گمشدہ سٹیٹ اتھارٹی

ہفتہ 21 مارچ 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

زندہ انسانوں کو جلانے‘ خاتون کو تشدد کا نشانہ بنانے‘ لوٹ مار کرنے اور قومی و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والے اور انکے ماسٹر مائنڈ دہشت گردوں کی طرح کسی رورعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ٹی وی چینلز کے پاس شرپسندوں کی ویڈیو موجود ہے جس سے انکی آسانی سے شناخت ہو سکتی ہے۔ یوحناآباد کے مکینوں کی پاکستان سے محبت میں کوئی دورائے نہیں ہیں‘ ان کو پرتشدد احتجاج کرنیوالوں نے بدنام کیا‘ وہ ایسے لوگوں کو قریب نہ گھسنے دیں۔

اگر ان کو معلومات ہیں تو اس سے متعلقہ اداروں کو آگاہ کریں تاکہ ایسے لوگ انجام تک پہنچ سکیں۔ واقعہ کی تحقیقات کیلئے حکومت نے جے آئی ٹی بنا دی ہے‘ اس سے چرچوں کے سانحہ سے متاثر ہونیوالوں کو بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔سانحہ یوحناآباد کو،حکومتی بزرجمہر اسے بدترین سانحہ کہہ رہے ہیں،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے مگر حالات پر قابو پانا اور دہشت گردوں کو روکنا کس کا کام ہے؟ یہ حکومت کا کام ہے جس میں ناکامی کے باعث ہی روح فرسا سانحات وقوع پذیر ہورہے ہیں۔

(جاری ہے)

حکومتی زعماء مذمتی دستہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اب معاملات مذمت سے آگے بڑھنے چاہئیں۔ ایک طرف صوبے میں یوحناآباد سانحہ پر قومی پرچم سرنگوں تھا تو دوسری طرف اشتعال انگیزی زوروں پر تھی۔ قصور سے آنیوالی ایک خاتون کی گاڑی پر ڈنڈے برسائے گئے‘ گھبراہٹ سے خاتون سے گاڑی بے قابو ہو کر مظاہرین پر جا چڑھی جس سے دو افراد مارے گئے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ غیراخلاقی حرکات کی گئیں۔

لاہور میں دو گروپوں کے درمیان تصادم ہوا تاہم پولیس صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب رہی۔ شیخوپورہ‘ قصور‘ سانگلہ ہل‘ حافظ آباد اور کراچی میں بھی احتجاج کیا گیا۔ گوجرانوالہ میں لوٹ مار کی گئی۔ جن کے پیارے دہشت گردی کی نذر ہو گئے‘ ان سے احتجاج کا حق نہیں چھینا جا سکتا ہے۔ سانحہ یوحناآباد کے بعد بھی ایسا ہی ہوا مگر افسوس کہ پرامن احتجاج تشدد میں بدل گیا۔

مگر اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ پرتشدد احتجاج اور مظاہروں کی کسی بھی پاکستانی نے حمایت نہیں کی۔ انکی قیادت کیلئے کوئی مسیحی رہنماء باہر نہیں آیا۔ بے مہار ہجوم نہ جانے کن کی انگیخت پر آپے سے باہر ہو گیا۔ دو انسانوں کو زندہ جلانے اور خاتون پر تشدد کی کسی نے حمایت نہیں کی۔ جس میں تھوڑی سی بھی انسانیت کی رمق ہے وہ ایسے قبیح اقدامات کی حمایت کر ہی نہیں سکتا۔

یہ بھی دہشت گردی ہے۔ سٹیٹ کی اتھارٹی کہیں نظر نہیں آتی۔ حکومت کے پاس جو بھی جواز ہو‘ عوام کو تحفظ فراہم کرنا اسکی اولین ذمہ داری ہے۔ قوم کو دہشت گرد تقسیم کرنے کی سازش کررہے ہیں تو حکومت نے قوم کو متحد اور منظم رکھنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ دہشت گرد آپکی پہنچ سے دور ہو سکتے ہیں‘ انکے سہولت کاروں اور حامیوں کے گرد شکنجہ کسنے کے بجائے ان سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔

انکے مطالبے پر 21ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کا یقین دلایا جارہا ہے۔ یہ لوگ مذاکرات میں طالبان سے تعلق کے بغیر سہولت کار کیسے بن سکتے تھے۔ دہشت گردوں تک انکے حامیوں اور سہولت کاروں کے ذریعے آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ حکومت مصلحتوں سے بالاتر ہو تو یہ ناممکن نہیں ہے۔ چودھری نثار نے کہا کہ مسیحی عبادتگاہوں پر حملہ دہشت گردی کی بدترین مثال ہے، دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں، سکول، چرچ، مساجد، دہشت گردوں کے آسان اہداف ہیں،سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ ان کا ایجنڈا ہے، سانحہ یوحناآباد قوم کو تقسیم کرنے کی سازش ہے ہم قوم کو تقسیم نہیں ہونے دینگے۔

انہوں نے کہا سانحہ یوحناآباد میں 21مرنے والوں میں سات مسلمان بھی ہیں۔ شکار پور اور پشاور چر چ پر بھی حملہ ہوا تھا مگر وہاں کسی نے ایسا ردعمل نہیں دکھایا۔ وزیر داخلہ نے زندہ جل جانیوالے دونوں افراد کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم جاری کیا۔ کوئی چرچ میں دہشت گردی کا نشانہ بنے‘ مدرسے‘ مسجد یا کہیں بھی‘ وہ بلاامتیاز مذہب و مسلک پاکستانی ہے اور انسان ہے۔

اب تک 60 ہزار کے قریب پاکستانی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان میں پاک فوج کے پانچ ہزار سپوت بھی شامل ہیں۔ عالمی برادری پاکستان میں دہشت گردی کیخلاف اپنا ردعمل ضرور دیتی ہے‘ اس میں عموماً توازن ہوتا ہے۔ اگر اقلیتیں ایسے حملوں کا نشانہ بنیں تو بعض رہنماوٴں کے بیان میں توازن کے بجائے تعصب نظر آتا ہے۔ پوپ فرانسس نے کل اور بانکی مون نے آج ایک جیسی بات کی ہے کہ حکومت پاکستان اقلیتوں کا تحفظ کرے۔

مسیحی رہنما?ں سمیت ہر کسی نے سانحہ یوحناآباد کی مذمت کی ہے۔ مسیحی رہنما?ں کی طرف سے اس سانحہ پر متعصبانہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔یوحناآباد میں ہونیوالی بدترین دہشت گردی پر ہر پاکستانی مغموم ہے۔ پوری دنیا میں اس بربریت کیخلاف مذمت ہورہی ہے۔ چودھری نثارعلی خان کا یہ جواز درست نہیں کہ جہاں 14 مسیحی مارے گئے تو سات مسلمان بھی لقمہ اجل بنے۔

ان میں سے دو کو سفاکیت کے ساتھ جلادیا گیا۔ مسیحی برادری کی طرف سے بھی یہ موقف درست نہیں کہ سانحہ یوحناآباد محض ایک اقلیت پر ظلم ہے۔ دہشت گردوں کا ٹارگٹ پاکستان اور پاکستانی ہیں‘ وہ اپنے مذموم مقاصد معصوم اور بے گناہ لوگوں کا خون بہا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ پہلے زیادہ اور اب نسبتاً کم کامیاب ہو رہے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ انکی حکومت سے پہلے روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے‘ اب ان میں کئی کئی دن کا وقفہ آجاتا ہے۔ وزیر داخلہ اس پر بھی مطمئن نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کا سرے سے خاتمہ ہونا چاہیے جس کیلئے حکومت کوششیں کررہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :