اپنے اپنے شہید ، اپنا اپنا ماتم

بدھ 25 مارچ 2015

Mubashir Mir

مبشر میر

گذشتہ کئی برسوں سے دہشتگردی کے واقعات پاکستان کے طول وعرض میں وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ بعض اوقات یہ سمجھ سے بالاتر ہوجاتا ہے پاکستان کا دہشتگردی کا پہلا واقعہ کس کو شمار کیا جائے ، لیکن وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل اور دو فوجی جنرلز کے جہاز کا کراچی اور حیدرآباد کے درمیان جنگ شاہی کے قریب گرنے کے واقعات بھی دہشتگردی ہی تھی۔ 60ء کی دہائی میں خیرپور سندھ کے قریب شیعہ مکتبہ فکر کے کئی افراد کا قتل ہوا۔

وہ بھی اُس وقت کی ایک بڑی دہشتگردی شمار کی جاسکتی ہے۔ مکتی باہنی کے لوگوں کا بھارت میں تربیت کے بعد مشرقی پاکستان میں نہتے پاکستانیوں کا قتل عام کسی دہشتگردی سے کم نہیں تھا۔ حکومتوں کے خلاف چلنے والی تحریکیں، دیگر جلسے جلوسوں پر ظلم و ستم ، زبان، نسل، رنگ، عقیدہ اور مذہب کے نام پر ابھی تک جوبھی جانیں لی گئیں ،دہشتگردی کی بدترین مثالیں ہیں۔

(جاری ہے)


بم دھماکوں کا ایک سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں شروع ہوا، کراچی کے بوہری بازار میں لرزہ خیز دھماکے نے شہرقائد میں ایک مختلف دہشتگردی کی ابتداء کی اور کئی اور مقامات بھی بم دہماکوں کی زد میں آئے۔ افغان روس جنگ سے لے کر اب تک جنوبی اور وسط ایشیاء بدترین بدامنی کا شکار نظر آتا ہے۔
9/11 نیویارک کے دھماکوں کے نتیجے میں زمین بوس ہونے والی عمارتوں کے واقعہ کے بعد پاکستان میں خاص طور پر ہزاروں افراد تہہ خاک جاچکے ہیں۔

اور لاکھوں اپنی معذوری کا بوجھ اٹھائے معاشرے میں عضوِ معطل کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور نہ جانے کئی گھرانے جن کا اس دہشتگردی پر معاشی قتل ہوگیا، اُن کا پُرسان حال کون ہے ؟ کچھ خبر نہیں ان کا خیال رکھنا کس کی ذمہ داری ہے۔ کسی کو کچھ علم نہیں ؟ یہ بلدیاتی مسئلہ ہے، صوبائی ذمہ داری ہے یا وفاقی، میرے خیال میں یہ قومی مسئلہ ہے اور ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

اگر ہزارہ کمیونٹی کو مارا گیا تو وہ لاشوں کا دھرنا دے کر گھنٹوں ٹھٹھرتی سردی میں سڑکوں پر بیٹھ گئے، اگر زائرین نشانہ بنے تو اُن کے ہم عقیدہ سڑکوں پر آگئے پھر اسی طرح جس کی عبادت گاہ نشانے پر آئی اور اس کے عبادت گذاروں کو لقمہ اجل بنایا گیا تو اُسی عقیدے کے افراد نے علم احتجاج بلند کردیا۔ اگر کسی صوفیائے کرام یا بزرگانِ دین میں سے کسی مزار پر دھماکہ کیا گیا تو اُن کے پیروکاروں نے احتجاج کا حق ادا کیا۔

اگر پولیس، فوج یا رینجرز اور ایف سی کا جوان یا افسر جام شہادت نوش کرتا ہے تو اُسے وہی ادارہ پورے اعزاز کے ساتھ سپردخاک کردیتا ہے اور احتجاج بھی نہیں کرتا۔ کسی سیاسی جماعت کے کارکن ماردیئے جائیں تو وہ سیاہ پٹیاں باندھ کر لاش اٹھا کر راستوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ الغرض کس کس کا نام لوں اور کس کس کو شمار کروں۔ بے درد ظالموں نے پھولوں کو بھی چمن سے اٹھا کر ویرانے میں رکھ دیا۔

جو بات خون کے آنسو رُلاتی ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی قوم خود کو ایک قوم کی طرح کیوں نہیں دیکھ رہے، دشمن اکیلا اکیلا کرکے مار رہا ہے اور ہم اکیلے اکیلے مررہے ہیں، اپنی اپنی لاشیں اٹھاتے ہیں ، اپنے اپنے شہیدوں کو اٹھاتے ہیں،ماضی کے قبیلوں کی طرح اپنے اپنے لوگوں کا سوگ مناتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں۔ صرف اپنے لوگوں کے لیے دھرنا دیتے ہیں، دوسروں کی باری آنے پر ان کا تماشہ دیکھنے فٹ پاتھوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اگر ہمارا کوئی ہم زبان یا ہم عقیدہ نہ ہو تو اُس کے لیے نہ آنسو بہاتے ہیں اور نہ ہی ماتم داری ۔ آخر ہم کیوں ٹکڑوں میں بٹ کر جی رہے ہیں۔ دشمن کی خواہش اور حکمت عملی کے مطابق مر بھی رہے ہیں۔
ابھی چند روز پہلے شکار پور سانحہ کے متاثرین نے کراچی آکر دھرنا دیا، کیونکہ شکار پور میں اُن کی آواز حکمرانوں کی سماعتوں کو متاثر نہیں کرسکی اور ان کو مجبوراً کراچی میں آکر ٹریفک بلاک کرنا پڑا۔

اب لاہور کے گرجا گھر نشانہ بنے ہیں تو ہر شہر میں مسیحی برادری سراپا احتجاج بن گئی۔مذمت کے روایتی بیانات بھی آنا شروع ہوگئے۔ دو افراد مشکوک قرار دے کر ہجوم نے مارنے کے بعد جلا بھی دیئے۔ سانحہ پشاور کو یاد کروں تو کم ازکم یہ ہوا تھا کہ پوری قوم ایک طرح سوچتی ہوئی نظر آنے لگی لیکن یہ سحر چند دنوں کے بعد ٹوٹ گیا ، جس کا مظاہرہ ہم نے راولپنڈی اور شکارپور کی امام بارگاہوں اور لاہور کے گرجا گھروں میں دھماکوں کے بعد دیکھ لیا۔

فرانس میں ہر نسل، رنگ اور عقیدے کے لوگوں نے مل کر احتجاج کیا، لیکن ہم ایسا نہیں کرپائے۔ ہم تو ایسی سوچ کے حامل ہوگئے ہیں کہ ہمارا میلاد النبی کا جلوس یا جلسہ ہو ، یوم عاشور ہو یا آزادی مارچ سب علیحدہ علیحدہ اور اپنا اپنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا نیشنل ایکشن پلان بھی ردی کی ٹوکری کی نظر ہورہا ہے۔ پولیس کے افسران فوج کے افسران کے ساتھ مل کر کام کرنے سے گھبرارہے ہیں، سیاسی جماعتوں کے کارکن مل کر کسی صورتحال کا مقابلہ کرنے پر آمادہ نظر نہیں آرہے، جبکہ مذہبی جماعتوں کے کارکن تو ایک دوسرے کو اپنا ازلی دشمن تصور کرتے ہیں۔

حتی کہ کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا فتویٰ جاری کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ایسی کیفیت تو پاکستان دشمنوں کیلئے اطمینان کا باعث ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو اس کیفیت سے باہر نکالا جائے۔ اگر چرچ پر دھماکہ ہوا تو حکومت کے اعلیٰ ذمہ داران اور تمام مکاتب فکر کے لوگ اُس جانب رخ کرتے تو صورتحال مختلف ہوجاتی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر دوسرے لوگ جائیں تو عوام مشتعل ہوجاتے ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ اگر حقیقی قیادت مسائل سے دور ہوجائے تو عوام کو مشتعل کرنے والے آگے آجاتے ہیں۔

جیسے بُرے لوگ سیاست میں تب آتے ہیں جب اچھے لوگ اُس سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔
ریاست کو اس پرکام کرنا چاہیے کہ عوام کے اس ہجوم کو ایک قوم بنائیں ۔ مظلوم چاہے کسی بھی رنگ، نسل ، علاقے، عقیدے اور مذہب کا ہو، اُسے گلے لگایا جائے، اُس کی داد رسی کی جائے، اُس کے آنسو پونچھے جائیں، اُسے زندگی میں لوٹ آنے کیلئے مدد کی جائے۔
ظالم ، ظالم ہے اُس کا کوئی عقیدہ ہے اور نہ ہی مذہب۔

اُسے قرار واقعی سزا دلوانے اور دینے میں تامل نہ کیا جائے۔ انصاف بلا قیمت اور بلا تاخیر ملنا شروع ہوگا تو ریاست پر اعتماد بڑھے گا ، یہی حب الوطنی کا نسخہٴ کیمیا ہے۔
سب کے شہید، ہمارے شہید اور سب کا ماتم ہمارا ماتم ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دشمن اس سے بھی چھوٹے اور حقیر حصے میں تقسیم کرکے مارے گا۔ اور ہم سب اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے شمار ہونگے جس کا انجام خسارہ ہی خسارہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :