ہرچندکہ زخمی ہیں قدم ،ساتھ دیاہے

جمعہ 22 مئی 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

پہلے خلیفہٴ راشد حضرت ابوبکرصدیق  سے امیرالمومنین کامنصب سنبھالنے کے بعدصحابہ کرام نے اُن سے سوال کیاکہ بیت المال سے اُن کی کتنی تنخواہ مقررکی جائے تو آپ نے فرمایا ” اُتنی ہی جتنی ایک مزدورکو ملتی ہے“ ۔صحابہ کرام نے حیرت سے پوچھا”کیاآپ اتنی قلیل تنخواہ میں گزارا کرلیں گے“؟۔ صدیقِ اکبر نے فرمایا”اگرایک مزدوراتنی تنخواہ میں گزارا کرسکتا ہے تومیں کیوں نہیں؟۔

اگریہ تنخواہ میرے لیے ناکافی ہوئی تو پھرمیں مزدورکی تنخواہ بھی بڑھادوں گا“۔ خلیفہ دوم حضرت عمر کے بارے میں تو ایسے بہت سے واقعات زبان زدِعام ہیں۔اُن کافرمان ہے” امیرالمومنین اُس وقت تک گیہوں کی روٹی نہیں کھا سکتاجب تک اُسے یقین نہ ہوجائے کہ اُس کی رعایامیں سے ہرایک کوگیہوں کی روٹی میسرہے “۔

(جاری ہے)

حضرت عثمان اورحضرت علی کی زندگیوں پر نظردوڑا کردیکھ لیجئے آپ کوکہیں بھی وہ شان وشوکت نہیں ملے گی جوقیصروکسریٰ کے شہنشاہوں کا خاصہ تھا۔

ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ ہمارے حکمران خلفہٴ راشدین کادَور لوٹانے کی کوشش کرتے کیونکہ ہم نے زمین کایہ ٹکڑاربّ ِ لَم یزل سے اِسی عہدکے ساتھ حاصل کیاتھالیکن ہمارے حکمرانوں نے توقیصر وکسریٰ کاسا وطیرہ اپنالیا۔ عہدیہ تھاکہ ہم زمین کے اِس ٹکڑے کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے ،نام بھی اسی لیے” اسلامی جمہوریہ پاکستان“ رکھا اورآئین میں بھی درج کردیاکہ دینِ مبین سے متصادم ہرآئینی شِق کواسلامی سانچے میں ڈھال دیاجائے گا ۔

حصولِ مقصدکے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھی تشکیل دے دی گئی لیکن آئین اسلامی بن سکانہ جمہوری ۔میرے رَبّ کاتو یہ فرمان ہے کہ حقوق اللہ تومعاف کیے جاسکتے ہیں(اگر اللہ چاہے تو) لیکن حقوق العباد ہرگزمعاف نہیں ہونگے ۔ ہمیں حقوق اللہ یادنہ حقوق العبادکی پرواہ۔ حکمران جب ہماری ہی رگوں سے کشیدکیے گئے خون میں سے بقدرِقطرہٴ شبنم ہمیں لوٹاتے ہیں تو اندازایسا کہ جیسے ہم بھکاریوں کووہ بھیک دے کر احسانِ عظیم کررہے ہوں۔

سچ کہا اقبال نے کہ
دستِ دولت آفریں سے مُزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
ہمارے ہاں دنیاجہاں کی ساری نعمتیں اشرافیہ کے لیے مختص اورخزاں دیدہ قوم کے لیے زرد پتوں کے سواکچھ بھی نہیں۔ ایک محترم کالم نگارنے اپنے کالم میں اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کے بارے میں لکھاکہ اراکینِ قومی اسمبلی کی تنخواہ 68 ہزارسے بڑھاکر ایک لاکھ 30 ہزار روپے ماہانہ کرنے کافیصلہ کرلیا گیاہے ۔

قومی اسمبلی یاسینٹ کے اجلاس میں شرکت پرہر رکن کولگ بھگ 4 ہزارروپے روزانہ ملتاہے اوریہ رقم قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت پربھی ہررکن کوملتی ہے ۔چیئرمین قائمہ کمیٹی کوگاڑی ،پٹرول اورعملے سمیت کئی اضافی مراعات بھی ملتی ہیں۔ہر رکنِ اسمبلی کو10 روپے فی کلومیٹرٹریول الاوٴنس ،3لاکھ روپے سالانہ کے ٹریول واوٴچرز ،90 ہزارروپے نقد ،جہازکی بزنس کلاس میں سفرکی سہولت ،سرکاری ریسٹ ہاوٴس اوربچوں اوروالدین کی طبی سہولتیں میسر ہیں۔

شنیدہے کہ اب مرکزی حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ اگرکوئی شخص پوری زندگی میں ایک بار بھی رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہواہو تواُسے اوراُس کے اہل وعیال کویہ طبی سہولتیں تا دمِ مرگ میسررہیں گی ۔ محترم لکھاری نے اپنے کالم میں دِل کے پھپھولے توخوب پھوڑے اوریہاں تک لکھ دیاکہ اگر اُن کاکہا غلط ثابت ہوجائے تو جوچور کی سزا ،وہ اُن کی سزالیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ حکمرانوں کی نظرمیں ہمارے اراکینِ پارلیمنٹ اتنے مجبور، بے کس اوربے بَس ہیں کہ اپنی جیب سے ادویات لینے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔

وہ تونانِ جویں کے محتاج ہیں پھر بھلا مہنگی ادویات کے لیے پیسہ کہاں سے لائیں؟۔ اسی لیے ہماری حکومت نے کمال مہربانی کاثبوت دیتے ہوئے اُن کی ”بماریوں،شماریوں“کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیاکیونکہ یہ کندھے قوم کاخون چوس چوس کر بہت مضبوط ہوگئے ہیں۔بھلے ٹیکسوں کی صورت میں ہمارے اپنے ہی خون سے کشیدکیے گئے پیسے سے ہمیں حکومتی ہسپتالوں سے ”پیناڈول“ کی ایک گولی بھی میسرنہ ہوپھربھی ہم خوش ہیں کہ گزشتہ 18 ماہ کے دَوران اراکینِ پارلیمنٹ پرلَگ بھگ29 کروڑ روپے صرف توہوئے۔

ہم سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں اپنے حکمرانوں کو جو”رہبرانِ قوم“ کی صحت کااتنا خیال رکھتے ہیں۔یہ انکشاف توہمارے لیے واقعی حیران کُن ہے کہ ہماری خواتین اراکینِ پارلیمنٹ ”ہَتھ“کرنے میں مردوں سے بھی ”دوہاتھ“ آگے ہیں۔ وہ اپنی صحت کابھرپورخیال رکھتے ہوئے بیماری کوقریب بھی پھٹکنے نہیں دیتیں لیکن اِس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ”طبی سہولیات“سے مستفیدنہیں ہوتیں۔

”حصولِ حق“ کے لیے اُنہوں نے کیاخوب راہ نکالی کہ وہ ادویات کے بدلے ”کاسمیٹکس“کی خریداری کرلیتی ہیں۔ہمیں اِن کی اِس ”واردات“پرتو کوئی اعتراض نہیں کہ ہمارا تعلق بھی طبقہٴ نسواں سے ہی ہے اورہم بھی حقوقِ نسواں کے علمبردار البتہ حکومتِ وقت سے یہ گلہ ضرورکہ 20 کروڑعوام کے لیے صحت کی مَد میں جی ڈی پی کاصرف 0.7 فیصد اور انگلیوں پہ گنی اشرافیہ کی پانچوں گھی میں۔

کہناہی پڑتاہے کہ
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
ایک طرف تواشرافیہ کے لیے دنیاجہاں کی نعمتوں کے دَرکھُلے جبکہ دوسری طرف گورنمنٹ ملازمین کایہ عالم کہ سفیدپوشی کابھرم قائم رکھنابھی مشکل بلکہ ناممکن ۔ایک طرف بُلٹ پروف گاڑیوں اورحفاظتی دستوں کے جلومیں سڑکوں پر دندناتی اشرافیہ اوردوسری طرف اُنہی سڑکوں پر احتجاج کرتے ،روتے پیٹتے ملازمین۔

ہم تویہی سمجھتے تھے کہ اب اِن ملازمین کی بھی سنی جائے گی لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق بجٹ 2015-16 ء میں تنخواہوں اور پنشن میں پانچ سے دَس فیصدتک اضافہ کیاجا رہاہے۔پوراسال سڑکوں پر احتجاج کرنے والے ملازمین کے ساتھ ایساسلوک سمجھ سے بالاتر ہے ۔اگر یہ خبردرست ہے توہم حکمرانوں سے دست بستہ عرض کریں گے کہ وہ بقدرِ قطرہٴ شبنم یہ اضافہ بھی اراکینِ پارلیمنٹ کی ادویات اوردوسری سہولتوں کے لیے مختص کردیں کیونکہ ملازمین تواِس اضافے کے بغیربھی خارزارِزیست کاسفر کاٹ ہی لیں گے لیکن ”نرم ونازک“اراکینِ پارلیمنٹ کو”تَتی ہوا“ نہیں لگنی چاہیے ۔

ہم اپنے مہربانوں کو یہ ہرگز نہیں کہیں گے کہ
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بَر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی
کیونکہ
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :