مضر صحت اشیا اور پانی، بیماریوں کا سبب

ہفتہ 9 مئی 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی بیماریوں کے حملوں سے شہریوں کی کثیر تعداد ہسپتالوں میں پہنچنا شروع ہو جاتی ہے ،گرمی کی شدت میں اضافہ مکمل دیکھ بھال نہ ہونے اور بجلی کی لودشیڈنگ کی وجہ سے بچے ،خواتیں ا ور بوڑھے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان ابھی تک ان نو خطرناک بیماریوں پر بھی قابو نہیں پاسکا جن پر دنیا قابو پا چکی ان نو بیماریوں میںِ پولیو، خناق، کالی کھانسی، ٹی بی ، نمونیہ، خسرہ، تشنج ، ہپا ٹائٹس،گردن توڑ بخار ایسی خطرناک بیماریاں ہیں جن کا بروقت اعلاج نہ کیا جائے تو کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں بلکہ ان بیماریوں سے ہلاکتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، یوں تو یہ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ مضر صحت اشیاء کی بازار میں بلا روک ٹوک فروخت پر پابندی لگانے کے ساتھ ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہوئے ، سکولوں کالجوں کے باہر فروخت ہونی والی اشیا کا معیار چیک کرے ۔

(جاری ہے)

کیونکہ بہت ساری بیماریوں کا باعث مضر صحت اشیاء خوررد نوش کا استعمال ہی ہوتا ہے۔ جبکہ والدین کو بھی چاہیے وہ اپنے بچوں کو بازاری چیزیں کھانے کے رحجان پر قابو پائیں۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے عالمی یوم صحت منایا گیا جس میں صحت عامہ کی صورت حال موضوع بحث رہی عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ اندازاً 20 لاکھ اموات مضر صحت یا غیرمحفوظ کھانے کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔

ان میں زیادہ تر ہلاکتیں بچوں کی ہوتی ہیں۔غیر محفوظ کھانوں میں موجود بیکٹیریا، وائرس اور کیڑوں کو مارنے والے کیمیکل مادے ،200 سے زائد بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2010 ء میں کھانے پینے سے متعلق صرف بائیس بیماریوں میں تقریباً 582 ملین افراد مبتلا ہوئے۔
بیماریوں کے پھیلنے اور ان کے بچاو کے حوالے سے (PMA)پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں مضر صحت کھانے اور پانی کے باعث معدے اور چھوٹی آنت کی سوزش کی بیماری یا Gastroenteritis سب سے زیادہ پائی جاتی ہے، ”ڈائریا، ہیضہ، ہیپاٹائٹس اے، ای اور ٹائیفائڈ جیسی بیماریاں بھی بہت زیادہ دیکھنے میں آرہی ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ان بیماریوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اس کی وجوہات کی روک تھام پر سنجیدگی سے کام نہیں کر رہے۔
پاکستان میں ناقص خوراک کی وجہ سے ہونے والی اموات کے بارے میں کوئی باقاعدہ اعداد وشمار تو دستیاب نہیں ہیں تاہم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق محض آلودہ پانی کی وجہ سے سالانہ 30 لاکھ افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔

جبکہ لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کھانے کو محفوظ بنانے کا مسئلہ ہمیشہ ہی اہم رہا ہے کیونکہ اس پر یہاں کوئی توجہ نہیں دی جاتی، ”ملک میں کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ ملاوٹ ہے۔ ملاوٹ سے پاک اشیا یہاں دستیاب نہیں۔ چاہے وہ بچوں سے متعلق کوئی چیز ہو یا بڑوں کے لیے، ہر چیز میں ملاوٹ کا عنصر پایا جاتا ہے۔

شنید ہے کہ حکومت پنجاب اس ضمن میں سخت اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے چلو کچھ خیال تو آیا دیر سے ہی سہی۔
یہ بھی بہت عجیب بات ہم ڈاکٹر حضرات اپنے مریضوں کو صحت مند رہنے کے لئے تازہ سبزیاں کھانے کا مشورہ دیتے ہیں مگر دیکھا جائے تو وہ بھی مضر صحت عناصر سے محفوظ نہیں کیونکہ یہاں جو سبزیاں اگائی جاتی ہے یہ گندے پانی میں اگائی جاتی ہیں۔

ان کے لیے جو کھاد ڈالی جاتی ہے اس میں انتہائی مضر کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں۔ پھر ان کو بیچنے والا دن بھر اس کو گندے پانی میں ہی تازہ رکھنے کے لیے دھوتا رہتا ہے۔ اسی طرح ادرک لہسن کو تیزاب سے دھویا جاتا ہے پھلوں پر مصنوعی رنگ چڑھیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے اور بہت سے عوامل ہیں جو کھانے پینے کی اشیا کو غیر محفوظ بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ان پر کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا۔

فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا مواد (پانی) جہاں جہاں سے گزرتا ہے اس علاقے کی اجناس میں اس کا زہریلا اثر موجود ہوتا ہے جس کی روک تھام پر کوئی توجہ دی ہی نہیں جاتی۔
اگر ہم کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں اور ان پر عمل کرلیں تو اس بات کو کسی حد تک یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ہمارے گھروں میں پہنچنے والی غذا محفوظ ہے۔پاکستان کے گاوٴں میں کھانے پکانے کا بندوبست اب بھی نہایت پسماندہ ہے جسے بہتر کرنے اور شعوری مہم کے زریعے وہاں کے عوام کو حفظان صحت کے اصولوں سے روشناس کرایا جاسکتا ہے۔

جبکہ کھانے پینے کی اشیاٰ کی صفائی کا خیال رکھا جائے۔ کچے اور پکے ہوئے کھانوں کو بلکل علیحدہ رکھا جائے۔ کھانے،خصوصاً گوشت کو اچھی طرح سے پکایا جائے۔ کھانے کو صحیح درجہ حرارت میں رکھا جائے۔ صاف پانی کا استعمال کیا جائے۔ملاوٹ سے پاک معاشرے کے قیام کے لئے عوامی سطع پر آگاہی مہم چلائی جائے، جبکہ اپنے ارد گرد مضر صحت اشیا خورد نوش فروخت کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔

ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ارباب اختیار اور عوام خاص طور سے جو کھانے پینے کی اشیا کی پیداوار سے لے کر انہیں عام آدمی کے پیٹ تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں، وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عوام تک جو غذا پہنچ رہی ہے وہ صحت کے لیے مضر نہیں ہو گی۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق ملاوٹ کرنے والے کو وعید سنائی گئی ہے اور یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے جس کی روک تھام حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور یہ بھی حکومت ہی کہ زمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کے شہری ہر قسم کی مضر صحت اشیا کھانے پینے سے محفوظ رہیں صحت مند معاشرہ ہی ملکی تعمیر اور ترقی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، صاف پانی پر پورا کالم لکھا جاسکتا ہے مگر یہاں صرف اتنی گزارش ہے کہ پینے کے صاف پانی کے بغیر صحت مند زندگی کا تصور ہی محال ہے اور المیہ دیکھیے یہی صاف میسر نہیں پانی فروخت کرنے والی کمپیناں بھی صاف پانی مہیا کرنے سے قاصر ہیں منرل واٹر کے نام پر مہنگا اور مضر صحت پانی فروخت ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ نظر سے گزری تھی جس میں ان کمپنیوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ بوتلوں میں بند پانی فراہم کرنے والی کمپنیوں کا میعار انتہائی ناقص ہے انسانی جانوں سے کھیلنے والے تمام عناصر کے خلاف حکومت کو فوری ایکشن لینا چاہیے تا کہ شہری بیماریوں سے محفوط زندگی گزار سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :