باتیں…!!

ہفتہ 28 فروری 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

ایک زمانہ تھا جب پٹھان قبائل کے سردار پنجاب سے اچھی نسل کے گھوڑے اور خچریں پشاور منگوایا کرتے تھے اور اچھے قسم کے گھوڑوں اور خچروں کے ساتھ ساتھ گدھوں کی منہ مانگی قیمت دیتے تھے۔افغانستان مین جاری ”جہاد“ جس کا آجکل نام بدل دیا گیا ہے کے مجاہدین کے لئے دور دراز ،دشوار گزار پہاڑوں پر ”رزق“ پہنچاتے تھے۔ ” جہادی بھائیوں“ نے جو کچھ ہمارے ساتھ کیا اس پر بات ہوئی تو ”مار“ دونوں طرف سے پڑ سکتی ہے لہذا”مار نہیں پیار“ والے فارمولے کے ہم بھی حامی ہیں۔

اچھا…بات ہو رہی تھی ہارس کی،ایک ہارس کا مسئلہ آجکل پاکستانی سیاست کو درپیش ہے اور اس کا نام ”ہارس ٹریڈنگ“ رکھا گیا ہے۔خبر کے مطابق سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے حکومتی جماعت مسلم لیگ ن مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

تمام سیاسی جماعتیں 5 مارچ کو ہونیوالے سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے مسلم لیگ ن کی تجویز کی حمایت کرتی ہیں تاہم ان جماعتوں میں سے کچھ نے اس حوالے سے آئینی پیچیدگیوں کی وجہ سے نئی قانون سازی کی مخالفت کی ہے۔

حکومت کی طرف سے قائم رابطہ کمیٹیوں کو اس حوالے سے واضح کامیابی نہیں ملی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے رواں ماہ کے شروع میں 2 فروری کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سینٹ کے ووٹ کی قیمت 2کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔دو کروڑ کے بعد آجکل پانچ کروڑ سے آگے نکل چکی ہے۔لیکن پشاور والے ”اچھی“ نسل کے منہ مانگے پیسے دیتے تھے۔سیاست دانوں میں”نسل“ کے اچھے ہونے کے بارے میں میرے پاس کوئی زیادہ معلومات نہیں ہیں خیر”پانچ پانچ“ کروڑ پر پانی پھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

اس کی جگہ پر ” مراعات اور ترقیاتی“ کاموں نے لے لی ہے۔خبر کے مطابق سینٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ کے بجائے اوپن طریقے سے کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کردیا کہ خیبر پی کے میں وہ خفیہ رائے دہی کے باوجود اوپن بیلٹنگ کرائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت سینٹ الیکشن میں خفیہ رائے دہی کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ عمران خان کی اوپن ووٹنگ کے مطالبے پر مسلم لیگی اور اے این پی کے رہنماؤں نے یہ کہتے ہوئے مضحکہ اڑایا کہ عمران خان کو اپنے ہی ارکان پر اعتماد نہیں ہے۔

ٹی وی چینلز پر مسلم لیگی زعماء خفیہ رائے دہی کے حق میں دھواں دھار بحث کرتے دکھائی دیئے۔ عمران خان جس ہارس ٹریڈنگ کی بات کر رہے تھے‘ اسکی تصدیق 20 فروری کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کی۔ اس سے ایک دو روز قبل فاٹا میں ایک ووٹ کی قیمت 25 کروڑ اور بلوچستان میں 5 کروڑ تک پہنچنے کی خبریں آچکی تھیں۔ ہر پارٹی سینٹ کی زیادہ سے زیادہ نشستوں کے حصول کیلئے کوشاں رہتی ہے‘ سو یہ پارٹیاں اپنے کام میں مگن رہیں۔

پھر اچانک مسلم لیگ ن کے رویے میں کایا پلٹ تبدیلی 23 فروری کو واضح ہوئی جب وفاقی کابینہ نے میاں نوازشریف کی سربراہی میں سینٹ الیکشن میں اوپن ووٹنگ کیلئے آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا۔ متفقہ ترمیم کیلئے دیگر پارٹیوں سے رابطوں کیلئے کمیٹیاں بنا کر دوڑادی گئیں۔ جو وزراء عمران خان کے اوپن ووٹنگ کے مطالبے کا مذاق اڑارہے تھے‘ آج وہ اوپن ووٹنگ کیلئے دیگر جماعت سے رابطہ کرنیوالی کمیٹیوں میں شامل ہیں۔

سینٹ الیکشن میں جس طرح ہارس ٹریڈنگ کا شور ہے‘ اس پر سینٹ کے انتخابی کالج کے ہر رکن کا کردار مشکوک ہوکر رہ گیا ہے۔ لگتا ہے ہر کوئی اپنا ووٹ فروخت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ انتخابی کالج کے لوگ اوپر سے ٹپکے ہیں نہ ان کو کہیں سے درآمد کیا گیا ہے۔ ان کو باقاعدہ پارٹیوں نے ٹکٹ جاری کئے اور وہ عوامی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں۔ جب پارٹیاں فنڈز کے نام پر امیدواروں سے بڑی بڑی رقمیں بٹوریں گی تو ایسے لوگ ہی سامنے آئینگے جن پر آج اسی پارٹی کا سربراہ اعتماد کرنے پر تیار نہیں۔

سینٹ کے الیکشن میں پارٹیوں کی دولت مندوں پر نظر رہتی ہے۔ کسی کارکن کو شاید ہی کسی پارٹی نے ٹکٹ دیا ہو۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی نے تو نوازشات کی حد کر دی۔ کاسہ لیسوں اور حاشیہ برداروں کو ایک صوبے سے دوسرے میں لے جا کر سینیٹر بنوایا جا رہا ہے۔ جو ٹیکنوکریٹ نہیں اسے بھی ٹیکنوکریسی کا کلاہ پہنادیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن بھی مروجہ سیاسی کلچر کا عکاس ہے۔

اس نے اس میڈیا رپورٹ کی تردید نہیں کی جس میں کہا گیا ہے کہ سینٹ الیکشن میں امیدواروں کے کاغذات خفیہ خط نے منظور کرائے۔ الیکشن کمیشن کے آراوز کو جانچ پڑتال کے دوران قوانین نظرانداز کرنے کی ہدایت کی۔بڑی پارٹیوں نے عام آدمی کیلئے پارلیمنٹ میں پہنچنے کا کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں ہے۔ جو پارٹیاں عام آدمی کو آگے لانے کا دعویٰ کرتی ہیں‘ ان کا بھی وفاداری جانچنے کا ایک خاص معیار اور طریقہ کار ہے۔

اس معیار پر پورا اترنے والا عام آدمی نہیں رہتا۔ہم اپنے ’لالہ جی“ کے خیالات بھی آپ تک پہنچانا چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں” جب تک پارٹیاں نیک نیتی سے جمہوری روح کے مطابق ٹکٹیں تقسیم نہیں کرتیں اور آئین کے آرٹیکل 62‘ تریسٹھ کا اطلاق نہیں ہوتا اس وقت تک سینٹ کے الیکشن اوپن کروائے جائیں۔ اس کیلئے بیلٹ پر ووٹر کے نام کا اندراج مناسب اور بہتر طریقہ ہو سکتا ہے تاکہ ہر رکن18ویں ترمیم کے مطابق اپنی پارٹی کے تابع ووٹ کاسٹ کرے“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :